مجاہدین آزادی

علامہ فضلِ حق خیرآبادی علیہ الرحمہ

برصغیر کی تاریخِ آزادی میں کچھ ایسے چراغ ہیں جن کی روشنی زمانوں کو منور کرتی ہے، اور کچھ ایسے سورج ہیں جن کی تپش غلامی کی برف کو پگھلا کر حریت کے دریاؤں کو رواں کر دیتی ہے
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ” (البقرہ: 193)
"اور ان سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے۔”

اسی طرح سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثِ ہے

"أفضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر”
"سب سے افضل جہاد ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہنا ہے۔” (سنن نسائی)

1857ء کی جنگِ آزادی اسی حکمِ ربانی اور فرمان محبوب لاثانی کی عملی تفسیر تھی۔ اس معرکے میں جہاں تلواریں چلیں وہاں قلم اور فتویٰ نے بھی آزادی کی بنیاد مضبوط کی۔ اس محاذ پر سب سے نمایاں کردار ادا کرنے والی شخصیت علامہ فضلِ حق خیرآبادی کی تھی، جو علم و عمل کا پیکر، حق گوئی کا استعارہ اور قربانی کا مینار تھے۔
1857ء کی جنگِ آزادی صرف توپ و تفنگ کی لڑائی نہیں تھی بلکہ یہ دلوں کا معرکہ، ایمان کا امتحان اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کی پکار تھی۔ اس پکار پر لبیک کہنے والوں میں ایک نام ایسا ہے جو تاریخ کے سنہرے اوراق پر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا — علامہ فضلِ حق خیرآبادی۔ آپ وہ مردِ حق ہیں جن کے قلم نے ایمان کی شمع روشن کی، جن کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ ایک سپاہی کے نعرۂ حریت میں ڈھل گیا، اور جن کا کردار اس بات کی دلیل ہے کہ عالمِ دین صرف درس و تدریس تک محدود نہیں، بلکہ وقت پڑنے پر وہ میدانِ جنگ کے جرنیل بھی بن سکتا ہے۔ آپ کا کردار ہندوستان کی جنگِ آزادی میں ایک روشن باب ہے جو رہتی دنیا تک حریت پسندوں کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ رہے گا۔

1857ء کا طوفان اور فتویٔ جہاد:
آزادی سے قبل 1857ء میں برصغیر کی فضا انگریزوں کے ظلم و ستم سے بھری ہوئی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی، جو محض تجارت کے بہانے ہندوستان آئی تھی، رفتہ رفتہ پورے ملک کی حاکم بن بیٹھی۔ تجارت کی آڑ میں انہوں نے سیاست کا جال بچھایا، سازشوں اور دھوکے سے ریاستوں پر قبضہ کیا اور پھر ظالمانہ قوانین کے ذریعے عوام کی کمر توڑ دی۔

کسانوں سے بھاری لگان وصول کیا جاتا، یہاں تک کہ فصل برباد ہونے پر بھی ٹیکس معاف نہ ہوتا۔ کاریگر اور ہنرمند، جن کے فن کی دنیا معترف تھی، انگریز کی صنعتی سازشوں کا شکار ہو کر فاقہ کشی پر مجبور ہوئے۔ عدالتیں انصاف کے بجائے انگریز کے مفاد کی محافظ بن گئیں، اور تعلیم کا نظام اس طرح بدلا گیا کہ نسلِ نو کو غلامی پر راضی کر دیا جائے۔ انگریز اپنی عسکری طاقت اور چالاک سیاست کے بل بوتے پر ہندوستان کو ہمیشہ کے لیے غلام بنانے کے درپے تھے اور پورا ملک ظلم، ناانصافی، معاشی بدحالی اور دینی جبر کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ عوام کے دل آزادی کی تمنا سے دھڑک رہے تھے، اور بس ایک چنگاری درکار تھی جو اس غلامی کے ایوانوں کو جلا دے یہی وہ لمحہ تھا جب علامہ فضلِ حق خیرآبادی نے تاریخ کا رُخ موڑ دیا۔ آپ نے علماء کو جمع کیا اور جہاد کا تاریخی فتویٰ جاری کیا، جس میں صاف صاف لکھا:

"انگریز حکومت دین و ملت کی دشمن ہے، اس کے خلاف قتال فی سبیل اللہ ہے اور اس میں جان دینا عین سعادت ہے۔”
ایسے وقت میں علامہ فضلِ حق خیرآبادی نے فتویٔ جہاد جاری کیا۔ مگر یہ محض ایک فتویٰ نہ تھا — یہ غیرتِ ایمانی کا آتش فشاں تھا، جو کاغذ کی سرحدوں سے نکل کر پورے ملک کی رگوں میں دوڑنے لگا۔ اس کے ہر لفظ میں عزیمت کی تپش، ہر جملے میں ایمان کی گرج، ہر سطر میں قربانی کی خوشبو اور ہر حرف میں آزادی کی للکار تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ فتویٰ دیہات سے قصبوں، قصبوں سے شہروں، اور شہروں سے صوبوں میں پہنچ کر پورے برصغیر میں شعلۂ انقلاب بھڑکا گیا۔ مشرق سے مغرب تک، مسجد کے محرابوں سے بازار کے کوچوں تک، اس کی گونج نے غلامی کی زنجیروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ دہلی میں بہادر شاہ ظفر کو قیادت پر آمادہ کرنا، عوام میں جوش و ولولہ پیدا کرنا، اور انقلابی رہنماؤں سے رابطے قائم رکھنا۔ یہ سب آپ کے کردار کے وہ پہلو ہیں جن کے بغیر تحریکِ آزادی کا نقشہ ادھورا رہتا ہے۔

انگریزوں نے انہیں بغاوت کا مرکزی دماغ کہا… گرفتار کیا… مقدمہ چلایا… عدالت میں کھڑا کیا… دھمکیاں دیں… مگر یہ مردِ حق! نہ زبان میں لرزش آئی، نہ نگاہ میں جھکاؤ پیدا ہوا۔ معافی مانگنے کا سوال؟ فتویٰ واپس لینے کا گمان؟ ہرگز نہیں!
کیونکہ ان کے قلم اور فتویٰ میں وہی تیور تھا، وہی جلال تھا جو اکبر و جہانگیر کے فتنوں کے مقابلے میں امامِ ربانی مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کے قلم میں تھا۔
اسی تیور کو سینے میں لیے، اسی جلال کو چہرے پر سجائے، پاسبانِ دین و ملت، فقیہ اعظم ،احیاء سنتِ مجدد الف ثانی، علامہ فضلِ حق خیرآبادی برطانوی سامراج کے ظلم و جبر کے سامنے ایسے کھڑے ہوئے جیسے چٹان طوفان کے آگے کھڑی ہو۔ انہوں نے سنتِ مجدد کو زندہ کیا، اور جنگِ آزادی کی تاریخ میں استقامت کا ایسا باب لکھا کہ صدیوں بعد بھی تاریخ کے صفحات اس پر فخر کرتے رہیں گے، اور آنے والی نسلیں ان کا نام لیتے وقت عقیدت سے سر جھکائیں گی۔

وصال اور تاریخی :
بالآخر 12 اگست 1861ء کو اسی قید میں آپ نے وصال فرمایا۔ انڈمان کی مٹی آج بھی اس مردِ حق کے خون کی خوشبو سے مہک رہی ہے۔ آپ کا کردار ہندوستانی تحریکِ آزادی کا وہ باب ہے جو کبھی مٹایا نہیں جا سکتا۔

سبق اور پیغام:
علامہ فضلِ حق خیرآبادی کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ:

علم اور غیرت مل کر غلامی کی زنجیریں توڑ سکتے ہیں۔
حق بات کہنے کے لیے جان قربان کرنا ایمان کی علامت ہے۔
حریت کا راستہ قربانی اور استقامت سے گزرتا ہے۔

حق بات کہنا، چاہے جان چلی جائے، ایمان کی علامت ہے۔

دین اور وطن کی حفاظت کے لیے قربانی دینا سب سے بڑی سعادت ہے۔
علم اگر عمل کے بغیر ہو تو ادھورا ہے، اور آزادی کا راستہ قربانی کے بغیر نہیں کھلتا۔

ازقلم:- بدرالدجی امجدی تلسی پوری
استاذ:- جامعہ امیر العلوم مینائیہ مینا نگر، سرکلر روڈ گونڈہ 271002 یوپی انڈیا ۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے