ازقلم: قاری رئیس احمد خان
استاذ: دارالعلوم نورالحق چرہ محمد،فیض آباد،ضلع:ایودھیا(یوپی)
مناظرہ و مجادلہ کی دنیا میں اگرچہ اہلِ حق کے بےشمار ایسے علمائے راسخین گزرے ہیں جنہوں نے اسلامی عقائد کی حفاظت، اور باطل نظریات کی بیخ کنی کے میدان میں قابلِ فخر کارنامے انجام دیے، لیکن انہی روشن ستاروں میں ایک چمکتا ہوا آفتاب ایسا بھی ہے جس کی درخشندگی آج بھی قلوبِ عاشقانِ سنت کو منور کیے ہوئے ہے۔۔۔ وہ نام نامی، اسمِ گرامی ہے:
سیدنا مظہرِ اعلیٰ حضرت، شیرِ بیشۂ اہلسنت، مناظرِ اسلام، ابوالفتح حضرت علامہ مولانا محمد حشمت علی خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھنوی پیلی بھیتی۔۔۔
آپ وہ عبقری شخصیت تھے جو براہِ راست امامِ اہلِ سنت، مجددِ دین و ملت، اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمہ کے معتمد، فیض یافتہ، اور مصدق بہ شخصیتوں میں سے تھے۔ آپ کی علمی و روحانی پرورش "رضوی منہج” پر ہوئی اور آپ نے اس فیضان کو اپنی حیاتِ مبارکہ کے ہر لمحے میں زندہ و تابندہ رکھا۔
حضرت مناظرِ اہلسنت علیہ الرحمہ نے اپنے وقت اور زمانہ کے گمراہ فرقوں، منکرینِ ختمِ نبوت، گستاخانِ رسول ﷺ اور اہلِ بدعت کے خلاف مناظروں میں جس جرأت، بصیرت، اور رضوی غیرت و حمیت کا مظاہرہ فرمایا، وہ صرف آپ کا ذاتی کارنامہ نہیں بلکہ پوری تحریکِ اہلِ سنت کا قیمتی سرمایہ اور فقید المثال ورثہ ہے۔
آپ مناظرہ صرف زبان سے نہیں کرتے تھے، بلکہ دلائل و براہین کے سمندر لیے میدان میں اترتے اور اپنے حریفوں کو ایسی زک دیتے کہ وہ منہ چھپاتے پھرتے۔ آپ نے "عشقِ رسول ﷺ” کو اپنی مناظراتی زندگی کا محور و مرکز بنا رکھا تھا، اور یہ عشق ہی آپ کو حق کے لیے سینہ سپر ہونے کا حوصلہ عطا کرتا تھا۔
شیرِ بیشۂ اہلسنت کا اندازِ مناظرہ نہ صرف مدلل ہوتا بلکہ پر اثر، جذبہ انگیز اور غیرتِ ایمانی سے لبریز ہوتا۔ آپ کی مناظراتی زندگی کا مقصد محض کسی مخالف کو شکست دینا نہیں، بلکہ حق کو ظاہر اور باطل کو رسوا کرنا ہوتا تھا۔ آپ فرمایا کرتے:
"زبان ہماری چلے گی تو فقط مصطفیٰ ﷺ کے لیے؛ اور خاموشی بھی ہماری ہوگی تو فقط ان کی عظمت کے لیے!”
بارہا آپ نے گستاخانِ رسالت ﷺ، منکرینِ ختمِ نبوت اور بدعقیدہ عناصر کے خلاف ایسی جرأت مندانہ آواز بلند کی کہ:
قسم کھائی ہے، مر جائیں گے یا ماریں گے ناری کو
سنا ہے گالیاں دیتا ہے وہ محبوبِ باری کو
ایسی ہی غیرتِ دینی و عشقِ رسول ﷺ سے لبریز شخصیت تھی، مظہرِ اعلیٰ حضرت،شیر بیشۂ اہلسنت حضرت علامہ حشمت علی خان علیہ الرحمہ کی، جن کے فکر و فہم کا سرچشمہ بارگاہِ امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ سے جاری ہوا تھا، اور جنہوں نے اپنی حیاتِ مبارکہ کو تحفظِ ناموسِ رسالت ﷺ اور اشاعتِ مسلکِ حق اہلسنت وجماعت المعروف فی زماننا”مسلک اعلیٰ حضرت”کے لیے وقف کر رکھا تھا۔
حضرت علامہ حشمت علی خان رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں علمی محاذوں پر معرکہ آرائی کی، وہیں عوامی سطح پر بھی سنی عوام کو بدعقیدگی سے بچانے، اور "سنی صحیح العقیدہ” بننے کا شعور عطا فرمایا۔ آپ کی مناظراتی خدمات صرف زبان تک محدود نہ رہیں، بلکہ آپ کی زندگی کا ہر لمحہ سنتِ مصطفیٰ ﷺ کی ترجمانی کرتا تھا۔
آپ کے افکار و کردار سے آج بھی ہزاروں علما و عوام کسبِ فیض کر رہے ہیں۔ آپ کے تربیت یافتہ تلامذہ آج بھی ملک و ملت میں مسلکِ حق، یعنی مسلکِ اعلیٰ حضرت کا علم بلند کیے ہوئے ہیں۔
✨ بموقعِ عرسِ حشمتی ✨
یہ سطور عرسِ حشمتی کے مبارک موقع پر، اس مردِ قلندر، اس بطلِ جلیل، اس عاشقِ رسول ﷺ کے حضور بطورِ خراجِ عقیدت پیش کی جا رہی ہیں، جنہوں نے اپنی زبان و قلم سے شریعت و سنت کا پرچم بلند رکھا اور مسلکِ اعلیٰ حضرت کو علمی و عملی اعتبار سے زندہ و تابندہ فرمایا۔
اللّٰہ رب العزت ہمیں بھی حضرت کے دینی غیرت و حمیت، عشقِ رسول ﷺ اور اخلاص فی الدین کا وارث بنائے۔
💐 تمام اہلِ محبت و عقیدت کو "عرسِ حشمتی” کی پُرخلوص دلی مبارکباد!
🌹 فیضانِ مظہرِ اعلیٰ حضرت زندہ باد!
🌙 مسلکِ اعلیٰ حضرت پائندہ باد!
🔸 خاکسار: قاری رئیس احمد خان
استاذ: دارالعلوم نورالحق، چرہ محمد پور،ضلع فیض آباد (ایودھیا) یو۔پی، بھارت