ازقلم: اے رضویہ، ممبئی
مرکز: جامعہ نظامیہ صالحات کرلا
اعلیٰ حضرت علماے مدینہ کے جھرمُٹ میں
مدینہ طیبہ میں آپکی حاضری سے پہلے ہی آپ کے علم و فضل کا شُہرا اور سچے عشق کا چرچا پہنچ چکا تھا۔ مکہ شریف میں اعلٰیحضرت مدینہ شریف کی حاضری کے لئے بے تاب تھے لیکن آپ کو سخت علالت بخار میں سفر کرنا منع تھا۔ اور یہاں علماۓ مدینہ اس عاشق رسولﷺ نائبِ نبی کی ملاقات کے لئے بیقرار ہوکر آپ کی آمد کا سختی سے انتظار فرما رہے تھے۔
شیخ الدلائل حضرت مولانا شاہ عبدالحق مہاجر مکی علیہ الرحمہ کے مخلص شاگر حضرت مولانا کریم اللّٰہ مہاجر مدنی کا بیان ہے کہ ہم یہاں مدینہ منورہ میں کئ سال سے مقیم ہیں۔ بڑی دور دراز سے علماء آتے اور چلےجاتے ہیں کوئی بات نہیں پوچھتا۔ لیکن اعلٰیحضرت کے پہنچنے سے پہلےعلماء تو علماء اہل بازار مدینہ کے لوگ تک آپکی زیارت وملاقات کے مشتاق تھے۔ اور آخر کار جب بریلی کے امام عشق محبت کی مدینہ منورہ میں حاضری ہوئی اور آمد کی خبر ہر طرف پھیلی تو صبح عشاء تک آپ کے پاس علماۓ مدینہ کا ہجوم رہتا تھا ملاقات و زیارت کرنے والوں کی بھیڑ 12 بجے رات تک رہتی اس سے پہلے ہٹنے کا نام نہ لیتی تھی, یہاں تک کہ اگر کسی کو تنہائی میں اعلٰیحضرت سے ملنا ہوتا تو وہ آدھی رات کے بعد ہی مل سکتا تھا۔ آپ کے ساتھ خلوص و عقیدت میں اھل مدینہ منورہ کے حضرات کرام نےباشندگانِ مکہ معظمہ سے زیادہ حصہ لیا۔ شیخ الدلائل حضرت مولانا سید محمد سعید مغربی کے کمال کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ آپ سرکار اعلٰیحضرت کو سیدی کہہ کر مخاطب کرتے۔ ایک مرتبہ اعلٰیحضرت نے ان سے فرمایا کہ حضرت سید تو آپ ہیں۔ وہ بولے واللّٰہ سید (سردار) تم ہو۔ اعلٰیحضرت نے فرمایا میں سیدوں کا غلام ہوں۔ انھوں نے فرمایا یوں بھی سید ہوۓ, سَیَّدِ عَالَم نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کی مَوْلٰی الْقَوْمِ مِنْھُم قوم کا آزاد شدہ غلام انھیں میں سے ہے۔
مدینہ طیبہ کے نہایت جَیَّد و خاص الخاص علماء آپ سے بڑی محبت وخلوص سے پیش آۓ شایان شان آپ کا کرام و اعزاز فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو مردِ مومن پیارے مصطفٰی ﷺ کی عزت و عظمت پر اپنی فانی عزت قربان کرکے فنا فی الرسول کی منزل پر پہنچ جاتا ہے تو پھر بارگاہ رسالت سے اس کو وہ اعزاز نصیب یوتا ہے کہ امت کے بڑے چھوٹے سب اس کے آگے جبین احترام کو جھکا دیتے ہیں۔
مکہ معظمہ کی طرح مدینہ منورہ کے علماۓ عظام نے بھی اعلٰیحضرت سے سندیں اور اجازت لیں اور یہ سلسلہ مدینہ طیبہ واپسی تک بلکہ قافلے کے اونٹ پر سوار ہونے تک قائم رہا علماء کرام سند لکھواتے اور اجازت لیتے رہے۔ اور ان سب سندوں و اجازت ناموں کی کاپی الاجازت المتنیہ میں طبع ہو چکی ہے۔
حرم میں رتبہ پا گئے زمانے میں جو چھا گئے
یہ کس کا فیض عام ہے رضا اسی کا نام ہے
ان سب کے علاوہ مفتی شافعیہ مولانا سید احمد برنجی نے حسام الحرمین کی تصدیق پر ایک رسالہ لکھا اور خباثت پھیلانے والے گنگوہی, نانوتوی, تھانوی وغیرہ کی کفریہ عبارتوں پر کفر کا فتویٰ دیا۔ اور دیگر علماء نے اعلٰیحضرت کی اسی خدمات کو نقل کرکےآگے بڑھاتے رہے اور جو بھی علماء مدینہ منورہ کی حاضری کو پہنچتے مولانا کریم اللّٰہ انکی خدمت میں الدولتہ المکیہ پیش کرتے۔ میرے پیارے احمد رضا فجزاہُ اللّٰہ تعالٰی خیراً کثیرا۔