مذہبی مضامین

کیوں ہم زباں نہ کھولیں …..؟

ازقلم: محمد طاسین ندوی

اللہ تعالی نے دنیائےفانی کو وجود بخشا پھر اسے زیب و زینت سےآراستہ کرنے کے لئے بے شمار مخلوق کی تخلیق فرمائی ان مخلوقات میں بنی آدم کو ہر مخلوق سے بالا تر بنایا اورمختلف رنگ و نسل کو برپا کرنے کے بعد رہنے سہنے برتنے، ٹٹولنے کا ڈھنگ و سلیقہ سے روسناش کیا مخلتف قبائل و نسل کو محض بہتر اور عمدہ طریقہ سے بود وباش کرنے اور آپس میں تال میل والی زندگی کے لئے وجود بخشا چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے "يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا” الحجرات ۱۳
اے لوگوں ہم نے تجھے مردو زن بناکر پیدا کیا اور ہم نے ہی جماعت و قبائل بنائے تاکہ آپس میں معرفت و تال میل ہو، لیکن کیا ہم اس پر عمل پیرا ہیں یا اس حد کو پار کرکہ بہت دور نکل گئے ہیں یہ ایک سوال ہے جو انسانی ذہن ودماغ کے پردے سے بار بار ٹکراتا ہے اور زبان حال سے گویا ہیکہ اے مخلوق خدا کہاں جارہے ہو؟ ہے کوئی جو اپنی چپی توڑے اور انسانیت کے تحفظ و بقاء کے لئے عمل پیہم اورجہدمسلسل کرے اور بے سرو پا کے سوالات اور فروعی اختلافات سے بچ بچا کر خالص اسلام کی دعوت پیش کرے تو یقینا ہر خاص و عام یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ بات تو بالکل پتے کی ہے آخر انسانیت کس سنار کے تجوری میں بند ہیکہ ذرہ برابر ترس نہیں آتا کہ آخر انسانیت کی بقاء اور تحفظ کی فکر ہمیں یعنی ہم حاملین علَمِ اسلام کو کرنی چاہئیے تھی لیکن یہ ہماری از حد کمی ہے کہ ہم خواص میں شمار ہونے والے طبقہ نے بھی تعلیمات اسلامی کو طاق نسیاں پر ایسا رکھا کہ تعلیم گرد آلود ہوچکی اور ہم اس خوش فہمی میں ہیں کہ ہم ٹھیکیدار قوم ملت ہیں اور بس،جبکہ قائد کا فرض منصبی یہ ہیکہ اپنی مسؤلیت و ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دینے کی جتن و کوشش کرے کیا ایسا ہوتا نظر آرہا ہے جی ایسا کرنے والوں کا اگر حساب لگایا جائے تو معدود چند کے علاوہ کوئی نہیں لیکن واہ واہی اور دادو تحسین مبارکبادی کے ہم سب خواہاں ایسا کیوں؟ اس کا جواب شافی ہمارے پاس ہے لیکن ہم اپنی طبیعت کو آمادہ کرنے کوسوں دور ہیں.
قارئین عظام ! ہم جس بھول بھلیاں کی چادر دراز کئے عیش کوشی میں سر گرداں ہیں اس چادر کو تن سے جدا کرنا ہوگا اور اپنے ملک و ملت، سماج و معاشرہ کی فکر اوڑھنی ہوگی ورنہ وہی ہوتا رہیگا جو ابھی حالیہ دنوں میں وطن عزیر ملک نیپال کے آٹھویں کلاس کے سوشل مواد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق منفی مواد پر مبنی مضامین داخل کتاب کیاتاکہ نونہالان اسلام کے سینے میں جو عظمت اسلام و حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے اس سے یکسر بیزار کیا جائے کیونکہ علماء و دانشوران نے کہا ہیکہ جب کسی قوم کو ذلیل و خوار اور رسوا کرنا ہوتو اس قوم کےنوجوانوں کے سینے کو منفی رسائل و پیغامات سے بھر دو تب وہ قوم وہ معاشرہ وہ سماج اپنی موت خود مر جائیگا یہ مقام عبرت ہے لیکن ہم طبقہ علماء فقط انگشت بدنداں و متحیر ہوئے اور ہم نے اپنی زبان و قلم کو ایسے تالوں سے لاک کیا کہ شاید وہ نہ کھلے بلکہ ہونا یہ تھا کہ جمہوری ملک میں آئین ملک کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہمیں حکومت وقت سے یہ مطالبہ کرنا چاہئیے تھا کہ کیا اکثریت میں رہنے والے افراد اقلیت میں رہنے والے لوگوں کے دلوں پرآرا چلاتے رہیں گے اور یہ واقعہ دفعتا نہیں پیش آیا بلکہ متعدد آرٹیکلس سے پتہ چلا کہ گذشتہ دنوں میں بھی ایسے حادثات رونما ہوتے رہے ہیں. اور ایسا ہو کیوں رہا ہے؟ اس لئے کہ علماء و دانشوران اسلام نیپال نے اس سے نمٹنے کے لئے کوئی مناسب لائحہ عمل اور ٹھوس منصوبہ بندی نہیں بلکہ بہت ہی ہلکے انداز میں لیکر ہم نے ہی اپنے عقائد وعقیدت کو کند چھری سے ذبح کرنے کا ماحول فراہم کیا ہے. اور یاد رہے کہ یہ مسئلہ کسی ذات، برادری کا نہیں بلکہ عام مسلمانان نیپال کاہے سبہوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر زبان کھولنے کی جرأت رندانا کرنے کا ہے تاکہ مستقبل میں اس شنیع امر کا سد باب ہوسکے .کس شاعر نے کیا خوب عکاسی کیا ہے
متحد ہوتو بدل ڈالو نظام عالم
منتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیوں ہو
اللہ تعالی ہمیں راہ راست پر گامزن رکھے اور ایک بنادے تاکہ ہماری کمزوری کیوجہ سے ہماری تسخیر نہ ہو ہم آمین بالجہر والسر سے باہر آکر اپنے عقیدے پر شب خوں مارنے والوں کے دانت کھٹے کردیں اور تیری عبادت و احکام پر کارپند ہوکر پر عزم باہمت زندگی گزاریں. آمین یارب المستضعفین

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

کیوں ہم زباں نہ کھولیں …..؟” پر 0 تبصرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے