شوال المکرم مذہبی مضامین

خوشیاں بانٹنے، اخوت و بھائی چارگی اور مصافحہ و معانقہ کا نام عید ہے

ازقلم: غوثیہ سلامی
معلمہ جامعہ گلشن مصطفی بہادرگنج، ٹھاکردوارہ، مراداباد، یو۔پی۔

ماہ رمضان جس کی برکت اور عظمت کی گواہی قرآن و حدیث میں خود اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے،اسی کا آخری عشرہ جو جہنم سے آزادی کا ہے اہل ایمان پر اپنے فیضان کی بارش برسا رہا ہے۔بچوں،نوجوانوں اور بڑوں کی بڑی تعداد اعتکاف میں ہے ،دوسری طرف عیدالفطر کی آمد آمد ہے دنیا کے دیگر مذاھب و ادیان کی طرح اسلام نے بھی اپنے پیروکاروں کو تہوار کی شکل میں خوشی و مسرت کے اظہار کے مواقع مرحمت فرمائے ،انھیں میں سے ایک اللہ کی عطا کردہ نعمت عید ہے،جو ہمیں خدا پرستی،خوشی،خوشیاں بانٹنے، الفت، ہمدردی مصافحہ و معانقہ ، خیر خواہی اور بھائی چارے کی پاکیزہ روح سے منور کرنا چاہتا ہے۔احتیاط کا دامن تھامتے ہوئے اس دن کو ہمیں اپنے گناہوں کی مغفرت کا دن بنانا ہے اور عید سعید کی خوشیوں میں تمام مومنین کو شامل کرنا ہے۔

"عید” عربی زبان کا لفظ ہےجو”عود”سے مشتق ہے،جس کے معنی ہیں "لوٹنا” اور”خوشی” کیوں کہ یہ دن مسلمانوں پر ڈھیر ساری خوشیاں لےکر بار بار آتا ہے،جب کہ "فطر” کے معنی روزہ کھولنے کے ہیں،یعنی روزہ ختم کرنا ۔عیدالفطر کے دن روزوں کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے،لہذا اس تہوار کا نام "عیدالفطر” قرار دیا گیا۔ اس روز اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو روزوں اور عبادت رمضان کا ثواب عطا فرماتا ہے۔اس تہوار کا آغاز "624”ء میں ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے قبل اہل مدینہ دو عیدیں مناتے تھے،جن میں وہ لہو ولعب میں مشغول رہتے تھے، بے راہ روی کے مرتکب ہوتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ ان دونوں کی حقیقت کیا ہے؟ لوگوں نے عرض کی کہ عہد جاہلیت سے ہم اسی طرح دو تہوار مناتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : "اللہ نے اس سے بہتر دو دن تمھیں عطا کیے ہیں : ایک "عیدالفطر” اور دوسرا "عیدالاضحی” کا دن۔ ہمیں عید سعید کے دن زمانۂ جاہلیت کی طرح لہو ولعب ،غیر شرعی کاموں، بری مجلسوں میں جانے،ناچنے،گانے اور بے ہودہ پروگراموں میں شرکت سے اجتناب ضروری ہے۔ کیوں کہ پورے ماہ رمضان قید رہنے کے بعد اس دن شیطان جو ہمارا ازلی دشمن ہے آزاد ہو جاتا ہے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس کے بہکاوے میں آکر ماہ رمضان میں سمیٹی نیکیوں کو ضائع کردیں اور عذاب الٰہی کے مرتکب ٹھریں۔ماہ رمضان میں بھوک ،پیاس اور کثرت عبادت کا فلسفہ دین اسلام کا مغز ہے،مگر ہمارے معاشرے نے اس کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔بھوک و پیاس سے ماہ رمضان کا مقصد ایسی تربیت حاصل کرنا تھا جو سال کے باقی 11/مہینوں میں بھی نظر آتا لیکن عید کے دن کی ابتدا سے ہی رمضان کا سارا رنگ و نور ناچ ،گانا کرکے ماہ رمضان کی روح کو نقصان پہنچایا جاتا ہے،مہنگے ترین ملبوسات پہن کر غریبوں،مسکینوں اور لاچاروں کا مزاق اڑایا جاتا ہے ،بازاروں اور میلوں میں نوجوان لڑکے و لڑکیوں کا اس قدر اختلاط ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ شانوں سے شانے تکراتےہیں ، جب کہ روایتوں میں آتا ہے "تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی کیل چبھودی جائے یہ اس سے بہتر ہے کہ اس کا جسم کسی ایسی عورت سے چھو جائے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔”آپس میں چھیڑ چھاڑ ہنسی مزاق ہوتا ہے ،لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کے لیے تحفے خریدتے ہیں خواہ والدین یا بھائی و بہن کے لیے نہ خرید سکیں، لڑکیاں بے پردہ گھومتی ہیں ،اجنبی مردوں کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر چوڑیاں پہنی جاتی ہیں یا مہندی لگوائی جاتی ہے ۔یہ بھی زنا کی ایک شکل ہے۔
"بخاری شریف” میں حضرت ابو ھریرہ سے مروی ہے: کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی کے لیے اس کے حصہ کا زنا مل کر رہےگا ،شہوت کی نظر سے دیکھنا آنکھوں کا،شہوانی باتوں کا سننا کانوں کا،پکڑنا ہاتھ کا، اس کے لیے چل کر جانا پیروں کا ،خواہش اور تمنا کرنا دل کا زنا ہے ،شرمگاہ یا تو زنا کا عمل بیٹھے گی یا ارتکاب سے رک جائےگی۔لہذا عید کا تصور اور مقصد محض ناچ و گانا، تفریح کرنا، سنیما ہال جانا تہوار نہیں ہے ،بلکہ یہ دن خدا کے شکر و عبادت، غریبوں اور مسکینوں کا خیال رکھنے کا ہے۔ جیسا کہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نےفرمایا: "عید ان کی نہیں جنھوں نے عمدہ لباس زیب تن کیا ،بلکہ حقیقتا عید ان کی ہے جو خدا کی وعید اور پکڑ سے ڈر گئے ،عید ان کی نہیں جنھوں نے خوشبو استعمال کی عید تو ان کی ہے جنھوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور اس پر قائم رہے۔”

عید سعید کی خوشیوں کے موقع پر اپنی خوشیوں میں ان کو ضرور شامل کرنا چاہیے جن کا کوئی پوچھنے والا نہ ہو ،کیوں کہ ہمارا پیارا مذہب اسلام سب سے زیادہ معاشرتی اور سماجی فلاح و بہبود، مساوات اور رواداری کا درس دیتا ہے اور آسودہ حال مسلمانوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ معاشی طور پر بد حال مسلمانوں کا سہارا بنیں ۔اپنے لیے تو سب جیتے ہیں ،جینا وہ ہے جو دوسروں کی خاطر ہو اسی لیے ہمارے مذہب نے مومنوں کو بھائی بھائی قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں "انما المؤمنون اخوة” کہ سارے مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں، فرماکر اخوت و بھائی چارگی کو ایمان کی اصل اور جڑ قرار دیا۔ اوربھائی بھائی کا مطلب واضح فرمایا کہ اگر غربا و مساکین صاحب ایمان ہوں تو وہ بھی ہمارے بھائی ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "خدا کی قسم وہ مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوک سے کروٹیں بدلتا ہے ۔”لہذا ہمیں چاہیے کہ اپنی خوشیوں میں غرباو مساکین اور محتاجوں کو بھی شامل کریں،رسمی رکھ رکھاو کو بالاے طاق رکھتے ہوئے غریب لوگوں سے بھی گلے ملیں مصافحہ و معانقہ کریں ،سچی خوشی وہی ہوتی ہے جو آپ کو رد عمل کے طور پر ملے اور کسی دکھی ،غریب ،کمزور سے مصافحہ و معانقہ کیا جاتا ہے تو اس سے یقینا مسرتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔اسی لیے عید کے دن کو یادگار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم خوشیاں پانے کی تمنا رکھنے کی بجائے خوشیاں بانٹیں ،کیوں کہ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں ،یہی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہی تو زندگی کی راہوں میں تازگی اور مسرتوں کے چراغ ہیں، اگر ان کی روشنی دوسروں کی راہوں میں بکھیری جائے تو ان میں کمی نہیں ہوگی۔

صدقۂ فطر کی ادائیگی

غربا و مساکین کو خوشیوں میں شامل کرنے کے لیے امت کےصاحب نصاب طبقے پر صدقۂ فطر کو فرض کیا نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صدقہ فطر روزوں کو لغو اور گندی باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مساکین کی روزی کے لیے مقرر فرمایا.” جس نے نماز عید سے پہلے ادا کیا تو یہ مقبول صدقہ ہے اور جس نے بعد میں ادا کیا تو یہ دوسرے صدقات کی طرح ایک صدقہ ہے۔ رمضان المبارک کے اس مقدس مہینے میں ہم سب کی یہ دینی ،ملی ،سماجی، معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے صدقات و خیرات سے غربا کی حتی المقدور مدد کریں ۔
صدقہ فطر کی مقدار ہے: "نصف صاع گیہوں یا اس کا آٹا یا ستو یا کھجور اور ایک صاع منقع یا کشمش۔

اظہار خوشی کا ایک طریقہ مصافحہ ومعانقہ بھی ہے

عید چوں کہ صیام کا انعام ہے،اس لیے جو خوشی اور مسرت کی کیفیت اس تہوار میں پائی جاتی ہے وہ کسی اور میں نہیں ،لیکن ہمارے بدلتے رویوں اور مصنوعی ماحول کی وجہ سے عید کی حقیقی خوشیاں ماندھ پڑ جاتی ہیں ، عید کے موقع پر حقیقی خوشی مصافحہ، معانقہ ، ملنے اور مل کر بیٹھنے سے حاصل ہوتی ہے۔جو کہ اظہار خوشی کا ایک طریقہ ہے بشرط کہ "معانقہ”میں فتنہ نہ ہو۔ کیوں کہ ملاقات کا اسلامی طریقہ دنیا بھر کے مذہبی و غیر مذہبی طریقوں سے ممتاز اور خوبیوں سے لبریز ہے۔اس میں ایک طرف الفت و محبت ہے ، شفقت و عظمت اور انسیت و ہمدردی کا اظہار ہے، تو دوسری طرف یہ گناہوں کی بخشش کا سبب بھی ہے ۔جیساکہ بے شمار احادیث سے ثابت ہے ۔حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: کہ میں نے حضرت انس سے پوچھا کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں مصافحہ کا رواج تھا ؟ انہوں نے فرمایا: ہاں؛ ملاقات کے وقت دو مسلمان مصافحہ کریں تو دونوں کی بخشش کا سبب ہے ۔(ابو داؤد شریف) کی روایت ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب دو مسلمان آپس میں ملیں تو مصافحہ کریں اور یہ پڑھیں "یغفر اللہ لنا ولکم” دونوں کو بخش دیا جاتا ہے ایک میں ہے کہ دونوں کے جدا ہونے سے پہلے دونوں کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح معانقہ بھی حدیث سے ثابت ہے ۔(ابو داؤد شریف) کی روایت ہے "کہ جب ابو ذر سے غزہ کے ایک آدمی نے مصافحہ کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ” جب بھی میں ملا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے مصافحہ فرمایا اور ایک روز مجھے بتایا گیا تو میں حاضر خدمت ہوا اور آپ اپنے تخت پر جلوہ افروز تھے ،تو مجھ سے معانقہ فرمایا یہ بڑی عمدہ بات ہے ، بڑی عمدہ ہے۔ مزکورہ حدیث سے واضح ہے کہ یہ ایک مسنون عمل ہے۔

مصافحہ ومعانقہ کا طریقہ کیا ہے؟

مصافحہ کا سنت طریقہ یہ ہے کہ دو شخصوں میں سے ہر ایک اپنا داہنا ہاتھ روزے کے داہنے سے اور بایاں بائیں سےملائے اور انگوٹھے کو آہستہ آہستہ دبائے کہ انگوٹھے میں ایک رگ ہے اس کے پکڑنے سے محبت پیدا ہوتی ہے۔
معانقہ کا معنی ہے کسی کو گلے لگانا یعنی اپنے ہاتھوں کو دوست کی گردن پر رکھ کر اسے اپنے سینے سے لگانا۔اب یہ دائیں جانب ہو یا بائیں جانب دونوں درست ہے۔تیامن اس لحاظ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر عمدہ کام میں تیامن کو پسند فرمایا ،یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ معانقہ میں محبت پیدا کرنے کے لیے دل سے دل ملاتے ہیں اور محل قلب تیامن (بائیں)طرف ہے۔اس لحاظ سے تیامن افضل ہے۔

عید کی سنتیں

عید کے دن چند باتیں سنت ہیں ۔غسل کرنا،حسب استطاعت نئے کپڑے پہننا ،خوشبو لگانا،کھجور کھاناعموما حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید سے پہلے طاق عدد کھجوریں تناول فرماتے تھے،عید گاہ پیدل جانا اور ایک راستے سے جانا دوسرے سے واپس آنا اس سے غیروں کو مسلمانوں کی اجتماعیت کا احساس ہوتا ہے ، راستے میں تکبیریں (اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ،واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد) پڑھتے ہوئے جانا اس سے غیروں پر رعب بھی پڑتا ہے اور خطبہ سننا۔
اللہ تعالی ہمیں بھی عید کی مسرتوں سے شادکام فرماۓ، روزوں کو قبول فرماکر دینا وعقبی میں اپنی رضا کا انعام عطا فرمائے۔

تصحیح کردہ از: محمد ایوب مصباحی
پرنسپل وناظم تعلیمات دار العلوم گلشن مصطفی بہادرگنج، مراداباد، وخطیب وامام جامع مسجد عالم پور، ٹھاکردوارہ، مراداباد۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے