عقائد و نظریات فقہ و فتاویٰ

فتاویٰ مظہریہ کی عبارتوں کی توضیح (قسط دوم)

تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ

قسط اول میں فتاویٰ مظہریہ کی ایک عبارت کی تشریح کی گئی ہے۔قسط دوم وقسط سوم میں ایک دوسری عبارت کی توضیح وتشریح اور شرعی احکام کی تفصیل مرقوم ہے:واللہ الموفق

الصورام الہندیہ میں تصدیق:

قسط اول میں فتاویٰ مظہریہ کی اس عبارت پر بحث مرقوم ہوئی،جس میں موت کے بعد توبہ کی خبر کے سبب اکابر دیوبند کی تکفیرسے سکوت کواپنا مسلک بتایا۔

الصوارم الہندیہ میں مفتی موصوف کی تصدیق بھی موجود ہے۔ تصدیق مندرجہ ذیل ہے۔

”اس عاجز کا یہ کہاں زہرہ کہ حضرات علمائے کرام حرمین شریفین کے مخالف لب کشائی کرسکے۔ان حضرات نے جوکچھ فرمایا، حق وواجب العمل ہے:فقط

محمد مظہراللہ غفرلہ:امام مسجد فتح پوری (دہلی)

(الصوارم الہندیہ:ص 122-مرکزی جماعت اہل سنت لاہور)

توضیح:اس تصدیق سے بالکل واضح ہے کہ صاحب فتاویٰ مظہریہ اشخاص اربعہ کو کافر مانتے تھے،لیکن توبہ کی خبر کے سبب موصوف نے بعدمیں اپنا مسلک سکوت بتایا۔

چوں کہ اشخاص اربعہ سے متعلق توبہ کی کوئی خبر نہیں۔دیوبندی لوگ بھی توبہ کی بات نہیں بیان کرتے تو اشخاص اربعہ کو کافر ماننے کاحکم ہوگا اور مفتی موصوف کو کسی کی خبر کاذب کے سبب تردد لاحق ہوگیا اور انہوں نے اپنا مسلک سکوت بتایا تووہ معذورہیں۔

الصوارم الہندیہ میں موجودتصدیقات سال 1344/1345 ہجری میں حاصل کی گئی تھیں۔اس وقت اشخاص اربعہ میں سے خلیل احمد انبیٹھوی (1299-1346)اور اشرف علی تھانوی(1362-1280) زندہ تھے۔امید یہی ہے کہ ان سب کی موت کے بعد دیوبندیوں نے توبہ کی افواہ پھیلائی ہو، جیسے گنگوہی کی موت کے بعداس کے فتویٰ وقوع کذب کو غیرثابت اور جھوٹا بتانے لگے اور گنگوہی اپنی زندگی میں پندرہ سال تک خاموش رہا۔کفر کے متعددفتاوے عائد ہوئے،لیکن خموشی برقرار۔مرتے ہی تاویل کا بازار گرم ہوگیا۔

اگر محض موت اور احتمال توبہ کے سبب مفتی موصوف سکوت کا مسلک اختیار کرتے تو الصوارم الہندیہ کی تصدیق سے قبل افراد خمسہ میں سے تین لوگ یعنی نانوتوی,گنگوہی اور قادیانی کی موت ہو چکی تھی۔
احتمال توبہ کے سبب موصوف لکھتے کہ ان تینوں کی تکفیر سے سکوت کرتا ہوں اور باقی دو کو کافر مانتا ہوں۔

الحاصل مفتی موصوف کو توبہ کی خبر کے سبب تردد ہوا۔پھر اپنے حق میں سکوت کو اختیار کیا۔دوسروں کو تکفیر سے سکوت کا حکم نہیں دیا۔ قسط اول میں تفصیل مرقوم ہوئی۔

سوال دوم اوراحکام شرعیہ کی تفاصیل:

سوال دوم:فتاویٰ مظہریہ کی ایک عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس کو اشخاص اربعہ کی کفریہ عبارت سمجھ میں نہ آئے اور وہ اشخاص اربعہ کو کافر نہ مانے تووہ خود کا فر نہیں ہوگا۔
سوال وجواب مندرجہ ذیل ہے۔

سوال نمبر۸۴۲:جو حضرات علمائے دیوبند کی ایسی تحریرات کی تاویلیں پیش کرتے ہیں جن سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی مترشح ہوتی ہے،اوریہ کہتے ہیں کہ علمائے بریلوی ان عبارات کے غلط معنی ومفہوم لیتے ہیں تو ایسے حضرات کے لیے کیا حکم ہے؟بینوا توجروا
مستفتی:محمد ایو ب الرحمن خطیب جامع مسجدسبزی منڈی خانیوال (مغربی پاکستان)
29:جولائی ۷۵۹۱؁ء

الجواب:جو عبارتیں مابہ النزاع ہیں،وہ خالص اردو کی عام فہم ہیں،پس ان کے معنی کے سمجھنے میں نہ کسی دیوبندی کا اعتبارہے،اور نہ بریلوی کے فہم کا۔بلا کسی رورعایت کے عام ہندوستانی جوان عبارات کے معنی بتلائیں،اس ہی کا اعتبارہے،پھر اس پر شریعت مطہرہ کا جوحکم ہے،اس پر عمل لازم۔

البتہ اگر کوئی شخص ایسے مقام کا ہے جس میں رہنے والوں کی سمجھ ہی اوندھی ہوتی ہے،جیسے ہندوستان میں بھونکر یا شکار پور وغیرہ۔یا ہے تو وہ شخص خطہ حکما کا، لیکن قسام ازل نے اسے سمجھ ہی ایسی عطا فرمائی ہے کہ اس کے سمجھ میں ہی کسی عبارت کے ایسے ظاہری معنی نہیں آتے جو موجب کفر ہیں،بلکہ ایسے معنی آتے ہیں جوموجب کفر نہیں تو ایسے شخص کی دیانۃً تکفیر نہیں کی جا سکتی کہ وہ ایسے معنی کا قائل نہیں جوموجب تکفیر ہیں۔

لیکن اگر وہ ان عبارات کے قائلین کی رعایت سے ایسے معنی بیان کرتا ہے،حالاں کہ اس کا قلب گواہی دیتا ہے کہ ان کے معنی وہی ہیں جوظاہر کلام سے مفہوم ہوتے ہیں تو ایسے شخص کی تکفیر نہ کرنا اس کے لیے کچھ مفید نہیں ہوسکتا:فقط واللہ تعالیٰ اعلم

محمدمظہر اللہ غفرلہ:مسجد جامع فتح پوری (دہلی)
14:اگست ۷۵۹۱؁ء
(فتاویٰ مظہریہ:جلددوم ص375 -ادارہ مسعودیہ کراچی)

جواب:

مفتی موصوف نے ایک مفتی کے فتویٰ پرتبصرہ کرتے ہوئے رقم فرمایا:

”اس جواب میں مفتی صاحب سے لغزش ہوئی“۔
(فتاویٰ مظہریہ:جلددوم ص 379-ادارہ مسعودیہ کراچی)

توضیح:مفتی موصوف کے منقولہ بالا جملے سے واضح ہوگیا کہ مفتی سے لغزش کا وقوع ممکن ہے،بلکہ لغزش واقع ہوتی ہے۔لغزش کا حکم یہ ہے کہ جیسے ہی اس پر اطلاع ہو، بطیب خاطر اس سے رجوع کیا جائے۔اپنی لغزش پر مطلع نہ ہونے کے سبب مفتی معذور ہے،لیکن اس لغزش کوان کا مسلک بتانا غلط ہے۔لغزش وخطا کو مسلک قرار نہیں دیا جاتا۔

سوال دوم کے جوابات:

صاحب فتاویٰ مظہریہ نے یہ رقم فرمایاہے کہ دیانۃً ایسے ناسمجھ کی تکفیر نہیں کی جائے گی، لیکن اپنے قول پر کوئی دلیل رقم نہیں فرمائی ہے۔

اگر دلیل رقم فرماتے تو اس پر غور کیا جاتا۔ تاہم یہ قول اصول شرع کے موافق نہیں،اس لیے یہ قابل عمل نہیں۔

بعض دیگر اہل علم کو بھی ایسا شبہہ ہو سکتا ہے،بایں سبب ان شاء اللہ تعالیٰ مختلف طرز پر اس مسئلہ کی تفہیم ہوگی۔

(1)احکام شرعیہ اور عقل تکلیفی:

جب تک عقل تکلیفی موجود ہے،بندہ احکام شرعیہ کا مکلف رہے گا۔قلبی تصدیق واعتقاد کا حکم کبھی مرتفع نہیں ہوتا ہے،گرچہ جبرواکراہ کے سبب زبانی اقرارکا حکم مرتفع ہوجاتا ہے اورزبان سے کفری قول کہنے کی رخصت ہوتی ہے۔

اسی طرح عملی احکام کے عمل وادا میں کبھی رخصت ہوتی ہے،مثلاً مسافر کو ماہ رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی رخصت،معذور کو بیٹھ کر فرض نماز اداکرنے کی رخصت۔

تصدیق واعتقادمیں رخصت کا حکم نہیں۔ضروریات دین،ضروریات اہل سنت ودیگر شرعی احکام کے حق ہونے کااعتقاد سب پر لازم ہے،خواہ سمجھ میں آئے،یا نہ آئے۔

اتنا تو سمجھ میں آئے گا کہ یہ شرعی حکم ہے،پس تصدیق واعتقادکے لیے اتنا ہی علم کافی ہے۔

آیات متشابہات کے معانی کا علم بندوں کونہیں دیا گیا، لیکن آیات متشابہات کا انکار یقینا کفر ہے۔اتنا تو ہرایک کوسمجھ میں آئے گا کہ یہ قرآن مقدس کی آیات طیبہ ہیں۔ایمان کے لیے اتنا ہی علم کافی ہے۔

ایسا نہیں کہ کسی کوتوحید خداوندی سمجھ میں نہ آئے تو اسے دومعبود یا چند معبود ماننے کی رخصت ہوگی۔یہی مشرکین مکہ کوسمجھ میں نہیں آتا تھا،وہ کہتے تھے۔

(اَ جَعَلَ الاٰلِہَۃَ اِلٰہًا وَّاحِدًا-اِنَّ ہٰذَا لَشَیءٌ عُجَابٌ)(سورہ ص:آیت5)

صدرالشریعہ بخاری نے رقم فرمایا:((والمأمور بہ فی صفۃ الحسن نوعان) حسن لمعنی فی نفسہ وحسن لمعنی فی غیرہ(اماالاول)فاما ان لا یقبل سقوط التکلیف کالتصدیق-

واما ان یقبل کالاقرار باللسان،یسقط حال الاکراہ-

والتصدیق ہو الاصل-والاقرار ملحق بہ-لانہ دال علیہ۔

فان الانسان مرکب من الروح والجسد فلا تتم صفتہ-الا بان تظہر من الباطن الی الظاہر بالکلام الذی ہو ادل علی الباطن-

ولا کذلک سائر الافعال-فمن صدق بقلبہ وترک الاقرار من غیر عذر لم یکن مومنا -وان صدق ولم یصادف وقتا یقر فیہ یکون مؤمنًا-

وکالصلٰوۃ تسقط بالعذر)(توضیح مع التلویح:جلد اول ص 330-329دارالکتب العلمیہ بیروت)

توضیح:تصدیق قلبی کا حکم کبھی بھی مرتفع نہیں ہوتا ہے,جب تک عقل تکلیفی موجود ہے۔

(2)ذات خداوندی کا ادراک عقل سے ماورا:

اصل الاصول اللہ ورسول (عزجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)پرایمان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات انسانی عقلوں سے ماورا ہے اوربندوں کے لیے غیب بھی،پھربھی اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا فرض اعظم ہے۔

تفسیر بیضاوی میں ہے کہ رب تعالیٰ کی معرفت میں عقل حیران رہ جاتی ہے:

(العقول تتحیر فی معرفتہ)(تفسیربیضاوی:سورہ فاتحہ)

عقل کو اتنی قوت عطا نہیں ہوئی کہ ذات باری تعالیٰ کاادراک کرسکے۔قرآن مجیدمیں مخلوقات خداوندی کو دیکھ کر خالق کا ادراک کرنے کا حکم ہے۔مخلوقات کودیکھ کرذات الہٰی،وجودالٰہی وصفات الٰہی پر ایمان کاحکم ہے۔ جب تک عقل تکلیفی موجود ہے۔

(3)شاہق جبل کا مسئلہ:

شاہق جبل یعنی پہاڑ کی چوٹی پر رہنے والابالغ انسان جس کے پاس دعوت پیغمبر نہ پہنچی ہو، اس پر بھی اپنی عقل کے اعتبارسے اللہ تعالیٰ پرایمان کا حکم ہے۔عقل ہی مدار تکلیف ہے۔مخلوقات کو دیکھ کر یقینا خالق کایقین ہوگا۔

علامہ بحرالعلوم نے رقم فرمایا:((وبما حررنا من المذاہب یتفرع)علیہ (مسئلۃ البالغ فی شاہق الجبل)ای الذی لم تبلغہ الدعوۃ-فعند المعتزلۃ مؤاخذ بترک الحسنات وفعل القبائح ومثاب بالحسنات۔

وعند ہؤلاء المشائخ یؤاخذون باتیان الکفر مطلقا وبترک الایمان عند مضی مدۃ التأمل)(فواتح الرحموت:جلد اول:ص26:دارالکتب العلمیہ بیروت)

توضیح:مشائخ حنفیہ اور ماتریدیہ کے یہاں جو پہاڑ کی چوٹی پر رہتا ہو، اوراسے دعوت اسلام یعنی کسی پیغمبر کی دعوت نہ پہنچی،اس پر لازم ہے کہ اپنے خالق پر ایمان لائے،کیوں کہ مخلوقات اپنے خالق کا پتہ دیتی ہیں۔

مدت تأمل گزر جانے کے بعد خالق کا یقین نہ کیا تو ماخوذہوگا۔مدت تأمل ہر ایک کے حق میں مختلف ہے،لیکن انسانی آبادی سے باہر بسنے والے انسان بھی معذور نہیں,جب تک عقل تکلیفی موجود ہے۔خواہ وہ پہاڑ کی چوٹیوں پر رہیں،یا بیابانوں میں۔

(4)مکفرات کے جاننے کا حکم:

ایمان فرض ہے اور ایمان تصدیق کا نام ہے،یعنی ان دینی امور کوسچ ماننے کا نام ہے جن کو حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم لے کر آئے۔

جو امور تصدیق کے منافی ہیں،وہ ایمان کو ختم کردیتے ہیں،اس لیے ایمان کی حفاظت کے لیے نواقض ایمان کو جاننے کا حکم ہے۔

اپنی فہم وعقل کے اعتبارسے فیصلہ کا حکم نہیں،ورنہ جس کی سمجھ میں جوآئے گا،وہ بکتا پھرے گا۔

مر تدین کوسلاطین اسلام قتل کردیتے تھے اوریہی حکم شرعی بھی ہے۔ مرتدین میں بہت ایسے ہوں گے جوجان بوجھ کرحق کا انکار کرتے ہوں گے،اوربہت سے ایسے ہوں گے جن کو کوئی شبہہ لاحق ہوگیا ہوگا،لیکن حق کے انکارکے سبب تمام کا حکم یکساں ہے۔

ملاعلی قاری حنفی نے رقم فرمایا:(فیجب علی کل احد معرفۃ الکفریات اقوی من معرفۃ الاعتقادیات-فان الثانی یکفی فیہا الایمان الاجمالی)
(منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر ص:444۔دار البشائر الاسلامیہ بیروت)

ترجمہ:ہرایک مسلمان پر کفریات کوجاننا ضروری ہے۔یہ اعتقادیات کی معرفت سے زیادہ قوی ہے،اس لیے کہ اعتقادیات میں ایمان اجمالی کافی ہے۔

توضیح: کفریات کا علم ایمان کی حفاظت میں زیادہ قوی ہے،کیوں کہ جب غلط بات کوجانے گا تو اس سے پرہیز کرے گا اور اعتقادیات میں ایمان اجمالی کافی ہے،یعنی جن امور کا علم نہیں ہے تو اجمالی طورپر تمام احکام اسلامی پر ایمان لانا کافی ہے۔ جب کہ کفر یات کا حال یہ ہے کہ اگر ضروریات دین کا انکار لاعلمی میں بھی کردیا تو بھی بہت سے فقہا کے یہاں حکم کفر عائد ہوجاتا ہے،پس کفریات کا علم ایمان کی حفاظت میں زیادہ قوی ہے۔

(5)عدم علم کے وقت سوال کا حکم:

جب جاہلوں کو اشخاص اربعہ کے کفریات سمجھ میں نہ آسکیں توان کوعلما سے سوال کا حکم ہو گا۔ جس کو جو بات معلوم نہ ہو تو اس کے لیے اہل علم سے سوال کرنے کا حکم قرآن مجید میں بیان کیا گیاہے۔

ارشاد ربانی ہے:(فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون)

صرف مجتہد کوظنی اجتہادی مسائل میں اپنے اجتہادی مسئلہ پر عمل کا حکم ہے۔

(6)قطعی امور میں غلط راہ اختیارکرنا غلط:

گمراہ ومر تد فرقے قطعی امو رمیں غلط راہ اختیار کرنے کے سبب گمراہ یا مرتد قرار پائے۔قطعی امور کوماننے کا حکم ہے،خواہ سمجھ میں آئیں،یا سمجھ میں نہ آئیں۔

کم عقلوں اور کج عقلوں کے لیے بھی قطعیات میں ایک ہی حکم ہے اوراس حکم کوماننا ہے۔

(1)قال التفتازانی:(لان المخطئ فی الاصول والعقائد یعاقب،بل یُضَلَّلُ اَو یُکَفَّرُ-لان الحق فیہا واحد اجماعًا-والمطلوب ہو الیقین الحاصل بالادلۃ القطعیۃ-اذ لا یعقل حدوث العالم وقدمہ-وجواز رویۃ الصانع وعدمہ-فالمخطئ فیہا مخطئ ابتداءً وانتہاءً) (التلویح جلدوم:ص121)

توضیح:قطعیات میں صرف ایک قول حق ہوگا۔واضح رہے کہ یہاں قطعی سے صرف قطعی بالمعنی الاخص اور قطعی بالمعنی الاعم مراد ہے۔ ایک قطعی خاص ہے جو بعض مجتہدین کو قرائن کے سبب کسی امرمیں حاصل ہوتا ہے اوروہ اس امر کوفرض عملی قراردیتے ہیں،وہ متکلمین کی بحث سے خارج ہے،کیوں کہ اس کی بنیادعام دلیل پر نہیں،بلکہ مجتہدکے حاصل شدہ خاص قرائن پر ہے۔وہ قرائن دیگرافراد کوحاصل نہ ہوسکیں توان کے حق میں وہ امرظنی ہے۔

جیسے صحابی نے خود حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے کوئی امر دینی سماعت کی،اور دوسروں کوخبرواحدکے ذیعہ وہی بات معلوم ہوئی تواس خاص صحابی کے حق میں وہ امر قطعی بالمعنی الاخص اورضروری دینی ہے اور دیگر حضرات کے لیے ظنی اور غیر ضروری دینی ہے۔

قطعیات میں جو قطعی بالمعنی الاخص(ضروریات دین) ہے،اس کے برخلاف جتنے اقوال ہوں گے،سب باطل محض ہوں گے، اور قائل کافر کلامی ہوگا۔

قطعیات میں جو قطعی بالمعنی الاعم (ضروریات اہل سنت)ہے،اس کا منکر متکلممین کے یہاں گمراہ ہے۔ فقہائے احناف اوران کے مؤیدین کے یہاں وہ کافر فقہی ہے۔

(2)قال الملا احمد جیون:((وہذا الاختلاف فی النقلیات دون العقلیات)ای فی الاحکام الفقہیۃ دون العقائد الدینیۃ-فان المخطئ فیہا کافرکالیہود والنصارٰی او مُضَلَّلٌ کالروافض والخوارج والمعتزلۃ ونحوہم) (نورالانوارص247-طبع ہندی)

توضیح:مذکورہ بالاعبارت میں نقلیات سے ظنی فقہیات مرادہیں اورعقلیات سے قطعی اعتقادیات مراد ہیں۔اعتقادیات وفقہیات دونوں میں چارقسم کے احکام مندرج ہوتے ہیں۔ان کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

فقہیات میں ظنیات واجتہادیات کی کثرت ہوتی ہے اور اعتقادیات میں قطعیات کی کثرت ہوتی ہے۔

قطعی بالمعنی الاخص یعنی ضروریات دین کے التزامی انکار پر تکفیر کلامی ہوتی ہے۔

ضروریات اہل سنت کے بالتاویل انکار اور ضروریات دین کے لزومی انکار میں تکفیر فقہی ہوتی ہے۔

ظنی امور میں ظنی ملحق بالیقین میں بھی اختلاف کی اجازت نہیں،مثلاً ائمہ مجتہدین کے اجماعی مسائل اور خبر مشہور سے ثابت ہونے والے مسائل۔ان امور میں اختلاف کے سبب بھی فقہا بدعت وضلالت کا حکم نافذکرتے ہیں۔ یہاں کفر فقہی کا حکم نہیں دیتے۔

ظنی غیر ملحق بالیقین میں اہل اجتہادواہل تحقیق کو کسی تاویل کے سبب اختلاف کی اجازت ہے۔

ظنی غیر ملحق بالیقین میں بلا تاویل اختلاف پر تفسیق کی جاتی ہے،اور منکر کوگنہگار قرار دیا جاتا ہے۔

تکفیرکلامی،تکفیر فقہی، تبدیع وتضلیل،اور تفسیق کل چار احکام ہیں۔

(7)مسئلہ کفر کلامی اور مجتہدین:

کافرکلامی کوکافر ماننا ضروریات دین میں ہے۔ضروریات دین اجتہادیا ت میں سے نہیں کہ کوئی مجتہداپنے اجتہاد سے کسی کافر کلامی کے کفر کا انکار کردے اوراس کو مومن مان لے،بلکہ مجتہدکوسمجھ میں نہ آئے،پھر بھی متکلمین کسی پر کفر کلامی کا فتویٰ دیں تو مجتہدین کویہ فتویٰ ماننا لازم ہے۔

کفر کلامی کفر قطعی بالمعنی الاخص اور کفر بدیہی وضروری ہے۔

کفر کلامی میں اجتہاد جاری نہیں ہوگا کہ کسی عالم یا مجتہد کے یہاں کوئی آدمی کافر کلامی ہو،اور کسی کے یہاں مومن ہو۔قطعیات میں ایک حق ہوتا ہے اوراس کے علاوہ سب باطل، ورنہ اجتماع متضادین لازم آئے گا،مثلاً مسئلہ حاضرہ میں ایک ہی آدمی کافر کلامی ہوگا،یعنی دین سے بالکل خارج ہوگا اور دین میں داخل بھی ہوگا۔

ایک آدمی ایک ہی وقت میں اسلام میں داخل اور اسلام سے خارج نہیں ہوسکتا۔ایک ہی آدمی میں بیک وقت ایمان وکفر کا اجتماع نہیں ہو سکتا۔وہ شخص یا تو مومن ہوگا،یا کافر ہوگا۔

فقہا کی دوقسمیں ہیں:مجتہد فقہا اور غیر مجتہد فقہا۔علمائے کرام کومعلوم ہے کہ اجماع شرعی میں مجتہدین فقہا کا اعتبار ہے،غیر مجتہدفقہا کا اعتبار نہیں۔

اجماع میں مجتہد فقہا کا اعتبار ہے۔اجماع شرعی کی تعریف ہی میں ہے کہ کسی زمانے میں کسی امرپرامت مسلمہ کے مجتہدین کے اتفاق کا نام اجماع ہے۔ اجماع میں غیر مجتہد فقہا کا اعتبار نہیں۔

مذہب شافعی میں اجماع شرعی میں غیر کافر بدعتی کا لحاظ ہوتا ہے،کافربدعتی کا نہیں۔

اگر فقہا ئے شوافع کوکسی کافر بدعتی کے کفر کا علم نہ ہو سکا اور فقہا نے اس کافر بدعتی کے اختلاف کے سبب اجماع کو غیرمنعقد سمجھا تو اس صورت کا حکم بیان کرتے ہوئے امام غزالی نے تحریر فرمایا کہ اگر فقہا کو اس بدعتی کے کفریہ قول کا علم تھا تو فقہا پر لازم تھا کہ اس کفریہ قول کا حکم متکلمین سے دریافت کرتے،اورپھر متکلمین کا فتویٰ ماننا ان پر لازم ہوتا۔

اگر فقہاکواس بدعتی کے غلط قول کی اطلاع ہی نہیں تھی توفقہا عدم علم کے سبب اجماع کوغیر منعقد قرار دینے میں معذور ہوں گے۔

قال الغزالی:(فان قیل:فَلَو تَرَکَ بَعضُ الفقہاء الاجماعَ بِخِلَافِ المبتَدِعِ المُکَفَّرِ اِذَا لَم یَعلَم اَنَّ بدعتہ تُوجِبُ الکُفرَ-وَظَنَّ اَنَّ الاجماع لاینعقد دونہ-فَہَل یُعذَرُ من حیث اَنَّ الفقہاء لایطلعون عَلٰی مَعرفَۃِ مَا یُکَفَّرُ بِہ من التاویلات؟قلنا لِلمَسءَلَۃِ صُورَتَانِ۔

(1)اِحدَاہُمَا اَن یَقُولَ الفقہاء:نحن لَا نَدرِی اَنَّ بدعتہ توجب الکفرَ اَم لَا؟ففی ہذہ الصورۃ لاَ یُعذَرُونَ فِیہِ اِذ یَلزَمُہُم مُرَاجَعَۃُ علماء الاصول،ویجب علی العلماء تعریفُہم،فاذا اَفتوہُم بکُفرِہ فعلیہم التقلید۔

فَاِن لَم یَقنَعہُمُ التَّقلید-فَعَلَیہِمُ السُّوَالُ عن الدلیل،حَتّٰی اذا ذُکِرَ لہم د لیلُہ،فَہِمُوہُ لَامَحَالَۃَ-لِاَنَّ دَلِیلَہٗ قَاطِعٌ،فَاِن لَم یُدرِکہُ فَلَا یَکُونُ مَعذُورًا، کَمَن لَایُدرِکُ دَلِیلَ صدق الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم فانہ لَاعُذرَ مَعَ نَصبِ اللّٰہِ تَعَالٰی الاَدِلَّۃَ القَاطِعَۃَ۔

(2)الصورۃ الثانیۃ اَن لَا یکونَ بَلَغَتہُ بِدعَتُہ وَعَقِیدَتُہ فَتَرَکَ الاِجمَاعَ لِمُخَالَفَتِہ فَہُوَ مَعذُورٌ فِی خَطَأِہٖ وَغَیرُ مُوَاخَذٍ بِِہ)
(المستصفٰی من علم الاصول جلد اول ص184)

توضیح:امام غزالی نے فر مایا کہ کفرکلامی کی دلیل قطعی ہوتی ہے تو فقہا اسے سمجھ سکتے ہیں۔ بالفرض اگر سمجھ میں نہ آئے تو بھی فقہا کو متکلمین کا فتویٰ تکفیر ماننا فرض ہے،جیسے کسی کو صدق نبوت کی دلیل سمجھ میں نہ آئے توبھی نبی کونبی ماننا فرض ہے۔اسی طرح فقہا کو تکفیرکلامی کا فتویٰ سمجھ میں نہ آئے توبھی ماننا فرض ہے،اسی طرح عوام کوبھی ماننا فرض ہے،خواہ سمجھ میں آئے،یا نہ آئے۔

اگر فقہا بھی علم کلام میں اس قدر اہلیت رکھتے ہوں جو تکفیر کلامی کے لیے مشروط ہے تووہ خود ہی کفر کلامی کا فتویٰ دیں گے۔

جب متکلمین کفرکلامی کافتویٰ صادر کردیں تو فقہاکو تقلید لازم ہے۔اگر فقہا اس کی دلیل دریافت کریں تو متکلمین دلیل بیان کریں گے،اور فقہا یقینی طورپراس دلیل کو سمجھ لیں گے،کیوں کہ تکفیرکلامی کی دلیل قطعی بالمعنی الاخص ہوتی ہے۔اس میں کوئی احتمال نہیں ہوتا۔

بالفرض اگر فقہا کو دلیل تکفیرسمجھ میں نہ آئے تو بھی انہیں فتویٰ تکفیر ماننا لازم ہے۔

امام غزالی قدس سرالقوی کے قول (فَاِن لَم یُدرِکہُ فَلَا یَکُونُ مَعذُورًا)سے بالکل واضح ہو گیا کہ جو کافرکلامی کے کافرکلامی ہونے کے دلائل کونہ سمجھ سکے،وہ معذور نہیں ہے،بلکہ اس کو حکم شرعی ماننا ہوگا۔جیسے کسی کو نبی کی صداقت کی دلیل سمجھ میں نہ آئے تووہ معذور نہیں ہوگا، بلکہ نبی کونہ ماننے کے سبب کافر ہوگا،کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے دلائل قائم فرمادئیے،یعنی نبی کی نبوت کوثابت کرنے کے واسطے معجزہ ظاہر فرمادیا۔

یہ بات واضح ہے کہ اجماع میں مجتہدین کا اعتبارہے،خواہ مجتہد مطلق ہوں،یا مجتہد فی المذہب۔امام غزالی کے قول (فعلیہم التقلید)سے یہ نظریہ واضح ہوگیا کہ تکفیر کلامی کے مسئلہ میں مجتہدین کو بھی متکلمین کی تقلید کرنی ہے۔

منقولہ بالا عبارت سے واضح ہے کہ غیر اہل کوکفرکلامی کا فتویٰ نہیں دینا ہے۔یہ بات عقل کے بھی مطابق ہے اوریہی حکم قرآنی ہے:(فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون)،یعنی جومسئلہ جس کی قوت سے باہر ہو، وہ اس مسئلہ میں ہاتھ نہ ڈالے،بلکہ اہل علم سے اس بارے میں دریافت کرے۔

جب کفر کلامی کے مسئلہ میں مجتہدین کو متکلمین کی تقلید کرنی ہے،اور ان کے بیان کردہ حکم کوماننا ہے تو ناسمجھ عوام کو اپنی فہم وعقل کے مطابق عمل کا حکم کیسے ہوسکتا ہے۔

فقہی مسائل میں اس قدر احتیاط ہے کہ امام مجتہد کی تقلید لازم قرار پائے،اور اعتقادی مسائل کو ہرشخص حل کرے،اوراپنی فہم پر عمل کرے،یہ عقل ونقل کے خلاف ہے۔

امام احمدرضا قادری نے تحریر فرمایا:”جاہل کو احکام شرع خصوصًا کفرواسلام میں جرأت سخت حرام،اشد حرام ہے۔کوئی ہو، کسے باشد۔ واللہ تعالیٰ اعلم“۔
(فتاویٰ رضویہ جلدششم: ص209-رضا اکیڈمی ممبئ)

توضیح:منقولہ بالا اقتباس سے واضح ہوگیا کہ عوام کومسئلہ تکفیر یا دیگرفقہی مسائل میں بحث وتحقیق کی اجازت نہیں۔جو مسائل عوام کومعلوم ہیں،ان پر عمل کرنا ہے اور جومعلوم نہیں ہیں،وہ اہل علم سے دریافت کرنا ہے۔

فقہا کو مسئلہ تکفیرکلامی کی تحقیق سے ممانعت:

امام غزالی قدس سرہ العزیز نے اپنے عہد کے غیرمتکلم فقہا کو تکفیر کلامی کے مسئلہ میں بحث وتحقیق سے منع فرمایا ہے،پھرآج کے فقہا تو عام طورپر اسلاف کرام کی طرح وسیع العلم نہیں،پھر تکفیر کا مسئلہ جاہل عوام کی عقل وفہم کے سپرد کیسے کیا جا سکتا ہے۔

قال الغزالی:(فاذا فَہِمتَ اَنَّ النَّظرَ فی التکفیر موقوفٌ علٰی جمیع ہذہ المقالات التی لا یَستَقِلُّ بِاٰحَادِہَا الا المبرزون-عَلِمتَ اَنَّ المُبَادِرَ اِلٰی تَکفِیرِِ مَن یُُخَالِفُ الاشعریَّ اَو غَیرَ ہ جَاہِلٌ مُجَازِفٌ-وَکَیفَ یَستَقِلُّ الفَقِیہُ بمجرد الفقہ بہٰذا الخطب العظیم-وَاَیُّ رُبعٍ من ارباع الفقہ یُصَادِفُ ہذہ العلوم-فاذا رَأَیتَ الفَقِیہَ الذی بضاعتُہ مجردُ الفقہ،یخوضُ فی التکفیر والتضلیل-فَاعرِض عنہ وَلَا تَشتَغِل بہ قَلبَکَ وَلِسَانَکَ-فَاِنَّ التَّحَدِّیَ بالعلوم غَرِیزَۃٌ فی الطبع-لَا یَصبِرَعَنہَا الجُہال-وَلِاَجَلِہ کَثُرَ الخلافُ بین الناس وَلَوسَکَتَ مَن لَایَدرِی-لََََََََقَلَّ الخِلَافُ بَینَ الخَلقِ)
(فیصل التفرقۃ بین الاسلام والزندقہ ص74)

توضیح:تکفیر کلامی کے اہل صرف ماہرمتکلمین ہیں۔

جومحض فقیہ ہو،اورعلم کلام میں مہارت نہ رکھتا ہو،وہ بھی فتویٰ تکفیر جاری کرنے کے اہل نہیں۔فقہا کے لیے لازم ہے کہ متکلمین کے فتویٰ کو تسلیم کریں،پھر جاہلوں کو اپنی عقل وفہم پر عمل کا حکم کیسے ہوسکتا ہے۔

(8)گمرہی کا خوف ہوتو استدلال سے ممانعت:

بعض علما بعض اصول عقائدمیں استدلال کو لازم کہتے ہیں،لیکن استدلال کے سبب جن کے گمراہ ہونے کا خوف ہوتو ان کے لیے استدلال ممنوع ہے، لیکن تمام عقائد اسلامیہ کو ماننا فرض ہے۔

اسی طرح اگر کسی کی عقل اوندھی ہو،اور کفریہ عبارتوں پرغورکرنے سے ان کے ذہن میں الٹا مفہوم آتا ہوتو ان کوان عبارتوں میں غوروخوض سے منع کیا جائے گا اور حکم شرعی ماننے کا حکم ہوگا،نہ کہ عدم فہم کے سبب حکم شرعی سے اختلاف وانکار کا حق ہوگا۔

قال الملا علی القاری:(وقیل:معرفۃ مسائل الاعتقاد کحدوث العالم ووجود الباری وما یجب لہ وما یمتنع علیہ من ادلتہا فرض عین علٰی کل مکلف فیجب النظر-ولا یجوز التقلید-وہذا ہو الذی رجحہ الامام الرازی والآمدی۔

والمراد النظر بدلیل اجمالی-واما النظر بدلیل تفصیلی یتمکن معہ من ازالۃ الشبہ والزام المنکرین وارشاد المسترشدین ففرض کفایۃ۔

واما من یخشی علیہ من الخوض فیہ الوقوع فی الشبہۃ فالاوجہ ان المنع متوجہ فی حقہ-فقد قال البیہقی:انما نہی الشافعی رحمہ اللّٰہ وغیرہ عن علم الکلام لاشفاقہم علی الضعفۃ ان لا یبلغوا ما یریدون منہ فیضلوا عنہ)(منح الاروض الازہر فی شرح الفقہ الاکبر ص407-دار السلامہ بیروت)

توضیح:منقولہ بالا اقتباس میں تین امور کا بیان ہے۔

(1)ہر مکلف پر استدلال اجمالی فرض عین ہے۔

(2)استدلال تفصیلی فرض کفایہ ہے۔

(3)غور وفکر سے جس کے گمراہ ہونے کا خوف ہو،اس کے لیے غور وفکر منع ہے۔

جن کم عقلوں کو کفر کلامی کا مسئلہ سمجھ میں نہ آئے،ان کو غوروفکر کی ممانعت کا حکم ہوگا اور حکم شرعی ماننا ہوگا۔کم عقلوں کو اتنا تو ضرورسمجھ میں آتا ہے کہ جب اہل علم اور اہل عقل کوئی بات متفق طور پر بتارہے ہیں تو وہ صحیح ہوگی اور ہم کم عقل ہیں تو عدم فہم کا سبب ہماری کم عقلی ہے۔

کم عقلی کے سبب وہ غوروفکر اور استدلال کے مکلف نہیں ہوں گے۔

ارشاد الٰہی ہے:(لا یکلف اللّٰہ نفساً الا وسعہا)(سورہ بقرہ:آیت 286)

قطعی حکم ماننا سب پر لازم ہے۔عدم فہم کے سبب کوئی معذور نہیں ہوگا۔اگر عقل تکلیفی زائل ہوجائے،مثلاً پاگل ہوجائے،یا عقل تکلیفی کی مدت کونہ پہنچا ہو،مثلاً ناسمجھ بچہ تو ایسے لوگوں پر حکم عائد نہیں ہوگا:واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب والیہ المر جع والمآب

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے