تحریر: پٹیل عبد الرحمن مصباحی، گجرات (انڈیا)
ہمارے اسلاف کا طریقہ یہ تھا کہ وہ غیر اسلامی عناصر کا اصولی و بنیادی رد کرتے تھے. فروعات، جزئیات اور ثانوی ابحاث میں الجھنے سے پرہیز کرتے تھے. مثلاً وہابیہ و دیابنہ کے سینکڑوں اعتراضات یہ کہہ کر رفع فرما دیتے کہ ان کا ما حصل شرک یا بدعت ہے لہٰذا پہلے ان دونوں کی صحیح تعریف پر اتفاق کر لیا جائے پھر جو چیزیں اس کے دائرے میں آئیں انہیں چھوڑ دیا جائے، اور ان کے علاوہ باقی معمولات پر ان دونوں الفاظ کا اطلاق بند کر دیا جائے، اس اصولی انداز کے آگے اپنے فروعی شعبدوں کی کوئی حیثیت نہ پا کر وہابی طبقہ دھیرے سے فرار کی راہ پکڑ لیتا. اسی طرح جب مقابلہ کلیسا سے ہوتا تو ہمارے بزرگ اپنی تحریر و تقریر میں سیدھے تثلیث، تحریف اور ابنیت پر ٹھوس اعتراضات سے بحث کا آغاز کرتے، جس کی وجہ سے عیسائیوں کے باقی تمام سطحی اعتراضات دھرے کے دھرے رہ جاتے. اسلاف کے طریقہ رد کی یہ دو تفصیلی مثالیں ہیں، ان کے علاوہ معتزلہ کی سوفسطائیت، اکبری صلح کل، رافضی شور و غل، قادیانی فریب کاری اور شُدھی سنگھٹن، غرض کہ شرک سے لے کر بد عقیدگی تک ہر باطل کے خلاف ہمارے اسلاف کی؛ ہر دور میں یہی حکمت عملی رہی. اصولی و بنیادی نظریات پر جرح کرنے کی اِسی سنت مبارکہ کا نتیجہ تھا کہ کفر و شرک اور بد عقیدگی ہمیشہ ان کے آگے مغلوب رہی.
لیکن آج کل ہم فروعی و ہنگامی رد کے راستے پر چل پڑے ہیں، ہر جزئی سوال اور سطحی اعتراض کے پیچھے ہمارے قیمتی وقت اور محدود وسائل کا بڑا حصہ صرف ہو جاتا ہے. ہمارے دور کا واضح تر، بدتر اور غالب تر فتنہ الحاد کا فتنہ ہے. الحاد کے خلاف ہمارا رد غير مؤثر، کمزور اور بے وزن اس لیے نظر آتا ہے کہ ہم اس کے جزئیات و فروعات کو تو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، مگر اصول و کلّیات کے بارے میں ہم نے خاموشی کو عافیت سمجھ لیا ہے. یعنی اسلاف کی اصولی تنقید اور ان کے بنیادی تعاقب کے بر خلاف ہم فروعی قیل و قال میں مبتلا ہو گئے ہیں. نتیجہ یہ ہے کہ عموماً سیاسی و معاشی میدانوں اور خصوصاً معاشرتی قلعوں پر الحاد کا پنجہ دن بند سخت سے سخت تر ہوتا جا رہا ہے. وقت کا نقاضا یہ ہے کہ اسلاف کے طریقے پر الحاد کے اصولی نظریات پر بنیادی جرح کی جائے اور نئی نسل کو یہ اعتماد دلایا جائے کہ الحاد کی جس عمارت کو وہ شیش محل سمجھ رہی ہے اس کی بنیادیں ایسی سڑی گلی فکری ساخت پر کھڑی ہیں کہ اب گری تب گری کا خدشہ لگا رہتا ہے، اور اگر بالفرض یہ اپنی غیر فطری بنیادوں پر ٹھہر بھی گئی تو جس دن یہ زمیں بوس ہوگی اس دن انسانیت اس کے ملبے تلے دب کر ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے گی.
الحاد نے اپنے پورے نظام کی بنیاد چند خوبصورت نعروں پر رکھی ہے، جن کو وہ اپنے زعم میں زریں اصول بھی سمجھتا ہے. معیشت کی فراوانی، عورت کی آزادی، قانون کی بالادستی، ما ورائے اخلاقیات تعلیم، یکساں تہذیب و تمدن، جمہوریت کی نیلم پری اور اظہار رائے کی آزادی. یہ ہیں عالمِ الحاد کے بنیادی عناصر. ہمیں صرف ان اصولوں پر چڑھے آب زر کو اپنی معقول و مستحکم تنقیدوں سے کم عیار ثابت کرنا ہے، حقیقت کھلتے ہی الحاد کا کھڑا کیا ہوا سونے کا ہِمالہ مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو جائے گا اور اس پر قائم کردہ انسانی حقوق کے ڈھونگ کی عمارت خود بخود منہدم ہو جائے گی. ہمارا المیہ یہ ہے کہ جب بھی ہم الحاد کے خلاف بات کرتے ہیں تو اصولوں کو براہ راست ٹارگیٹ کرنے اور ان کی سطحیت کا اظہار کرنے سے گریز کرتے ہیں اور مرعوبیت کے تحت اس کے کسی جزوی جبر یا فروعی ستم پر اپنا غصہ نکال کر اپنی ذمہ داری ادا ہو جانے کی خوش فہمی لیے بیٹھ جاتے ہیں.
(دوسری قسط میں ہم تفصیل کے ساتھ مثالوں کے ذریعے اپنا مدعی واضح کریں گے ان شاء اللہ)