زبان و ادب گوشہ خواتین

آزادی کے بعد بہار سے شائع ہو نے والے اردو کے ادبی رسائل کی خدمات

از قلم: شیبا کوثر
برہ بترہ ضلع آرہ، بہار انڈیا

اردو رسائل پر گفتگو کر نے سے قبل زبان اردو کے بارے میں جاننا ضروری ہے کہ جس کے لئے اردو کے ارتقا ئی سفر کا مختصر جائزہ لینا اہم ہے تا کہ ہم اس زبان کے اب تک کے مراحل کو سمجھ سکیں کہ یہ زبان ہم تک کیسے پہنچی ۔۔۔؟ اور کن کن اسباب نے اس زبان کو جلا بخشا ؟ اور آنے والے وقت میں اور بدلتے وقت کے ساتھ اس کے تقاضوں اور کن اسباب پر بہتر طریقے سے غور و فکر کرنے میں ہم کامیاب ہو پائیں۔
دنیا کے ہر سماج میں اپنی بات کو ایک دوسرے تک پہنچانے ،اپنے جذبات کی عکاسی کے لئے زبان کا سہارا رابطے کے طور پر لیتے رہے ہیں۔اور اسی بنیاد ی ضرورت کے تحت دنیا کی تمام زبان وجود عمل میں آئ ۔اور جیسے جیسے زبان ترقی کرتی جاتی ہے اس کا دائرہ بھی وسیع ہوتا چلا جاتا ہے ،آہستہ آہستہ اس میں بول چال سے آگے لکھنے پڑھنے کا سلسلہ بھی شرو ع ہوتا ہے اور پھر اس کے ذریعے سماج میں تعلیمی ،انتظامی ،ادبی اور دوسرے امور کو فروغ بھی حاصل ہوتا ہے اور ادبی ادارو ں سے جڑ نے کے بعد وہ زبان کی رفتار پر تیزی سے گامزن ہوتی چلی جاتی ہے اردو زبان کا وجود بھی اسی طرح عمل میں آیا ۔
اردو زبان کے خد و خال بارہویں صدی کے آخر میں بننے شرو ع ہوئے ۔اردو ہندوستان کا بہت بڑا لسانی ورثہ ہے ۔اسے ہندو ،مسّلم ،سکھ ،عیسا ئی ،پارسی ،بدھ ،جین، سبھی مذ ہب و ملّت کے میل جول سے فروغ حاصل ہوا ۔خالص لسا نیائ نقطہ نظر سے یہ ایک آر یائی زبان ہے جس کی ساخت ہندستانی ہے ۔اس زبان میں یوں تو ایرانی ،عربی ،انگریزی اور ہندوستان کے علاقائی زبانو ں کے اثرات اس زیادہ نہیں ،اسی وجہ سے اس زبان میں اظہار کی وسعت پیدا ہوئی اور یہ ہماری قومی اور لسا نی تہذیب کی علامت بن گئ ۔
۔ ڈاکٹر محی الدین قادری زور کی تحقیقات کے مطابق اردو دکن میں پروا ن چڑھی اور دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ میں وہ جوان ہوئی۔ان کی تحقیق کی بنیاد پر اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ دکنی تھا ۔حضرت بندہ گیسو دراز رحمتہ کی نثر” معراج العاشقین” اردو زبان کی ابتدائ صورت گری کی مثال ہے ۔

۔ بہار اردو کے ادبی دبستانو ں میں سے ایک اہم دبستان ہے یہاں پر ہر زمانے میں گیسئو ادب کو سنوارنے کا کام ہو تا رہا ہے تاریخ شاہد ہے اردو میں جو بھی تحریکیں رونما ہوئیں اس پر بہار کے ادبی کارناموں کے گہرے اثرات مر تب ہوئے ۔
میں دیکھتی ہوں کہ ہندوستان کی سیاسی،سماجی ،ادبی اور معاشرتی تاریخ میں صوبہ بہار کو نمایا ں حیثیت حاصل رہی ہے اس سر زمین سے کئی ایسے اعلی دانشور مذہبی پیشوا ،صوفیا ءاکرام،مبلغ، شاعر، ادیب، اور ناقدین ادب پیدا ہوئے جو نہ صرف فخر بہار کہلا ئے بلکہ وہ فخر ہندو ستان کی حیثیت رکھتے تھے ۔جن کے کارنامے ہر دور میں ادب کے لئے مشعل راہ ہیں ۔
۔ یہ حضرات اردو ادب کے بڑے عا لم و فاضل تھے جنہوں نے اردو زبان و ادب کی تر و یج و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ۔ساتھ ساتھ کئی غیر مسّلم حضرات بھی اس زبان کی ترقی میں اہم رول ادا کیا ہے ۔شرو عا تی دور میں اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات غالب رہے ۔جسکی بنیاد ی وجہ فارسی شعرا ءکا صوبہ بہار کے ادبی فضا ءپر چھائے رہنا تھا۔
۔ بہار میں اردو زبان و ادب سترہو یں صدی کے آ وا خر سے ہی ایک واضح شکل اختیار کر لی تھی ۔اس سلسلے میں اردو کے مشہور محقیق اور ناقد ڈاکٹر اختر اور نیوی نے اپنی تحقیقات کے بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچے کہ عہد اورنگ زیب عالَم گیر کے زمانے میں شمال ھند میں اس کے اثرات دکن اور گجرات میں نمایاں طور سےپڑ نے لگے تھے ۔ان کے تحقیق کی بنیاد شاہ مجتبیٰ حسین کے کتب خانے میں شامل فقہ ہندی کے دو نسخے تھے جو بہار شریف ضلع پٹنہ سے تعلق رکھتے تھے۔

رسالہ ایک عربی لفظ ہے جس کے معنی مکتوب یا چھوٹی سی کتاب ہے عام طور سے مختلف حضرات کے مضامین کا مجموعہ جو مقر ر ہ وقت پر شایع ہوتا ہے،رسالہ کہلا تا ہے۔رسائل زبان و ادب کی ارتقا میں اہم کردار ادا کرتا ہے اس کے ذریعہ ادبی تاریخ نویسی کا بہت اہم کام کیا جا سکتا ہے۔رسائل و جرا ئد کسی متعین دورانئے میں تخلیق کار کی جانب سے قاری کے لئے ادب کے ترسیل کا ذریعہ ہوتے ہیں بلکہ یہ اپنے عہد کے ادبی رجحانا ت و میلا نات اور ادبی مزاج کے عکاس ہوتے ہیں اور مختلف نظریات و خیالات تک وسائل اور تبا د لے کا اہم سلسلہ بنتے ہیں۔مختلف عہد کے ادبی رسائل سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کس طرح اردو کے ادبی مزاج میں بتد ر یج تبدیلی کا عمل واقع ہوا۔ رسائل و جرا ئد نے اپنے پیرا ہن کس طرح آہستہ آہستہ تبدیل کئے ۔اور کس طور سے اردو ادب کے مختلف ادوار میں متنو ع ادبی مزاج اور نظر یا ت۔ تشکیل پائے ۔ادبی رسائل دراصل اپنے عہد کے قلمکاروں کا شنا خت نامہ اور مستقبل کے محقیق کے لئے ایک مستند ذر یعئہ تحقیق ہو تی ہے ۔جس کی ہمہ گیر قوت کا اندازہ ہم ماضی کے ادبی رسائل و جرا ئد کے مطا لعہ سے بخوبی کر سکتے ہیں ۔
اس طرح کسی بھی سماج کو سمجھنے کے لئے اس دور کے تخلیقی ادب کا جائزہ لینا بہت اہم ہے،سچ یہی ہے کہ ادب اس دور کی کھلی یا چھپی تاریخ ہوتی ہے جو اس دور کے سماج کی بہتر عکاسی کرتا ہے چونکہ ادیب یا شاعر یا کسی بھی تخلیق کار کی نظر سماج میں رونما ہونے والی تبدیلیوں یا مسائل پر گہری ہوتی ہے ۔دوسرے لفظوں میں ہم تخلیق کار کو سماج کا نباض کہ سکتے ہیں اس لئے اس کی تخلیق اس دور کا آئینہ دار ہوتا ہے۔جس سے ہمیں اس دور کے سماج کو بہتر ڈھنگ سے سمجھنے کے موا قعے فراہم ہوتے ہیں دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ ادب کو سمجھنے کے لئے زبان کو بہتر ڈھنگ سے سمجھنا بہت ضروری ہے اس لئے زبان کی حفاظت اور بقا ءبھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا ادب کی ۔جس میں بےشک اردو رسائل کی اپنی ایک اہمیت ہے جو ادیب و قاری کو جوڑنے میں اہم رول ادا کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اردو زبان سے سچی محبت رکھنے والے حضرات نے ہمیشہ اس کو محسوس کیا اور اور رسائل نکالنے کی پر زور کوشش کی ۔لیکن اکثر و بیشتر کا معا ملہ یہ ہوا کہ وہ اس کام کو آگے نہیں بڑھا سکے اور چند ہی شمارے کے منظر عام آنے کے بعد وہ رسالہ بند ہو گیا،جس کے کئی اسباب ہیں سواۓ چند رسالوں کے جو کامیابی سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
اگر رسائل پر نظر کی جائے تو تو اردو اخبار کی اشا عت کے بعد 1850ء آتے آتے محب ھند خیر خواہ ھند ،”قوائد الناظرین” اور "قرآن السعدین” جیسے بہت سے رسائل و جرا ئد شایعء ہونے لگے جن میں تاریخی، ادبی، سائینسی ،سماجی اور مختلف علمی موضوعات پر خصوصی توجہ دی جاتی ۔پنڈت برج موہن دتا تر یہ کیفی دہلوی "محب ھند "دہلی کو اپنے ایک مضمون "اردو کا اولین رسالہ "میں اردو کا اولین جر ید ہ قرار دیا ہے ۔ماسٹر رام چندر کی ادارت میں "محب ھند "کا پہلا شمارہ جون 1847ءمنظر عام آیا۔اس رسالہ میں با قا عدہ بہادر شاہ ظفر، مومن، مجنوں، اور شاہ نصیر وغیرہ کا کلام اہتمام سے شائع کیا جانا، یوسف خاں کمبل پوش کا سفر نامہ کئی اقسا ط میں چھپتا رہا ۔
انیسویں صدی نے اپنے اختتا م سے پہلے بیشمار اردو رسائل و جرا ئد کا چلن دیکھا جن میں "اسباب بعغاوت ہند” "تہذیب الاخلاق” "دبدبہ آصفی” "معارف علیگڑھ”افسر، مخزن، القدائد،جلوہ سخن، حسن، اور” معلم نسواں” جیسے بہت اہم تھے ۔سر سید کے تہذیب اخلاق "نے تو خیر اردو رسائل و جرا ئد کی تاریخ میں اپنے میعار اور مقبو لیت کے اعتبار سے ایک انقلاب بر پا کر دیا ۔

۔ اس طرح سر زمین بہار کے اردو رسائل تیزی سے ارتقا ئی منا زل طئے کرتے رہے۔اس کی رفتار بیسو یں صدی میں بھی جاری رہی ۔چنانچے اس دور۔ میں بھی جو رسائل جاری ہوئے وہ ہندوستان کے کسی بھی رسالے سے میعار میں کمتر نہیں ہیں۔جنہیں ہم فخر کے ساتھ دوسرے رسالوں کے مقابلوں پر رکھ سکتے ہیں ان میں چند تو اس میعار کے ہیں کہ ان کے ہم پلہّ مشکل سے نکلیں گے ۔مثال کے طور پر ماہنامہ "ندیم "(گیا )جو 1931ءسے نکلنا شروع ہوا تھا اور 1945ءتک نکلتا رہا،اگر چے اسکی مدت کچھ زیادہ نہیں ہیں ۔تاہم ادبی میعار کے لحاظ سے یہ بہت بلند ہے دوسرا رسالہ "میعار "ہے جسے 1936ءمیں قاضی عبدالودود نے جاری کیا تھا ۔یہ ادبی اور تحقیقی رسالہ تھا ۔بنیاد ی طور پر یہ ادارہ تحقیقا ت پٹنہ کا ترجمان تھا ۔اسی ادار ے سے ایک رسالہ "تحقیق "بھی جاری ہوا ۔اس کو بھی قاضی عبدا لودو د کی ہی سر پر ستی حاصل رہی۔بہار سے شایع ہونے والے دیگر رسائل میں ماہنامہ "صبح "بھی اپنے لحاظ سے بہت اہم ہے اس نے 1959ءمیں "بہار نمبر "شایع کیا ۔جس کی ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی
ہوئی ۔اسی طرح سہ ماہی "کارواں” سنتھال پر گنہ صاحب گنج ماہنامہ "نئی کرن "(دربھنگہ )1948ء "اور نئی کرن "(پٹنہ)کو بھی اردو رسائل کی تاریخ میں اہم مقام حاصل ہے ۔اپنے زمانے میں جو چند رسالے اپنے اعلی میعار کو بر قرار رکھے ہوئے تھے اور پابندی اوقات سے شایع ہو رہے تھے ان میں "سہیل "(گیا )۔”آہنگ "(گیا )”مر یخ "(پٹنہ)شامل ہے یہ رسالہ مختلف نظریات کا ترجمان ہیں ۔جن میں ماہنامہ "سہیل”ترقی پسند تحریک کی ترجمانی کرتا ہے ۔کلام حیدری کی ادار ت میں نکلنے والا ماہنامہ "آہنگ "جدید اردو کا علمبردار ہے ،یہ ماہنامہ پرو فیسر احتشام حسین مرحوم اور اردو فکشن پر دو خاص نمبر شایع ء کیا۔ اردو کے مشہور ناقد اور انگریزی کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالمغنی کی ادارت میں نکلنے والا "مریخ” جدیدیت اور ترقی پسند جیسی دو متضاد لیکن طاقتور تحریکوں کے درمیان غیر جانبدار رہکر اردو ادب میں اپنے افکار کو فروغ دیتا رہا۔
بہار کے ادبی افق سے 1940ءمیں "معا صر "نکلا جو دیکھتے ہی دیکھتے ادب کی دنیا میں اپنا ایک الگ مقام بنانے میں کامیاب ہوا ۔”معاصر” بنیادی طور پر تحقیقی و تنقیدی رسالہ ہے،1951ءسے اس کے مقاصد و تبدیلی وسط عمل میں آئ۔اس رسالے کا بنیادی مقصد اردو کے معیاری تحقیقی،تنقیدی ،مقا لوں کی اشا عت اردو کے میعاری تحقیقی مضا مین کی اشاعت اردو کے غیر مطبوعہ اہم مخطوطا ت کی اشا عت اردو کے علمی و ادبی مسائل پر بحث اور اردو کے ایسے مقا لوں جن کی اشا عت فن کا تعلق سماجی شقافتی وتہذیبی مسائل پر گفتگو ہے۔اگر ہم ” معاصر” کا مطالعہ کریں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ اپنے مقا صد میں بہت حد تک کامیاب رہا۔شرو ع سے ہی اسے عظیم الدین احمد، کلیم الدین احمد،قا ضی عبدالودود، سید حسن عسکری، عطا کاکوی، پروفیسرڈاکٹر اختر اورینوی اورڈاکٹر محمد محسن جیسی نابغئہ روزگار شخصیتوں کی سر پرستی۔ حاصل رہی ،جنہوں نے اس کے ادبی تحقیقی اور تنقیدی میعار کو بلند کرنے میں اہم کارنامہ انجام دیا ۔۔۔۔!

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے