دنیا کی تاریخ کا مطالعہ اس حقیقت پر شاہد ہے کہ جب کسی قوم نے تعلیم و تدریس کو اپنا شعار بنایا، علم و معرفت کو سینے سے لگایا اور مدارس و جامعات کو سنوارا، تو اس قوم نے نہ صرف اپنے ملک بلکہ دنیا کے گوشے گوشے میں علم و تہذیب کا چراغ روشن کیا۔
ایسا ہی ایک تابناک باب اندلس (اسپین) کی تاریخ میں ملتا ہے۔ وہی اسپین، جہاں قرونِ وسطیٰ میں علم و فن، تہذیب و تمدن، شریعت و طریقت کی ایسی بہاریں آئیں کہ یورپ کی علمی فضا اس سے معطر ہو گئی۔ وہی اسپین، جہاں قرطبہ، غرناطہ اور طلیطلہ جیسے علمی مراکز نے صدیوں تک دنیا کو منور رکھا، وہی اسپین، جہاں صوفیائے کرام، علماے ربانی اور مشائخِ عظام نے دینِ مصطفیٰ ﷺ کے چراغ روشن کیے اور لاکھوں دلوں کو ایمان و یقین سے سرشار کیا۔
لیکن!وہی اسپین تاریخ کے ایک سیاہ دور میں ایسا بھی دیکھتا ہے جب تعلیم و تربیت کے مراکز اجاڑ دیے گئے، علما و مشائخ کو تہہ تیغ کر دیا گیا، خانقاہوں کے در و دیوار ویران کر دیے گئے، اور مدرسوں کی چھتوں پر اندھیرے چھا گئے۔
جب قوم کی دینی بنیادوں پر ضرب لگی، تو سب سے پہلے اس کی درسگاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اور جب علم کی شمعیں گل کر دی گئیں تو ایمان کے قلعے خود بخود زمیں بوس ہو گئے۔
آج کچھ ایسی ہی خاموش مگر فکربخش فضا ملک نیپال میں محسوس کی جا رہی ہے۔
یہاں علما کی کمی نہیں، صوفیائے کرام کی خانقاہیں موجود ہیں، روحانیت کی روشنی بھی ہے، لیکن ایک ایسی روشن مشعل جس کی روشنی میں نسل نو کی فکری تربیت ہو، جس کی حرارت سے دینی جذبات پروان چڑھیں، اور جو علمِ دین کا مرکز و محور ہو- ایسی درسگاہیں عنقا ہیں۔
اگر کہیں درسگاہوں کا وجود ہے بھی، تو معیارِ تعلیم نہایت افسوسناک ہے(الاماشاءاللہ)۔ تعلیمی زوال اس حد تک آ چکا ہے کہ حال ہی میں بھارت کے مشرقی علاقے، خصوصاً پروانچل (گوسی، مئو) سے تقریباً 67 طلبہ کو کسی نہ کسی وجہ سے وطن واپس لوٹنا پڑا۔ وجوہات کچھ بھی رہی ہوں، یہ فیصلہ یقینا کسی اضطرار یا مجبوری کے تحت ہی لیا گیا ہوگا، مگر یہ واقعہ ایک سنگین سوال ضرور کھڑا کرتا ہے کہ اگر ہمارے ملک میں معیاری دینی ادارے موجود ہوتے، تو کیا یہ نوبت آتی؟
ملک نیپال اس وقت دینی و تعلیمی بیداری کا متقاضی ہے۔ یہاں وہی دینی ادارے درکار ہیں جن کی بنیاد اخلاص، علم، تقویٰ اور بلندیِ معیار پر ہو۔ ہندوستان میں منظر اسلام (بریلی شریف) جامعہ اشرفیہ (مبارکپور)،جامعہ امجدیہ (گھوسی) جامعہ علیمیہ (جمداشاہی)، جامعہ اسلامیہ (روناہی) اور فیض الرسول (براوں شریف) جیسے ادارے محض اپنی عمارتوں کی وجہ سے معروف نہیں، بلکہ ان کے اندر علم و عمل کا ایسا جہان آباد ہے جو طلبہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔
نیپال کے علما، مشائخ، خانقاہوں کے سجادگان اور صاحبِ حیثیت حضرات کو چاہیے کہ وہ مل بیٹھ کر اس اہم ضرورت پر غور کریں۔ اگر آج ہم نے بے حسی اور تغافل کا مظاہرہ کیا، تو وہ دن دور نہیں جب ہمارا حال بھی اسپین کی تاریخ جیسا ہو جائے – جہاں ایمان کی روشنی ماند پڑ گئی اور دین کے آثار مٹ گئے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام لسانی، فکری، جماعتی اور قومی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ملک میں معیاری، بااثر اور باوقار مدارس قائم کیے جائیں۔ ایسے مدارس جو صرف دینی تعلیم ہی نہیں، بلکہ روحانی تربیت، اخلاقی اصلاح اور ملی شعور کی آبیاری بھی کریں۔
باہمی اتحاد، مشترکہ کاوش اور مقصدِ اعلیٰ کی نیت سے اگر ہم نے یہ قدم اٹھا لیا، تو نہ صرف ہمارے طلبہ کو بیرونِ ملک جا کر اذیتیں اٹھانے سے نجات ملے گی، بلکہ ہم ان خطرات سے بھی محفوظ رہیں گے جو آئے دن دیارِ غیر میں پیش آتے ہیں- مثلاً مذہبی تعصب، حملوں کا خوف، قانونی الجھنیں، زبان و ماحول کا اختلاف اور علمی گمراہی کے خطرات۔
آخری سوال یہ ہے کہ: کیا ہمارے اکابرین، علمائے کرام، خانقاہوں کے سجادگان، اور ملت کے بااثر حضرات اس چیلنج کا سنجیدہ حل نکالنے کے لیے تیار ہیں؟
اگر ہاں، تو تاریخ ایک نیا روشن باب لکھنے کے لیے تیار ہے!
تحریر : عبدالجبار علیمی نیپالی
چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز
weeklynepalurdutimes@gmail.com