تحریر:عبدالقاسم رضوی امجدی
خادم مسلک اعلیٰ حضرت نوری دارالعلوم نور الاسلام قلم نوری مہاراشٹر
رکن:تحریک فروغِ اِسلامشعبہ نشر و اشاعت
اِمام احمد رضا علیہ الرحمۃ، اللّٰہ تعالیٰ کے اُن مقرب اور برگزیدہ بندوں میں سے ہیں جن کو لوح و قلم کے سہارے تو بہت کُچھ ملا ہی تھا مگر فیض ربّ قدیر سے وہ کُچھ ملا جِس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا یہی وہ علم ہے جِس کی جھلک اُن کے ہر تصنیف میں نظر آتی ہے یہی وہ فکر رسا ہے جِس کو دیکھ دیکھ کر اہل علم حیران ہوئے جاتے ہیں ،اِمام احمد رضا علیہ الرحمۃ کے مطالعہ و تحقیق کا معیار بہت بلند تھا ،آپ نے کبھی لکھی لکھائی اور سنی سنائی پر تکیہ نہ فرمایا بلکہ اصل متون کا خود مطالعہ فرمایا اور جب تک خود مطمئن نہ ہوتے حوالہ نہ دیتے اُن کے پایہ تحقیق کا اندازہ "مجب العوار عن مخدوم بہار” کے مطالعہ سے ہوتا ہے جِس میں آپ نے تین کتاب کی تحقیق سے متعلق وہ نکات و اُصول بیان فرمائے ہیں جو دورِجدید کے محققین کے وہم و خیال میں بھی نہیں اور دُنیا کا کوئی بھی محقق متن کے لیے وہ اہتمام نہیں کرتا جو اِمام احمد رضا علیہ الرحمۃ اہتمام فرماتے تھے،اِمام احمد رضا علیہ الرحمۃ نے اپنے تمام نگارشات میں اُصول تحقیق کا پورا پورا خیال رکھا ہے وہ ایک محتاط محقق عاقبت اندیش مُدبر اور بلند پایہ مفکر تھے،اِس حزم و احتیاط کے باوجود آپ کے کتابوں کی تعداد ہزار سے تجاوز کر چکی ہے،اِمام احمد رضا علیہ الرحمۃ کی شخصیت ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک جہان اور سمندر ہے جو یہاں آتا ہے گم ہو جاتا ہے اِمام احمد رضا علیہ الرحمۃ اس انداز سے تحقیق فرماتے ہیں کہ بات کی تہہ تک پہنچ جاتے اور تاریک گوشوں کو منور کر دیتے۔کبھی ایک اصل کے تحت جزئیات جمع کر دیتے ہیں ،کبھی اُصول کی روشنی میں نئے جزئیات کا استخراج کرتے ہیں جس سے وسعت فکر و نظر اور قوت استنباط کا پتہ چلتا ہے، لغزشوں اور خطاؤں پر بھی گرفت کرتے ہیں مگر ادب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے بزرگوں کے حُضور ہمیشہ جُھکے رہتے۔۔
اِمام احمد رضا علیہ الرحمۃ کے تحقیق کی جھلکیاں اتنی وسیع ہیں کہ ایک ضخیم مقالہ تیار ہو سکتا ہے، آپ کی تحقیق اور فقہی بصیرت کی وسعت نظر کا حال نہ پوچھئے۔۔آپ کے وسعت نظر کی رسائی اُن بلندیوں پر ہے جہاں فقہاء کی نظر بھی نہ پہونچ سکیں،اِمام احمد رضا علیہ الرحمۃ نے اپنی تحقیق کے ذریعے نئے مسائل میں احکام کا استخراج کر کے بتا دیا کہ مسائل جدیدہ کے استخراج میں کسی نئے محقق یا مجدّد کی ضرورت نہیں بلکہ علم فقہ میں بالغ نظری کی ضرورت ہے۔اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے وہ وہ کار ہائے نمایاں انجام دیے کہ جسکی مثال نہیں ملتی یہی وجہ ہے کہ چوٹی کے علماء عرب وعجم نے آپ کو چودہویں صدی کا مجدد قرار دیا۔ اگر ہم اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی بے مثال علمی اور تحقیقی خدمات کو ان کی 65سالہ زندگی پر تقسیم کریں تو ہر 5گھنٹے میں اعلیٰحضرت اس امت کو ایک کتاب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں،بلاشبہ یہ وہ خدمات ہیں جو کوئی ادارہ اور انسٹیٹیوٹ ہی کرسکتا ہے جسے بریلی کی سرزمین کے اس بوریہ نشیں نے تن تنہا کر دکھایا۔