تحریر: محمد دلشاد قاسمی
یہ نہایت خوش کن بات ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم کا شوق بڑھ رہا ہے لیکن یہ بات صحیح معنوں میں اس وقت مفید ثابت ہو سکتی ہے جب پڑھنے والے بھی اور پڑھانے والے بھی خاص طور پر والدین اس بات کے شعور کے ساتھ آگے بڑھیں کہ انہیں تعلیم کس لئے حاصل کرنی ہے اور بحیثیت مسلمان ان کی تعلیم کا حقیقی مقصد کیا ہے ؟
اب تعلیم کا مقصد صرف کارپوریٹ کمپنیوں میں کام کرنے کے لئے ٹریننگ کی حد تک محدود ہے ۔ تعلیم ایک طرح کی سرمایہ کاری ہے جس سے نفع کمانا ہے، ایک تجارت ہے، جس میں داخل ہونے والا روز اول سے ہی ان حسابات کے ساتھ داخل ہوتا ہے کہ اسے ڈگری پر کتنا خرچ کرنا ہوگا اور نتیجتا اس کے بعد اسے کتنا منافع حاصل ہو گا یونیورسٹی کے سامنے کسی کورس کے تعلق سے فیصلہ کرتے ہوئے واحد کسوٹی یہ ہے کہ بازار میں اس کورس کی کتنی مانگ ہے چنانچہ ہماری تعلیم قومی ضرورتوں یا قوم کی امنگوں کی بنیاد پر نہیں ہورہی ہے بلکہ بیرونی ملک ملٹی نیشنل کمپنیوں کے تقاضے اور اس کی بنیاد پر ہو رہی ہے آج کا نظام تعلیم ہمارے نوجوانوں میں حرص ہوس اور استحصال پر مبنی سرمایہ دارانہ ذہنیت پیدا خدا کر رہا ہے یہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔
بیس پچیس سال اس مقصد کے لئے تعلیم میں صرف کیے جائیں کہ باقی تیس پینتیس سال خوشحال اور آرام دہ زندگی گزاری جا سکے ۔ بچہ ڈاکٹر یا انجینئر بن جائے اور چونکہ ڈاکٹر اور انجینئر بننا اس مسابقتی دور میں ایک مشکل کام ہے اس لئے بچہ پیدا ہوتے ہی دیگر تمام اخلاقی تربیتی اور دینی تعلیمی تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اس کی کوشش میں لگ جاتا ہے یاد رکھیے اس سطحی اور پست تعلیمی تصور کے نتائج نہایت بھیانک ہے ہر ایک کو ڈاکٹر اور انجینئر بنانے کی اس دیوانگی نے بچوں سے صرف ان کا بچپن، بچپن کی شوخیاں اور مسکراہٹ اور بچپن کا حسن و لطافت ہی نہیں چھینا ہے بلکہ ان سے ان کی شخصیت بھی چھین لی ہے، وہ انمول خزانے چھین لیے ہیں جو فطرت نے ان کے اندر ودیعت کر رکھے تھے اس دیوانگی نے انسانیت کو نہ جانے کتنے فارابیوں بوعلی سیناؤں غزالیوں اور مجدد الف ثانیوں سے محروم کر دیا ہے شخصیتوں کے اس قتل عام کے لئے سماج کے ساتھ ساتھ ماں باپ بھی ذمہ دار ہے جو اپنی آرزوؤں کی اپنے بچوں کے ذریعہ تکمیل چاہتے ہیں اور اپنے خوابوں کو بلجبر اپنے بچوں پر تھوپتے ہیں ۔ فرض کیجئے اگر ہمارا بچہ ایک اچھا قلمکار بن سکتا تھا نیوز اور ٹائمز کی سطح پر بین الاقوامی معیارات کے مطابق اسلام کا صحافتی دفاع کر سکتا تھا لیکن ہم نے محض اپنی خواہش کی خاطر اسے زبردستی ڈاکٹر بنا دیا تو شرعاً نہ سہی عملاً ہمارا جرم اس سے کم تر درجہ کا نہیں جس نے ایک بڑے قلم کار کو پھانسی پر لٹکا دیا ہو ۔کمہار کی طرح نظام تعلیم کے ذریعے اپنی پسند کے افراد ڈھالنے کا یہ مکروہ عمل برطانوی ماہر تعلیم لارڈ میکالے نے شروع کیا تھا اور کم عقل،کند دماغ، skilled labour کی فوج کی تخلیق کا بیڑا اٹھایا تھا تاکہ وہ انگریزوں کے دیے ہوئے پیمانوں، طریقوں اور معیارات کے تحت سر جھکا کر اپنے اپنے شعبوں میں یکسوئی اور فرمانبرداری کے ساتھ انگریزوں کا حق نمک ادا کرتے رہیں ان کی کسی چیز کو چیلنج نہ کریں ان کی جانب سے آنے والی ہر بات کو وحی الہی سمجھے اور اپنے شعبوں کے علاوہ دیگر معاملات سے سروکار نہ رکھے ۔
موجودہ وقت کا ایک اہم سوال یہ ہے کہ آخر تعلیم ہے کیا ؟
تعلیم کے عام طور پر جو فوائد بیان کیے جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس سے آدمی باشعور بنتا ہے، مہذب بنتا ہے، سوال کرنے اور غلط رجحانات کو چیلنج کرنے کی صلاحیت اس کے اندر پیدا ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ اب آپ ایک ایسے پوسٹ گریجویٹ انجینئر کا تصور کیجیے جو اپنے پیشے سے متعلق کتابوں اور اخبارات کے سوا کچھ نہیں پڑتا کیا وہ پڑھا لکھا کہلانے کا حقدار ہے ؟ بے شک وہ اپنے فن میں ویسا ہی ماہر ہے جیسے ایک ان پڑھ بڑھی اور اور کار مکینک اپنے فن میں ماہر ہے کیا سماجی شعور کے حوالے سے سے دونوں میں کوئی فرق ہے؟ پڑھا لکھا ہونا صرف پڑھنے لکھنے کی لیاقت کا حامل ہونا نہیں ہے ۔
ایک امریکی دانشور نے بہت صحیح کہا ہے کہ :
Those who read only about their subject are like lifeless machines, that can perform only one task. In the matters of higher wisdom, they are not better than illiterates.
ایک انجینئر اور ان پڑھ آدمی میں کوئی فرق نہیں ہوتا یہ کیفیت ہم آسانی سے پڑھے لکھے پروفیشنلز کے ساتھ بات کرتے ہوئے محسوس کرسکتے ہیں وہ بہت کامیاب ہے لیکن کسی سنجیدہ موضوع پر پانچ منٹ بات نہیں کر سکتے اونچی اور گہری باتیں ان کو سمجھانا بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا کسی ان پڑھ دیہاتی کو اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی سامراج کو صرف skilled labour کی ضرورت ہے تعلیم یافتہ اور باشعور شہریوں کی نہیں ۔ ایک اچھا تعلیمی نظام ان سوالات کے صحیح جوابات تلاش کرنے میں طالب علم کی مدد کرتا ہے کیا میں صرف اپنے لئے اور اپنے خاندان کے لئے روزی کمانے کی خاطر جی رہا ہوں یا میرا کچھ اور بھی مقصد ہے ؟ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک مادہ پرست تہذیب کے پروردہ مفکر کو تعلیم سے متعلق جن عظیم حقیقتوں کا شور ہے اللہ کی کتاب کے نام لیوا مسلمانوں کی بڑی تعداد اس شعور سے خالی ہے !!!
*تعلیم کے مقاصد اسلام کے نزدیک *
اسلام کے نزدیک اس دنیا میں انسان اللہ کا خلیفہ ہے واذ قال ربك للملائكه اني جاعل في الارض خليفه (البقره )
خلیفہ ہونے کی حیثیت سے اس کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ اللہ کے دین کو اس کی زمین میں غالب کرے اللہ کی مرضی کے مطابق ایک نئی تہذیب اور ایک نئے تمدن کی تعمیر کا فریضہ انجام دے زندگی کے ہر شعبے کو اللہ کی بغاوت اور نافرمانی کی آلودگیوں سے پاک کرے یہی وہ مقصد ہے جس کے حصول کی خاطر انسان اس دنیا میں پیدا کیا گیا ہے ۔
تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس نصب العین کے حصول کی خاطر جدوجہد کے لئے تیار ہو اس کے لئے ہر صلاحیت ہر فن اور ہر علم کی ضرورت ہے بحیثیت مسلمان ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کی مخصوص صلاحیتوں کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ وہ کن شعبوں میں اس نصب العین کی بہتر خدمات انجام دے سکتے ہیں اب چونکہ اس نصب العین کا تعلق اس دنیا سے ہے اس لئے اس کے حصول کے لئے ان علوم میں مہارت ضروری ہے جنہیں نہایت غلط طور پر دنیاوی علوم کہا جاتا ہے اسلام میں علم کی عصری یا دنیاوی کوئی تقسیم نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ امام غزالی اور امام ابن تیمیہ نے دنیاوی علوم کے حصول کو بھی مسلمانوں کے لئے فرض کفایہ قرار دیا ہے ۔
دنیا کا طے شدہ اصول ہے کہ غلامی کے لیے اعلی صلاحیت درکار نہیں ہوتی، نہ بنے بنائے طریقوں کے مطابق مشینی انداز میں کچھ کام کرنے کے لئے اعلی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے اعلی صلاحیتوں کی ضرورت قیادت، رہنمائی، اور نئے راستوں کی تلاش اور جستجو کے لیے ہوتی ہے کسی مستحکم نظام کو چیلنج کرنے کے لیے اعلیٰ صلاحیت درکار ہوتی ہے مثال کے طور پر دنیا سودی معیشت پر مبنی ہے اس معیشت کے اصول اور ضوابط متعین ہیں بینک کیسے کام کرے اس کا طریقہ کار واضح ہے، اس طریقہ کار کا علم حاصل کرکے اور بنے بنائے اصولوں کے مطابق کام کر کے ایک متوسط صلاحیت کا آدمی بغیر کسی creativity اور ذہانت کے ایک کامیاب بینکر بن سکتا ہے لیکن اگر سود سے پاک معاشی نظام لانا چاہتے ہیں ، موجودہ نظام کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے غیر معمولی ذہنی قابلیت درکار ہوگی اللہ کی مرضی کے مطابق نئے تمدن کی تعمیر سائنس، ٹیکنالوجی، میڈیسین، سماجیات، اور سیاست وغیرہ ہر میدان میں میں نئے زاویوں اور نئی بنیادوں کا تقاضا کرتی ہے اس لیے مولانا مودودی صاحب نے لکھا ہے کہ مقلدوں کا کمال نہیں بلکہ مجتہدوں کا کمال درکار ہوتا ہے اگر آپ اپنے بچوں کو ایک نئے تمدن کی تعمیر کا خواب دکھائیں گے تو اسی تناسب سے ان کی صلاحیت بھی ابھرے گی اور اگر ایک پرکشش تنخواہ، اچھی نوکری، اور اچھے کیرئیر، کا خواب دکھائیں گے تو اسی تناسب سے وہ اوسط صلاحیت پر قانع ہو جائیں گے بلند مقاصد بلند شخصیتیں پیدا کرتے ہیں، اور حقیر مقاصد سے ویسے ہی چھوٹے لوگ پیدا ہوتے ہیں جیسے اس وقت ہمارے چاروں طرف نظر آرہے ہیں ۔
اگر ہم تعلیم کے میدان میں بھی اسلام کی رہنمائی کو اختیار کرنا چاہتے ہیں تو ہماری پہلی تعلیمی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ہمارا بچہ یہ جان لیں کہ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اگر کسی فرد کو یہ معلوم نہ ہو کہ پیڑ کے اندر سبز پتوں کا مقصد کیا ہے؟ وہ ہمیں آکسیجن فراہم کرتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی زہریلی گیس کو اپنے اندر لیتے ہیں تو وہ جاھل سمجھا جاتا ہے لیکن اس سے کہی زیادہ جاھل وہ شخص ہے کہ جو بے جان اشیاء کے عضو اور ہر عمل کے مقصد سے واقف ہوں لیکن اسے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ خود کس لئے پیدا ہوا ہے اور زندگی میں اس کا مقصد کیا ہے ؟ ایسے ہی ایک بایلوجی کا اسٹوڈنٹ انسان کی پوری باڈی سے بحث کرتا ہے کہ دل کیسے کام کرتا ہے؟ گردے کیسے کام کرتے ہیں؟ دماغ کیسے کام کرتا ہے ؟ اور انسان کی بوڈی کا پورا سسٹم کیسے چلتا ہے لیکن اس کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ بوڈی کا سسٹم چلاتا کون ہے تو کتنی عجیب بات ہے، تو یہ تعلیم کی کمی ہے ۔
تعلیم کا پہلا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ایک طالب علم کو بحیثیت مسلمان تمام شیطانی قوتوں کو میدان سے ہٹا کر اس سسٹم کو اللہ کی مرضی کے مطابق بنانا ہے اور ایک نئے تمدن کی تعمیر کرنی ہے اور خدا کی خلافت کا فریضہ انجام دینا ہے۔