تحریر: ابومعاویہ محمد معین الدین ندوی
استاذ: جامعہ نعمانیہ، ویکوٹہ، آندھرا پردیش
اللہ رب العزت ہم انسانوں کو پیدا کر کے اپنی تمام مخلوقات میں سب پر فوقیت دی، اور ہمیں یہ شرف بخشا کہ ہمیں اپنا نائب و خلیفہ بنایا ارشاد فرمایا:
واذقال ربك للملئكة انى جاعل فى الارض خليفة
اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔
گویا کہ ہم حضرت انسان اللہ کے نائب اور خلیفہ ہیں:
زہے قسمت
لیکن اللہ کا جو نائب تھا ، وہی اپنی حقیقت کو بھولنے لگا، اپنی قدر و منزلت کو فراموش کرنے لگا بلکہ اپنے رب کو چھوڑ کر غیروں کو معبود قرار دینے لگا تو اللہ تعالی نے مزید ان پر احسان فرمایا اور ان میں اپنے نبیوں اور رسولوں کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھی راہ پر چلائے۔ بعثت انبیاء کرام کا سلسلہ چلتا رہا تاآنکہ آخری پیغمبر خاتم الانبیاء محمد ﷺ تشریف لائے۔
نبی کریم ﷺ کا آخری نبی ہونا اجماع امت سے ثابت ہے، نبی آخرالزماں ﷺ پر ہر طرح کی نبوت مکمل اور ختم ہو چکی، آپﷺ کے بعد کسی بھی نبی کی ضرورت نہیں رہی، اور یہ صرف اجماع امت ہی نہیں ہے کہ بلکہ اس کی گواہی خود اللہ تعالی دے رہے ہیں:
ولكن رسول الله وخاتم النبيين(الاحزاب:40)
لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں۔
نبی آخرالزماں ﷺ سے قبل انبیاء کرام کی آمد کا جو سلسلہ تھا وہ اس وجہ سے تھا کہ وقت کے انبیاء کے تشریف لے جانے کے بعد ان کے متبعین ان کی لائی ہوئی شریعت میں دخل اندازی کرتے تھے ،اپنی طبیعت کے مطابق خرد برد کرتےتھے ، اور پھر رفتہ رفتہ مکمل طور پر شریعت کو ہی نسیا منسیا کردیا جاتا تھا ۔
ایسا کرنا ان کے لئے آسان بھی تھا کیونکہ ان کتابوں اور شریعتوں کی حفاظت کی ذمہ داری ان ہی کو سونپی جاتی تھی ،ارشاد خدا وندی ہے :
بما استحفظوامن كتاب الله وكانوا عليه شهداء
کیونکہ انہیں اس کتاب کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا، اور وہ اس پر گواہ تھے۔
افسوس! کہ محافظین ہی خود ان کتابوں پر ڈاکہ زنی کیا کرتے تھے اس لئے انبیاء کرام تشریف لاتے تھے۔
اس کے برعکس نبی آخرالزماں ﷺ کو جو کتاب دی گئی ہے اس کی حفاظت کی ذمہ داری رب ذوالجلال والاکرام نے خود اپنے ذمہ لی ہے ارشاد باری تعالیٰ:
انا نحن نزلنا الذكر وانا له لحافظون
حقیقت یہ ہے کہ یہ ذکر ( یعنی قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
شیخ الاسلام حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم لکھتے ہیں:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمایا ہے کہ اگرچہ قرآن کریم سے پہلے بھی آسمانی کتابیں بھیجی گئی تھیں، لیکن چونکہ وہ خاص خاص قوموں اور خاص خاص زمانوں کے لیے آئی تھیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو قیامت تک محفوظ رکھنے کی کوئی ضمانت نہیں دی تھی، بلکہ ان کی حفاظت کا کام انہی لوگوں کو سونپ دیا گیا تھا جو ان کے مخاطب تھے، جیسا کہ سورة مائدہ آیت 44 میں فرمایا گیا ہے لیکن قرآن کریم چونکہ آخری آسمانی کتاب ہے جو قیامت تک کے لیے نافذ العمل رہے گی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا خود ذمہ لیا ہے، چناچہ اس میں قیامت تک کوئی رد و بدل نہیں ہوسکتا۔(آسان ترجمہ قرآن)
معلوم ہوا کہ یہ کتاب آخری ہے اور جب یہ کتاب آخری ہے تو جس پر یہ نازل ہوئی ہے وہ نبی بھی آخری ہیں، اس میں ذرہ برابربھی جو شک کرے گا وہ خارج از اسلام ہے اس لئے خاتم الانبیاء محمد عربی ﷺ ہی آخری نبی ہیں، اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو یہ عقیدہ رکھتے ہوئے دنیا سے لے جائے کہ نبی آخر الزماں، پیغمبر خاتم الانبیاءﷺ ہی آخری نبی ہیں۔