تحریر: محمد حبیب القادری صمدی(مہوتری، نیپال)
ریسرچ اسکالر جامعہ عبد اللہ بن مسعود (کولکاتا)
شعبان المعظم اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ ہے، جو رجب المرجب اور رمضان المبارک کے درمیان میں ہے۔ اس ماہ مبارک میں بے شمار خیر و برکت کا نزول ہوتا ہے۔ حضرت علامہ امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :‘‘شعبان ، شَعَب سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں گھاٹی وغیرہ کیوں کہ اس ماہ میں خیرو برکت کا عمومی ورود ہوتا ہے، اس لیے اسے شعبان کہا جاتا ہے ، جس طرح گھاٹی پہاڑ کا راستہ ہوتی ہے اسی طرح یہ مہینہ خیرو برکت کی کی راہ ہے’’۔(مکاشفۃ القلوب، ص:۶۳۱،مجلس المدینۃ العلمیۃ)
رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ:
حضرت انس رضی اللہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا گیا:
‘‘اَیُّ الصَّوْمِ اَفْضَلُ بَعْدَ رَمْضَانَ؟ فَقَالَ: شَعْبَانُ لِتَعْظِیْمِ رَمْضَاَن، قِیْلَ: فَاَیُّ الصَّدَقَۃِ اَفْضَلُ ؟ قَالَ: صَدَقَۃٌ فِی رَمْضَانَ’’۔
ترجمہ: رمضان کے بعد کون سے روزے افضل ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:‘‘ شعبان کے روزے جو رمضان کی تعظیم کے لیے ہو’’، عرض کیا گیا: کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:رمضان میں صدقہ کرنا۔(سنن ترمذی، حدیث:۶۶۳)
رسول کریم ﷺکوشعبان کے روزوں سے محبت:
یوں تو نبی کریم ﷺ دوسرے مہینے میں بھی روزے رکھا کرتے تھے مگر بہ نسبت اور مہینوں کے شعبان میں زیادہ رکھتے تھے۔ حدیث شریف میں ہے:
‘‘کَانَ اَحَبَّ الشُّھُوْرِ اِلَی رَسُوْلِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ یَّصُوْمَہٗ شَعْبَانُ ثُمَّ یَصِلُہٗ بِرَمْضَانَ’’
ترجمہ: رسول کریم ﷺ کو ماہ شعبان میں روزے رکھنا تمام مہینوں سے زیادہ پسندیدہ تھا کہ اس میں روزے رکھا کرتے پھر اسے رمضان سے ملا دیتے۔(سنن ابو داؤد،حدیث:۲۴۳۱)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں :
‘‘مَارَأَیْتُ رَسُوْلَ اللہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اِسْتَکْمَلَ صِیَامَ شَھْرٍ اِلَّا رَمْضَانَ وَمَا رَأَیْتُہٗ اَکْثَرَ صِیَامًا مِّنْہُ فِیْ شَعْبَانَ’’
ترجمہ: میں نے رسول کریم ﷺ کو رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں پورے مہینہ روزہ رکھتے اور شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔
(صحیح بخاری، کتاب الصوم، باب صوم شعبان،ج:۱،ص:۲۶۴)
نبی کریم ﷺ کو شعبان کے روزے پسند ہونے کی وجہ:
اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا:
‘‘لَمْ اَرَکَ تَصُوْمُ شَھْرًا مِنَ الشُّھُوْرِ مَاتَصُوْمُ مِنْ شَعْبَانَ، قَالَ:ذٰلِکَ شَھْرٌ یَغْفُلُ النَّاسُ عَنْہُ بَیْنَ رَجَبٍ وَرَمْضَانَ وَھُوَ شَھْرٌ تُرْفَعُ فِیْہِ الْاَعْمَالُ اِلٰی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ فَاُحِبُّ اَنْ یُرْفَعَ عَمَلِی وَاَنَا صَائِمٌ’’
ترجمہ: اے اللہ کے رسول! میں نے آپ (ﷺ)کو کسی مہینے میں اتنے روزے رکھتے نہیں دیکھا جتنے آپ شعبان میں رکھتے ہیں۔ (کیا وجہ ہے؟) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ‘‘یہ وہ مہینہ ہے کہ رجب اور رمضان المبارک کے درمیان آنے کی وجہ سے لوگ اس سے غفلت کرجاتے ہیں، حالانکہ یہ وہ مہینہ ہے کہ اس میں رب العالمین کی بارگاہ میں اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل پیش ہوں تو میں روزے سے رہوں۔(سنن نسائی، حدیث: ۲۳۵۹)
سرکار دوعالم ﷺ کا یہ عمل یقینا ہم غلاموں کی تعلیم کے لیے تھا۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں اور خوب خوب نیکیوں میں اضافہ کریں۔
شب برأت:رحمتوں، برکتوں اور مغفرت کی رات
شعبان المعظم کی پندرہویں شب، شب برأت ہے۔ شب برأت بڑی بابرکت رات ہے۔ اس شب میں بے شمار رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔اللہ رب العزت دنیا والوں پر تجلی خاص فرماتا ہے اور انہیں منہ مانگی مرادیں دیتا ہے۔ اس رات کے فضائل میں کثیر احادیث کریمہ وارد ہیں ، چند سپرد قرطاس ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
‘‘اِذَا کَانَتْ لَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، فَقُوْمُوْا لَیْلَھَا، وَصُوْمُوْا یَوْمَھَا، فَاِنَّ اللہَ یَنْزِلُ فِیْھَالِغُرُوْبِ الشَّمْسِ اِلَی سَمَاءِ الدُّنْیَا، فَیَقُوْلُ: اَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِی فَاَغْفِرَلَہٗ، اَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَاَرْزُقَہٗ، اَلَا مُبْتَلیً فَاُعَافِیَہٗ، اَلَاکَذَا اَلَا کَذَا حَتّٰی یَطْلُعَ الْفَجْرُ’’
ترجمہ: جب شعبان کی پندرہویں شب ہو تو رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ رب العزت پہلے آسمان پر نزول فرمالیتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے:‘‘ہے کوئی مغفرت کا طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں؟ ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں؟ ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں ؟ یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے۔
(سنن ابن ماجہ، حدیث: ۱۳۸۸)
شب برأت کی ایک عظیم خصوصیت یہ ہے کہ اللہ رب العزت اس شب میں بے شمار لوگوں کی بخشش فرمادیتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے نبی کریم ﷺ کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ ﷺ کی تلاش میں نکلی ،میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں اور آپ سر انور کو آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے ہیں۔آپ ﷺنے(جب مجھے دیکھا تو) ارشاد فرمایا: کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول (ﷺ) تمھارے ساتھ زیادتی کریں گے؟ میں نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ! مجھے یہ خوف تو نہیں تھا لیکن مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ ﷺ کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں،تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
‘‘اِنَّ اللہَ تَعَالیٰ یَنْزِلُ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ اِلَی السَّمَاءِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لِاَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعَرِ غَنَمِ کَلْبٍ’’
ترجمہ: یقینا اللہ رب العزت (اپنی شان کے لائق) شعبان کی پندرہویں رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے، پس وہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔(سنن ابن ماجہ، حدیث:۱۳۸۹)
اسی رات میں تمام اعمال بارگاہ خداوندی پیش ہوتے ہیں ۔ آئندہ سال پیدا ہونے والے، مرنے والے کی فہرست تیار کی جاتی ہے اور لوگوں کا مقررہ رزق اتارا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
‘‘فِیْھَا اَنْ یُکْتَبَ کُلُّ مَوْلُوْدٍ مِنْ بَنِی آدَمَ فِی ھٰذِہِ السَّنَۃِ وَفِیْھَا اَنْ یُکْتَبَ کُلُّ ھَالِکٍ مِنْ بَنِی آدَمَ فِی ھٰذِہِ السَّنَۃِ وَفِیْھَا تُرْفَعُ اَعْمَالُھُمْ وَفِیْھَا تَنْزِلُ اَرْزَاقُھُمْ’’
ترجمہ: اس سال پیدا ہونے والے اور فوت ہونے والے ہر شخص کا نام اس شب میں لکھ دیا جاتا ہے۔ اسی رات میں لوگوں کے (سال بھر کے) اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی شب میں لوگوں کا مقررہ رزق اتارا جاتا ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث:۱۳۰۵)
مذکورہ احادیث مبارکہ بخوبی واضح ہوگیا کہ شب برأت ایک مقدس اور بابرکت رات ہے ۔ چاہیے کہ ہم یہ شب عبادت میں گزاریں،دن میں روزہ رکھیں، اللہ رب العزت سے اپنی نیک، جائز مرادیں مانگیں،زیارت قبور کریں، مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کریں اور ان کی جانب سے صدقہ و خیرات کریں۔ فتاویٰ رضویہ میں امام سیوطی رحمۃ تعالی علیہ کی کتاب ’’دررالحسان’’ کے حوالے سے ہے:
‘‘حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے جب عید کا دن، دسواں دن، ماہ رجب کا پہلا جمعہ، شب برأت(شعبان کی نصف) اور جمعہ کی رات آتی ہے تو اموات اپنی قبور سے نکل کر اپنے گھروں کے دروازوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں ہماری طرف سے اس رات صدقہ کرو اگر چہ روٹی کا ایک ہی لقمہ ہی دو کیونکہ ہم اس کے ضروت مند ہیں اگر وہ کچھ صدقہ نہ کرےں تو بڑے افسوس سے لوٹتے ہیں۔
(الفتاویٰ الرضویہ، ج:۱۴،ص:۶۹۸، رضافاؤنڈیشن لاہور)
شب برأت کا حلوہ:
حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
‘‘مسلمانوں میں قدیم سے یہ رواج ہے کہ شب برأت کو حلوا بناتے ہیں۔ اس میں شرعا کوئی حرج نہیں بلکہ مستحسن ہے۔ دووجہ سے ۔ اول یہ کہ یہ ایک خاص برکت والی رات ہے جو اللہ کی نعمت ہے اور اس کا فضل ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ مردوں کی روحیں شب برأت کو دروازوں پر آکر سوال کرتی ہیں ان کے ایصال ثواب کے لیے فقرا و مساکین کو حلوہ کھلانے میں زیادہ ثواب ہے کیونکہ کھانا جتنا لذیذ اور عمدہ ہوگا ثواب اتنا ہی زیادہ ملے گا۔
(نزھۃ القاری ،کتاب الصوم، ج:۳، ص:۳۸۰)
اور حضرت علامہ مفتی یارخان نعیمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
‘‘شب برأت بہت برکت والی رات ہے۔ شریعت میں اس کی بہت فضیلتیں وارد ہیں ۔ اکثر مفسرین کا قول ہے کہ آیت مبارکہ‘‘انا انزلنا ہ فی لیلۃ مبارکۃ’’ میں شب برأت ہی کا بیان ہے۔ احادیث میں اس شب کی بہت فضیلتیں وارد ہوئی ہیں اور اس شب میں عبادتوں اور نیکیوں اور استغفار کی تاکید فرمائی گئی ہے۔۔۔نیکیوں کی کثرت اور مردوں کو ثواب پہنچانا اس شب میں سنت ہے اطعام طعام بھی نیکی ہے اور طعام میں جو لذیذ تر ہو اس کا خرچ کرنا اور بہتر ۔ مسلمان حلوے کو بہت نفیس غذا سمجھ کر خرچ کرتے ہیں وہ اس کا اجر پائیں گے’’۔
(کشف الحجاب عن مسائل ایصال ثواب، ص:۲۹/۳۰، مکتبہ حامدیہ، گنج بخش روڈ لاہور)
شب برأت کی روشنی:
حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
‘‘مسلمانوں میں یہ بھی رواج ہے کہ شب برأت اور دوسری مقدس راتوں میں چراغاں کرتے ہیں ۔ یہ بھی جائز اور مستحسن ہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ اس رحمت والی رات کے ملنے پر خوشی منانے کی نشانی ہے۔ دوسرے اس رات کی عظمت کا اظہار ہے’’۔
(نزھۃ القاری ،کتاب الصوم، ج:۳، ص:۳۸۰)
نوٹ:
شب برأت سے پہلے ایک دوسرے کی خطا ضرور معاف کردیں تاکہ مغفرت الٰہی آپ کو بھی شامل ہوکیونکہ عداوت رکھنے والوں پر اللہ رب العزت نظر کرم نہیں فرماتا ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
‘‘اللہ رب العزت شعبان کی پندرہویں شب میں تجلی فرماتا ہے، استغفار کرنے والوں کو بخش دیتا ہے اور طالب رحمت پر رحم فرماتا ہے اور عداوت والوں کو جس حال پر ہیں ، اسی پر چھوڑ دیتا ہے’’۔
(شعب الایمان، باب فی الصیام، ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان، ج:۳، ص:۳۸۲، الحدیث:۳۸۳۵)
اور حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں :
‘‘جن دو شخصوں میں کوئی دنیوی عداوت ہو تو اس رات کے آنے سے پہلے انہیں چاہیے کہ ہر ایک دوسرے سے مل جائے اور ہر ایک دوسرے کی خطا معاف کردے تاکہ مغفرت الٰہی انہیں بھی شامل ہو’’۔
(بہار شریعت،ج:۱، حصہ:۵،ص:۱۰۱۱، مجلس المدینۃ العلمیۃ)
اللہ رب العزت نبی کریم ﷺ کے صدقے ہم سب کو فیضان شعبان و شب برأت سے مالا کرے۔ آمین یارب العالمین ، بجاہ سید المرسلینﷺ
mdhabibulqadri@gmail.com
+977-9812136717