تحریر: شاہ نواز عالم مصباحی ازہری
بانی وسربراہ اعلی جامعہ حنفیہ رضویہ مانکپور شریف کنڈہ پرتاپ گڑھ یو۔پی۔ 9565545226
مثل مشہور ہے ” جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے“۔ یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص بے پرکی اڑاتا ہے یا ایسی بات کرتا ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔ میرا خیال ہے یکم اپریل کو کچھ ایسی ہی بے پرکی اڑائی جاتی ہے اور اس دن بے بنیاد باتیں پھیلائی جاتی ہیں ،پھر ان کے نتائج سے لطف اٹھایا جاتا ہے ، یہ ایک مغربی رسم ہے، جو مشرق میں بھی پوری طرح پھیل چکی ہے، اسے ”اپریل فول“ کہتے ہیں ، اس کے لیے یکم اپریل کا دن خاص کیا گیا ہے ، کیا بچے کیا بوڑھے اور کیا جوان سب اس دن کی مسرتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں؛ لیکن یہ مسرتیں حقیقی نہیں ہوتیں، کیوں کہ ان کی بنیاد تین چیزوں پررکھی جاتی ہے ، جھوٹ پر ، فریب پر اور دوسروں کی تضحیک پر ، ظاہر ہے وہ مسرت حقیقی نہیں کہلائی جاسکتی جوکسی کادل دُکھا کر، کسی کو فریب دے کر یا کسی کو اذیت میں مبتلا کرکے حاصل کی گئی ہو ، یوں تو مغرب کے لوگ بڑے دیانت دار، بڑے سچے، بڑے ہم درد اور کھرے بنتے ہیں ؛ لیکن اپریل کی پہلی تاریخ کو وہ اپنے ان تمام خود ساختہ اوصاف سے محروم ہو جاتے ہیں اور وہ لوگ بھی ان کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں جو مغرب کے اندھے مقلد ہوتے ہیں ، خود ان کے پاس تو سوچنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا، سو وہ نقالی کرتے ہیں ، مغرب کے لوگ اگر ننگے ہو کر ناچنا شروع کر دیں تو یہ بھی بے حیا بن کر ناچنے میں فخر محسوس کریں گے ، اس پورے عمل میں ان کے لیے قابل فخر چیز یہ ہے کہ وہ مغرب کی تقلید کررہے ہیں، اس سے بحث نہیں کہ وہ کتنے شرم ناک کام میں مشغول ہیں ، یکم اپریل کو ”اپریل فول“ منانے کی رسم بد کا بھی یہی حال ہے ، لوگ اس دن ایک دوسرے کو بے وقوف بناتے ہیں ، جھوٹ بولتے ہیں اور جب مخاطب جھوٹ کو سچ سمجھ لیتا ہے تب یہ خوشی سے قہقہے لگاتے ہیں، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے جھوٹ بول کر مخاطب کو بے وقوف بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے ، انہیں اس سے بحث نہیں ہوتی کہ اس جھوٹ سے کسی دوسرے کو کتنی تکلیف پہنچی ہے اور اسے کتنا ذہنی، جسمانی یا مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے ؟ بعض اوقات اس طرح کے بے ہودہ مذاق سے انتہائی تکلیف دہ صورت حال بھی پیدا ہوئی ہے او رمتعلقہ لوگوں نے برسہا برس تک اس کا خمیازہ بھگتا ہے ،
حتمی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کس بدبخت نے یہ رسم بد ایجاد کی ہے اور کیوں کی ہے ؟ اس سلسلے میں مؤرخین کے بیانات مختلف ہیں” انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا“ میں اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ فرانس میں سال نو کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا او رومیوں کے نزدیک یہ مہینہ مقدس تصور کیا جاتا تھا، کیوں کہ اس کی نسبت ان کی مشہور دیوی وینس کی طرف تھی ، یکم اپریل سال نو کے آغاز کا دن بھی تھا اور دیوی کی نسبت سے اس مہینے کو تقدس بھی حاصل تھا، اس لیے لوگ اس دن کو یادگار دن سمجھنے لگے اور جب سال میں یہ دن آتا تو خوشی اور مسرت سے جھومتے گاتے، ہسنی مذاق کرتے ، آہستہ آہستہ ہنسی مذاق اس دن کا لازمی عمل بن گیا ، اگر بات بے ضرر ہنسی تک رہتی تب بھی غنیمت تھا، لوگوں نے یہاں تک کیا کہ ہنسی مذاق کے نام پر جھوٹ بولنا اور دھوکا دینا شروع کر دیا ، جب کوئی شخص جھوٹ پر یقین کر لیتا ، یا کسی فریب کا شکار ہو جاتا تو اس کا مذاق اڑایا جاتا ، آہستہ آہستہ معاشرے میں مذاق کی یہ بد نما اور تکلیف دہ شکل اتنی عام ہوئی کہ لوگ یکم اپریل کو عام معافی کا دن سمجھ کر کمینگی کی تمام حدود کو پار کرنے لگے، اسی انسائیکلو پیڈیا میں یہ وجہ بھی بیان کی گئی ہے کہ مارچ کی آخری تاریخوں سے موسم میں تغیر شروع ہو جاتی ہے ، بعض افراد اس موسمی تغیر کو قدرت کا مذاق قرار دیتے ہیں ، گویا قدرت موسم کی اس غیر یقینی صورت حال کے ذریعے ہمیں بے وقوف بنا رہی ہے ، لہٰذا کیوں نہ ہم ایک دوسرے کو بے وقوف بنا کر قدرت کے اس مذاق کاجواب دیں؟ اگر یہ وجہ ہے تو انتہائی مہمل اور بے ہودہ ہے ، اول تو یہ سوچنا ہی لغو ہے کہ الله تعالیٰ اپنے بندوں سے اس طرح کا مذاق کرے گا، پھر اگر کوئی اپنی ناقص عقل کی بنیاد پر موسم کے تغیرات کو قدرت کا مذاق قرار دینے کی حماقت بھی کرتا ہے تو آپس میں انسانوں کا ایک دوسرے کو بے وقوف بنانے کے فعل سے اس کا کیا تعلق؟
انیسوی صدی عیسوی کی مشہور انسائیکلوپیڈیا”لاردس“ نے ایک دوسری ہی وجہ بیان کی ہے اور اگر یہ وجہ صحیح ہے تو واقعی یورپ اور باقی دنیا کے عیسائیوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ وہ خود ہی اپنے پیغمبر کا مذاق اڑا رہے ہیں۔”لاردس“ نے یہودیوں اور عیسائیوں کے مستند حوالوں کی بنیاد پر لکھا ہے کہ یکم اپریل وہ تاریخ ہے جس میں رومیوں اور یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مذاق اڑایا تھا اور انہیں تکلیف پہنچائی تھی ، لوقا کی انجیل میں یہ روایت بیان کی گئی ہے کہ جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کیا وہ ان کا مذاق اڑاتے ، ان کی آنکھیں بند کرکے طمانچے مارتے اور کہتے کہ اب اپنی ”نبوت کے ذریعے بتلا کہ تجھے کس نے مارا ہے؟ “ گرفتاری کے بعد انہیں یہودی علماء کے سامنے پیش کیا گیا ، وہاں سے دوسری عدالتوں میں بھیجا گیا۔ ”لاردس“ کا کہنا ہے کہ مختلف عدالتوں میں بھیجنے کا مقصد انہیں تکلیف پہنچانا اوران کا مذاق اڑانا تھا ، کیوں کہ وہ واقعہ یکم اپریل کو پیش آیا تھا، اس لیے یہودیوں نے اس دن کو یاد گار دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔
یہودیوں کی خبیثانہ فطرت سے یہ بعید نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ انہوں نے یہ ناشائستہ اور غیر مہذب سلوک کیا ہو ، مگر عیسائیوں کو کیا ہو گیا کہ وہ اپنے معتبر مآخذ ومراجع کی اس حتمی صراحت وشہادت کے باوجود یہودیوں کی تقلید میں خود اپنے پیشوا کا مذاق اڑا رہے ہیں؟ واقعی اندھی تقلید قوموں کی فکری قوتیں سلب کر لیتی ہے ، سوچنے کی بات یہ ہے کہ”اپریل فول“ کس کے خلاف جارہا ہے؟ اس رسم کے ذریعے کس مذہبی شخصیت کی تضحیک وتذلیل کی جارہی ہے، یہودی ہی نہیں، عیسائی تک یہ مانتے ہیں کہ جس دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتارکیا گیا اور انہیں ماراپیٹا گیا، ان کا مضحکہ اڑایا گیا اسی دن کی یاد گار کے طور پر یہ بری رسم شروع کی گئی ہے ، عیسائی تو شاید یہودیوں کی کسی غلط بات کو غلط قرارا نہ دے سکیں ، مگر مسلمانوں کو تو الله نے ایمانی قوت اور فراست عطا کی ہے، انہیں تواس فریب میں نہ آنا چاہیے، ان کے نزدیک بھی یہ رسم اس لحاظ سے غلط ہونی چاہیے کہ اس میں ایک عظیم پیغمبرکا اسم گرامی شامل ہے ، مانا کہ تاریخی اعتبار سے یہ واقعہ غلط ہے، لیکن اس غلط واقعے کی بنیاد تو ایک اولو العزم پیغمبر کی اہانت پر رکھی گئی ہے۔ بقول ایک دانشور ” عیسائیوں کا مزاج ومذاق اس معاملے میں عجیب وغریب ہے، جس صلیب پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے خیال میں سولی دی گئی بہ ظاہر قاعدے سے تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ ان کی نگاہ میں قابل نفرت ہوتی کہ اس کے ذریعے حضرت مسیح علیہ السلام کو ایسی اذیت دی گئی لیکن یہ عجیب بات ہے کہ عیسائی حضرات نے اسے مقدس قرار دینا شروع کر دیا اور آج وہ عیسائی مذہب میں تقدس کی سب سے بڑی علامت ہے۔“
یکم اپریل کو تہوار اور جشن کی طرح منائے جانے کے پیچھے ایک اور تاریخی روایت بھی ہے، مغرب کی مسلم دشمنی سے یہ چیز بعید نہیں کہ واقعی اس دن کو اسی لیے یادگار دن بنایا گیا ہو، جو مسلمان اس دن کے بے ہودہ لغویات میں ذوق وشوق کے ساتھ حصہ لیتے ہیں وہ ذرا ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچیں کہ کیا واقعی وہ محض مسرت وشادمانی کے چند لمحات کشید کر رہے ہیں یا اپنی تاریخ کی ایک الم ناک داستان پر خود ہی قہقہے لگا رہے ہیں اسپین پر مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک بڑی شان کے ساتھ حکومت کی ہے، وہاں کی عالی شان مسجدیں اور سربہ فلک محل آج بھی اس شان دار دور حکومت کی کہانی سناتے نظر آتے ہیں ، مسلمانوں کی باہمی چپقلش اور مسلم حکمرانوں کی عیش کوشی نے عیسائیوں کو دوبارہ اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کیا ، اسپین کی تمام ریاستیں ایک ایک کرکے مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلتی چلی گئیں ، پہلے طیطلہ، پھر اشبیلیہ، پھر قرطبہ اور آخر میں غرناطہ ، مسلمان پسپا ہوتے ہوتے غرناطہ میں جمع ہوگئے تھے اور یہ آخری مورچہ تھا،جہاں مسلمانوں کے قدم جم سکتے تھے ، لیکن شکست مقدر تھی ، حالات ایسے پیدا ہوتے چلے گئے کہ آخری مسلم حکمران ابو عبدالله نے الحمراء کی چابیاں کلیسا کے حوالے کر دیں، کلیسا نے ابو عبدالله سے ایک معاہدہ کیاتھا، جس کی ایک شق یہ بھی تھی کہ جو مسلمان غرناطہ میں باقی رہ گئے ہیں ان کی جان، مال اور عزت وآبرو کی حفاظت کی جائے گی، لیکن اس معاہدہ پر عمل نہیں کیا گیا ، اس کے برعکس مسلمانوں کو ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا گیا، انہیں عیسائی مذہب اختیار کرنے پرمجبور کیا گیا، جن لوگوں نے یہ حکم ماننے سے انکار کیا ان کو باغی قرار دے کر سزائیں دی گئیں ، بے شمار مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا، کچھ لوگ جان بچا کر بھاگ گئے اور پہاڑوں اور غاروں میں جا چھپے ، ایسے ہی لوگوں کو عیسائیوں نے یہ پیش کش کی کہ ان کو بہ حفاظت مراکش پہنچا دیا جائے گا، مسلمان ان کے جھانسے میں آگئے ، ان کے سامنے اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا، ایک نئی زندگی پانے کی آرزو میں بچے کچے اور لٹے پٹے مسلمان عیسائیوں کے فراہم کردہ جہاز میں سوارہو گئے، جب یہ جہاز بحیرہ روم میں پہنچا تو اسے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت سمندر میں غرق کر دیا گیا، یہ الم ناک اور انسانیت سوز واقعہ یکم اپریل1498ء کو پیش آیا تھا، مغربی اقوام یہ دن اس لیے مناتی ہیں، تاکہ مسلمانوں کے بے وقوف بنا کر انہیں غرق آب کرنے کے یہ لمحات یادگار بنائے جاسکیں؛ اگر اس پہلو سے دیکھا جائے تواس دن کی کسی سرگرمی میں حصہ لینا انتہائی بے غیرتی کی بات ہے۔
اگر اپریل فول کے پیچھے یہ تمام واقعات نہ بھی ہوں تب بھی فی نفسہ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہو سکتا کہ وہ اس بے ہودہ رسم میں کسی بھی طرح کا کوئی حصہ لے ، کیوں کہ اس میں تین گناہ ایک ساتھ موجود ہیں ،ایک تو جھوٹ، جس کی اسلام میں سخت مذمت وارد ہے ، جھوٹ ایک ایسی برائی ہے جسے بہت معمولی سمجھا جاتا ہے ، حالاں کہ یہ بے شمار برائیوں کی جڑ ہے ، ایک جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے کئی جھوٹ بولنے والے کا کردار مجروح ہوتاہے ، معاشرے میں اس کا اعتماد اور وقار ختم ہو جاتا ہے، اگر وہ سچ بھی بولتا ہے تو لوگ اس کو جھوٹ ہی سمجھتے ہیں ، حدیث شریف میں ہے، سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سچائی اختیار کرو ،اس لیے کہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے او رنیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے ، آدمی سچ بولتا ہے، اور سچ بولنے میں لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ الله کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے ، جھوٹ سے بچو، اس لیے کہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے ، آدمی جھوٹ بولتا ہے او رجھوٹ میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ الله کے یہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے ۔“ ( بخاری:2261/5، رقم الحدیث:5743، مسلم:2012/2 ،رقم:2607)
ایک اور حدیث میں ہے ،سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا کیا تمہیں کبیرہ گناہوں میں سے تین زیادہ بڑے گناہ نہ بتلاؤں؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول الله !ضرور بتلائیں ، فرمایا: الله تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اورکسی انسان کو قتل کرنا، راوی کہتے ہیں کہ جس وقت آپ نے یہ بات ارشاد فرمائی اس وقت آپ ٹیک لگائے تشریف فرما تھے ،یہ کہہ کر آپ ( سیدھے ہو کر) بیٹھ گئے اور فرمایا: خبردار! جھوٹی بات او رجھوٹی شہادت ( بھی بڑا گناہ ہے) ۔آپ نے اس جملے کا اس قدر تکرار فرمایا کہ ہم (دل میں ) کہنے لگے کاش !آپ سکوت اختیار فرمالیں (بخاری :2230/5، رقم الحدیث:5632۔ مسلم:91/1، رقم الحدیث:88)
بعض لوگ دوسروں کو ہنسانے کی خاطر جھوٹ بولتے ہیں ، ایسے لوگوں کے متعلق حدیث شریف میں ہے ” تباہی ہے ایسے شخص کے لیے جو دوسروں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے۔“ ( ابوداؤد:716/2، رقم الحدیث:4990)
کسی کو دھوکا دینا بھی کچھ کم بڑا گناہ نہیں ہے ، ایک حدیث میں ہے: ”من غشنا فلیس منا“ ( مسلم:99/1، رقم:101)
”جو شخص ہمیں دھوکہ دے وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے۔“
یعنی حقیقی معنی میں وہ شخص مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ہے، جو فریب دیتا ہے ، تیسرا گناہ جویکم اپریل کو رسم منانے کی صورت میں ہمارے نامہٴ اعمال میں لکھا جاتا ہے، وہ کسی کے ساتھ تمسخر کرنا اور اس کا مذاق اڑانا ہے، مذاق اڑانا یہ ہے کہ کسی شخص کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جائے کہ دوسرے اسے دیکھ کر ہنسنے لگیں یا حقیقت ظاہر ہونے پر وہ خود اپنے دل میں شرمندگی محسوس کرنے لگے، گو اس کا اظہار نہ کرے، حضرت عبدالله بن عباس روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” تو اپنے بھائی سے جھگڑا مت کراورنہ اس سے (ناروا) مذاق کر اور نہ کوئی ایسا وعدہ کر جسے تو پورا نہ کر سکے۔“ (ترمذی:359/4، رقم الحدیث:1995)
قرآن کریم میں ہر طرح کے تمسخر سے منع کیا گیا ہے، فرمایا: ”اے ایمان والو! نہ مردوں کو مردوں پر ہنسنا چاہیے، ہو سکتا ہے کہ جن پر ہنستے ہیں وہ ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چاہیے، ہو سکتا ہے جن پر وہ ہنستی ہیں ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں۔“ ( الحجرات:11)
عام طور پر ”اپریل فول“ کو ایک بے ضرر اور سادہ سا مذاق تصور کیا جاتا ہے ؛ لیکن یہ بے ضرر اور سادہ مذاق نہیں ہے، اگر اس کے تاریخی پس منظر کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تب بھی یہ جھوٹ، فریب اور استہزاء جیسے بڑے گناہوں کا مجموعہ ہے اور الله اور اس کے رسول کو یہ پسند نہیں ہے کہ مسلمان ان گناہوں میں مبتلا ہوں ، ایک اور گناہ جوان تمام گناہوں کے نتیجے میں سرزد ہوتا ہے وہ ایذاء مسلم کا گناہ ہے ، آپ خواہ جھوٹ بولیں ، یا فریب دیں یا مذاق اڑائیں ،اس سے مسلمان کو تکلیف ضرور پہنچے گی اور ایذائے مسلم کتنا بڑا گناہ ہے اس کا اندازہ قرآن کریم کی اس آیت کریمہ سے لگایا جاسکتاہے ، فرمایا: ” اور جو لوگ ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو بغیر کسی جرم کے ایذا پہنچاتے ہیں وہ لوگ بہتان اورصریح گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔“( الاحزاب:58)
”اپریل فول“ کے سلسلے میں اسلام کا موقف بالکل واضح ہے ، اس میں کسی طرح کے جواز کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے، حضرات مفتیان کرام نے بڑے مدلّل انداز میں اسلام کے اس موقف کا اظہار کیا ہے ، چنانچہ ایک فتوی ملاحظہ فرمائیں ۔۔ ”اپریل فول منانا یہ نصاریٰ کی سنت ہے، اسلامی طریقہ نہیں ہے ، جھوٹ بولنا حرام ہے ، حدیث شریف میں ہے :”ویل للذی یحدث، فیکذب، لیضحک بہ القوم، ویل لہ ویل لہ․“ ( ابوداؤد:716/2، رقم الحدیث :4338)
”اس آدمی کے لیے ہلاکت ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے ۔“اور حدیث میں ہے: ” کوئی بندہ پورے ایمان کا حامل نہیں ہو گا، جب تک وہ جھوٹ کو ترک نہ کر دے، جھوٹ خواہ ہنسی مذاق میں ہو، خواہ لڑائی جھگڑے میں۔“ (مسند احمد:352/2، رقم الحدیث:8615)
اس کے علاوہ حقیقت یہ ہے کہ جھوٹ بولنا بڑی خیانت ہے ،کیوں کہ انسان الله اور لوگوں کا امین ہے، اس کو سچ ہی بولنا چاہیے، جھوٹ بولنا امانت کے منافی ہے ،حدیث شریف میں ہے :”یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی بات اس طرح کہو کہ وہ تم کو سچا جان رہا ہو، حالاں کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔“ (ابوداؤد:711/2، رقم الحدیث:4971)
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس لغو، بے ہودہ اور خلاف تہذیب مذاق اور وقارِ انسانیت کے منافی اس رسم سے دور رہیں، یہی اسلام کا مطالبہ بھی ہے اور یہی عقل وخرد کاتقاضا بھی ہے۔