تحریر: ریاض فردوسی۔9968012976
اور آسمانوں اور زمین کا غیب اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے اورتمام معاملات اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں سو آپ اسی کی عبادت کریں اوراسی پربھروسہ رکھیں اورآپ کارب اُس سے بے خبرنہیں جوتم عمل کرتے ہو(سورہ۔ھود۔آیت۔123۔پارہ۔12)
اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات ہیں جن کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کی کوئی حد اور انتہا نہیں ہے، اسی طرح اس کی صفات کی بھی کوئی حد اور انتہا نہیں۔ اس کی صفات اور کمالات نہ تو ہمارے شمار میں آ سکتے ہیں اور نہ ہی وہ صفات ہو سکتی ہیں جن کو ہم بیان کر سکیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک بے حد اور بے پایاں ہے۔مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ بھی سمیع ہے بندہ بھی سمیع ہے،اللہ تعالیٰ بھی رؤف ہے، اللہ تعالیٰ کے بندوں میں بھی رؤف ہیں،اللہ تعالیٰ بھی رحیم ہے، اور اللہ کے بندوں میں بھی رحیم ہیں،لیکن اللہ تعالیٰ کا سمیع ہونا اُس کی ذات پاک کی شان،اور اُس کی اپنی صِفات کے مُطابق ہے اور بندے کا سمیع ہونا اُس کو اللہ کے طرف سے دِی گئی صِفات کے اعتبار سے ہے۔چاہے جو علم بھی ہو، ہر علم اللہ کے بندوں کو عطائی ہے۔اللہ عزّ و جلّ کی صِفات مُبارکہ،اور معاملات کو مخلوق کی صِفات اور معاملات سے نام کی مُشابہت سے بڑھ کر کوئی اور مُشابہت دینا بے معنی ہے۔نام کی مُشابہت کی وجہ سے کیفیات کو مُشابہہ سمجھناکم علمی ہے۔اب اس کا مشاہدہ،فہم و ادراک کرنے سے ہماری عقلیں قاصر ہیں کہ اللہ نے اپنے کس بندے یابندی کو کتنا علم دیا؟ مکمل دیا کہ نہیں؟کس کوکیا کیا اور کتنا اختیار دیا؟ان بحثوں میں پڑنا فضول اور وقت کی بربادی ہے۔
اللہ کے چند صفات مندرجہ ذیل ہیں!
(میری کم علمی کے سبب میں اتنا ہی درج کر سکا اللہ مجھے معاف کرے۔آمین)
1۔وہ ان (سب چیزوں) کو جانتا ہے جو ان کے آگے ہیں اور جو ان کے پیچھے ہیں اور وہ (اپنے) علم سے اس (کے علم) کا احاطہ نہیں کر سکتے(طہ،آیت۔110)
2۔اس جیسا کوئی نہیں اور وہی سنتا دیکھتا ہے(الشوری،آیت۔11)
(اصل الفاظ ہے لَیْسَ کَمِثْلِہ شَیئٌ کوئی چیز اس کے مانند جیسی نہیں ہے۔مفسرین اور اہل لغت میں سے بعض کہتے ہیں کہ اس میں لفظ مثل پر کاف(حرف تشبیہ)کا اضافہ محاورے کے طور پر کیا گیا ہے، جس سے مقصود محض بات میں زور پیدا کرنا ہوتا ہے،اور عرب میں یہ طرز بیان رائج ہے۔مثلاً شاعر کہتا ہے وقتلیٰ کمثل جُذوع النخل۔اور ایک دوسرا شاعر کہتا ہے ما ان کمثلھم فی الناس من احد۔ بعض دوسرے حضرات کا قول یہ ہے کہ اس جیسا کوئی نہیں کہنے کے بجائے اس کے مثل جیسا کوئی نہیں کہنے میں مبالغہ ہے ، مراد یہ ہے کہ اگر بفرض محال اللہ کا کوئی مثل ہوتا تو اس جیسا بھی کوئی نہ ہوتا،کجا کہ خود اللہ جیسا کوئی ہو)
3۔نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور وہ بڑا باریک بین اور بڑا باخبر ہے(الانعام۔آیت۔103)
4۔اس کی ابتداء ہے نہ انتہاء، وہی اول اور وہی آخر ہے، وہی ظاہر اور وہی باطن ہے۔
5۔اس کے سوا جو کچھ موجود ہے سب اسی کا پیدا کیا ہوا ہے اور وہی ہر ذی روح کو موت دے کر پھر دوبارہ قیامت میں زندہ کرنے والا ہے۔
6۔وہ کسی کا محتاج نہیں، ساری دنیا اس کی محتاج ہے۔
7۔وہ جسم اور صفات جسم یعنی کھانے، پینے اور سونے وغیرہ سے پاک ہے۔
8۔ہر چیز پر اس کی قدرت ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
9۔وہی جلاتا ہے، وہی مارتا ہے، وہی بیمار کرتا ہے اور وہی شفاء دیتا ہے۔
10۔وہی عزت و ذلت دیتا ہے، وہی نفع و نقصان پہنچاتا اور رزق دیتا ہے۔
11۔اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔
12۔وہ سب کا مالک و نگہبان اور سب بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔
13۔پرستش و عبادت کی مستحق صرف اسی کی ذات ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
اللہ بہت زبردست حکمت والا ہے، یعنی سب پر غالب ہے۔ اس کا جو فیصلہ بھی کسی کے حق میں ہو، نافذ ہو کر رہتا ہے، کوئی اس سے لڑ کر جیت نہیں سکتا، نہ اس کی گرفت سے بچ سکتا ہے۔ لہٰذا اس کے فرمان سے منہ موڑ کر اگر کوئی شخص کامیابی کی توقع رکھتا ہو، اور اس کے نیک بندوں سے جھگڑا کر کے یہ امید رکھتا ہو کہ وہ اسے نیچا دکھا دے گا، تو یہ اس کی اپنی حماقت ہے۔ ایسی توقعات کبھی پوری نہیں ہو سکتیں۔
اللہ سب جاننے والا ہے۔اللہ قیاس و گمان کی بنا پر کوئی بات نہیں کرتا، بلکہ ہر چیز کا براہ راست علم رکھتا ہے،قرآن کریم کے فرمانین اندازے پر نہیں لگائے گئے ہیں،بلکہ حق وصداقت پر مبنی عظیم حقیقت ہے۔
اللہ جو ماورائے حس و ادراک ہے اور حقیقتوں کے متعلق جو معلومات فراہم کر رہا ہے، صرف وہی صحیح ہے، اور ان کو نہ ماننے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خواہ مخواہ جہالت کی گمراہی میں مبتلا رہے۔
وہ کریم رب اس بات کو خوب جانتا ہے کہ انسان کی بھلائی کس چیز میں ہے اور کون سے احکام،اصول اور قوانین اس کی بہتری کے لیے ضروری ہیں ۔ اس کی ہر تعلیم حکمت اور علم صحیح پر مبنی ہے، جس میں غلطی کا امکان نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی ہدایات کو قبول نہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خود اپنی تباہی کے راستے پر جانا چاہتا ہے۔ پھر انسانوں کی حرکات و سکنات میں سے کوئی چیز اس سے چھپی نہیں رہ سکتی، حتّیٰ کہ وہ ان نیتوں اور ارادوں تک کو جانتا ہے۔ جو انسانی افعال کے اصل محرک ہوتے ہیں ۔ اس لیے انسان کسی بہانے اس کی سزا سے بچ کر نہیں نکل سکتا۔
وہ گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے۔یہ امید اور ترغیب دلانے والی صفت ہے جو کتاب اللہ اور قرآن ناطق ﷺ کی زبان مقدسہ سے اس غرض سے بیان کی گئی ہے کہ جو لوگ اب تک سرکشی کرتے رہے ہیں وہ مایوس نہ ہوں، بلکہ یہ سمجھتے ہوئے اپنی روش پر نظر ثانی کریں کہ اگر اب بھی وہ اس روش سے باز آ جائیں تو اللہ کے دامن رحمت میں جگہ پا سکتے ہیں ۔ اس جگہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ گناہ معاف کرنا اور توبہ قبول کرنا لازماً ایک ہی چیز کے دو عنوان نہیں ہیں، بلکہ بسا اوقات توبہ کے بغیر بھی اللہ کے ہاں گناہوں کی معافی ہوتی رہتی ہے۔ مثلاً ایک شخص خطائیں بھی کرتا رہتا ہے اور نیکیاں بھی، اور اس کی نیکیاں اس کی خطاؤں کے معاف ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہیں، خواہ اسے ان خطاؤں پر توبہ و استغفار کرنے کا موقع نہ ملا ہو،بلکہ وہ انہیں بھول بھی چکا ہو ۔ اسی طرح ایک شخص پر دنیا میں جتنی بھی تکلیفیں ، مصیبتیں ،بیماریاں اور طرح طرح کی رنج و غم پہنچانے والی آفات آتی ہیں، وہ سب اس کی خطاؤں کا بدل بن جاتی ہیں ۔ اسی بنا پر گناہوں کی معافی کا ذکر توبہ قبول کرنے سے الگ کیا گیا ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ توبہ کے بغیر خطا بخشی کی یہ رعایت صرف اہل ایمان کے لیے ہے اور اہل ایمان میں بھی صرف ان کے لیے جو سرکشی و بغاوت کے ہر جذبے سے خالی ہو اور جن سے گناہوں کا صدور بشری کمزوری کی وجہ سے ہوا ہو نہ کہ استکبار اور معصیت پر اصرار کی بنا پر۔
وہ سخت سزا دینے والا ہے۔قرآن مجید میں اس صفت کا ذکر کر کے لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ بندگی کی راہ اختیار کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ جتنا رحیم ہے، بغاوت و سرکشی کا رویہ اختیار کرنے والوں کے لیے اتنا ہی سخت ہے۔ جب کوئی شخص یا گروہ ان تمام حدوں سے گزر جاتا ہے جہاں تک وہ اس کے درگزر اور اس کی خطا بخشی کا مستحق ہو سکتا ہے، تو پھر وہ اس کی سزا کا مستحق بنتا ہے، اور اس کی سزا ایسی ہولناک ہے کہ صرف ایک احمق انسان ہی اس کو قابل برداشت سمجھ سکتا ہے۔ ہمارا رب صاحب ضل ہے، یعنی کشادہ دست، غنی اور فیاض ہے۔ تمام مخلوقات پر اس کی نعمتوں اور اس کے احسانات کی ہمہ گیر بارش ہر آن ہو رہی ہے۔ بندوں کو جو کچھ بھی مل رہا ہے اسی کے فضل و کرم سے مل رہا ہے۔ قرآن پاک میں دو حقیقتیں واشگاف طریقہ سے بیان کر دی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ معبود فی الحقیقت اس کے سوا کوئی نہیں ہے، خواہ لوگوں نے کتنے ہی دوسرے جھوٹے معبود بنا رکھے ہوں ۔ دوسری یہ کہ جانا سب کو آخر کار اسی کی طرف ہے۔ کوئی دوسرا معبود لوگوں کے اعمال کا حساب لینے والا اور ان کی جزا و سزا کا فیصلہ کرنے والا نہیں ہے۔ لہٰذا اس کو چھوڑ کر اگر کوئی دوسروں کو معبود بنائے گا تو اپنی اس حماقت کا خمیازہ خود بھگتے گا۔معرکۂ حق و باطل میں دونوں فریق جو کچھ کر رہے ہیں، وہ سب اللہ کو معلوم ہے۔ اللہ بزرگ و برتر کی حکومت اندھیر نگر ی چوپٹ راجہ کی نہیں ہے کہ اس میں خواہ کچھ ہی ہوتا رہے، حاکم کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔اللہ کے یہاں حکمت اور بردباری کی بنا پر دیر تو ضرور ہے مگر اندھیر نہیں ہے۔ جو لوگ اصلاح کی کوشش کر رہے، وہ یقین رکھیں کہ ان کی محنتیں ضائع نہ ہونگی اور وہ لوگ بھی جو فساد کرنے اور اسے برپا رکھنے میں لگے ہوئے ہیں، جو اصلاح کی سعی کرنے والوں پر ظلم وستم توڑرہے ہیں، اور جنہوں نے اپنا سارا زور اس کوشش میں لگا رکھا ہے کہ اصلاح کا یہ کام کسی طرح چل نہ سکے، انہیں بھی خبردار رہنا چاہیے کہ ان کے یہ سارے کرتوت اللہ کے علم میں ہیں اور ان کی پاداش انہیں سزاضرور بھگتنی پڑے گی۔امام شافعی رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا: ڈٹ جانا، آزمائش میں پڑنا اور اقتدار حاصل کرنے کی کوشش میں سے کون سی چیز زیادہ افضل ہے؟ امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا: اقتدار مل جانا انبیاء کرام کا درجہ ہے، اور اقتدار ہمیشہ آزمائش کے بعد ہی ملتا ہے، چنانچہ جب آزمائش آتی ہے تو صبر بھی کرنا پڑتا ہے، لہذا جب انسان صبر کرے گا تو اقتدار بھی مل جائے گا۔