نتیجہ فکر: فیصل قادری گنوری
ہر شے کو ملا نور ترا رحمتِ عالم
اے ختمِ رُسُل ، نورِ خدا ، رحمتِ عالم
ہر سمت ہے ظلمت کی گھٹا رحمتِ عالم
کب آئے گی طیبہ کی ہوا رحمتِ عالم
للہ مدد کیجے پریشان ہے اُمّت
پھیلی ہے زمانے میں وبا رحمتِ عالم
وَالشَّمْسِ ترا رُخ ہے تو وَالنَّجْمِ ہیں دنداں
وَاللَّيْل تری زلفِ دُتا رحمتِ عالم
رحمت نے اُسے لے لیا آغوش میں اپنی
جس شخص نے دی ہے یہ صدا رحمتِ عالم
مجدھار میں کشتی ہے کنارا ہے بہت دور
ہو چشمِ کرم سوئے گدا رحمتِ عالم
ہے آپ کی نسبت کا ہر اک گام سہارا
فیصل کو نہیں خوف ذرا رحمتِ عالم