وقتِ رخصت ترا ہو چلا ہے
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
دل یہ کہتے ہوئے رو رہا ہے
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
تیری قربت سے رحمت ملی تھی
ہر سو بزمِ مسرت سجی تھی
تیری فرقت سے غم چھا گیا ہے
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
وہ تراویح پڑھنا پڑھانا
اور افطار کرنا کرانا
رونقیں سب لیے جا رہا ہے
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
صبح سحری میں جگنا جگانا
اور پہلے تہجد کا پڑھنا
ہم سے یہ بھی جدا ہو رہا ہے
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
نام ہے تیرا ماہِ محبت
تو ہے شیدا کی تسکین و راحت
تجھ سے ماحول نوری ملا ہے
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
جس نےمسجد میں سب کو بلایا
خالقِ کل جہاں سے ملایا
چھوڑ کر وہ ہمیں جا رہا ہے
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
دل سے کہتے ہیں رمضان والے
رب کرے ماہِ رمضاں نہ جائے
گر چہ لب پر ہمارے صدا ہے
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
تو ہے ذیشان فضلِ خدا سے
محترم صدقۂِ مصطفیٰ سے
لمحہ لمحہ ترا پر ضیا ہے
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
رزق میں تونے برکت دلائی
تونے مولیٰ کی رحمت لٹائی
تونے موسم خوشی کا دیا ہے
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
آخری جب سے آیا ہے عشرہ
جب سےہےتیری رخصت کاشہرہ
تب سے غمگین احمد رضا ہے
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
نتیجہ فکر: غلام احمد رضا نیپالی