ازقلم: طفیل احمد مصباحی
حضور نبی کریم ﷺ کا وجودِ مسعود سراپا معجزہ ہے ۔ قرآنی اعجاز اور جوامع الکلم کا معجزہ اس پر مستزاد ہے ۔ آپ ﷺ نہایت فصیح و بلیغ گفتگو فرمایا کرتے تھے ۔ آپ کا اعجازِ تکلم مسلّم ہے ۔ بڑے بڑے فصحا اور بُلغا آپ کے معجزانہ کلام کو دیکھ کر رشک کیا کرتے تھے اور ورطۂ حیرت میں ڈوب جایا کرتے تھے ۔ آپ کی گفتگو میں جو ” جوامع الکلم ” کا اعجاز و عنصر شامل ہے ٬ یہ آپ کی اسی بے مثال فصاحت و بلاغت کا نتیجہ و ثمرہ ہے ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اعجازِ تکلم پر روشنی ڈالتے ہوئے قرآن کریم اعلان کرتا ہے : وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحىٰ . ( اور وہ کوئی بات خواہش سے نہیں کہتے ٬ وہ وحی ہوتی ہے جو انہیں کی جاتی ہے ) حضور نبی کریم ﷺ کی ہر بات اور ہر گفتگو وحیِ الہٰی ہوا کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے اقوال و ارشادات میں غایت درجہ فصاحت و بلاغت ٬ حلاوت و لطافت اور وسعت و جامعیت پائی جاتی ہے ۔ اربابِ سِیر نے آپ کی بے مثال طرزِ تکلم ٬ معجزانہ اسلوبِ کلام اور پیغمبرانہ اندازِ گفتگو پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے ۔ شاہ عبد الحق محدث دہلوی ” مدارج النبوۃ ” میں لکھتے ہیں :
حضور اکرم ﷺ کی زبانِ مبارک کی فصاحت ، جوامع الکلم ٬ انوکھا اظہارِ بیان اور عجیب و غریب حکم و فیصلے اتنے زیادہ ہیں کہ شاید ہی کوئی فکر و اندیشہ کا محاسب اس کے حصر و احاطہ کے گرد پھر سکے ۔ آپ ﷺ کے اوصاف کا بیان زبان کے ساتھ ممکن ہی نہیں ہے ۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ سے زیادہ فصیح اللسان و شیریں بیان دوسرا پیدا ہی نہ فرمایا ۔ ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! نہ تو آپ کہیں باہر تشریف لے گئے اور نہ آپ نے لوگوں میں نشست و برخاست رکھی ٬ پھر آپ ایسی فصاحت کہاں سے لے آئے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : حضرت اسماعیل علیہ السلام کی لغت اور اصطلاح جو نا پید اور فنا ہو چکی تھی ٬ اسے میرے پاس جبرئیل علیہ السلام لے کر آئے جسے میں نے یاد کر لیا ہے ۔ نیز آپ نے فرمایا : ادَّبَنی رَبِّی فَأَحْسَنَ تَادِيْبی . میرے رب نے مجھے ادب سکھایا تو میرے ادب کو بہت اچھا کر دیا ۔ عربیت کا وہ علم جو زبان عرب اور اس کی فصاحت و بلاغت سے تعلق رکھتا ہے ٬ اسے ادب کہتے ہیں ۔ نیز آپ ﷺ نے فرمایا : میری نشو و نما قبیلۂ بن سعد بن بکر میں ہوئی ہے ۔ یہ آپ کی دائی حلیہ سعدیہ کا قبلہ ہے ۔ بنی سعد کے لوگ پورے عرب میں سب سے زیادہ فصیح اللسان تھے اور یہ جو منقول ہے کہ آپ نے فرمایا : میں ضاد کو اس کے مخرج سے ادا کرنے میں اس سے زیادہ فصیح ہوں جو ضاد کو ادا کرتا ہے ۔ اگر چہ اس حدیث کی صحت میں بعض محدثین اپنی مقرر کردہ اصطلاح کے تحت کلام کرتے ہیں ٬ لیکن اس کے معنی صحیح ہیں ۔ حاصل کلام طرف راجع ہے کہ آپ نے فرمایا : میں تمام عرب میں افصح ہوں ٬ کیونکہ حرف ضاد عرب کے ساتھ ہی مخصوص ہے ۔ دنیا کی کسی دوسری زبان میں یہ حرف نہیں ہے اور حضور اکرم ﷺ کے سوا اہل عرب میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جو اس حرف کو کما حقہ ادا کر سکے …….. حضور اکرم ﷺ خوب واضح اور مفصّل کلام کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے ٬ یہاں تک کہ جدا جدا ان کلمات کو گنا جا سکتا تھا ۔
( مدارج النبوۃ مترجم ٬ جلد اول ٬ ص : ۲۳ ٬ ناشر : شبیّر برادرز ٬ لاہور )
حضرت امام قاضی عیاض علیہ الرحمہ آپ کی فصاحتِ زبان اور بلاغتِ بیان پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
و أما فصاحة اللسان و بلاغة القول ، فقد كان من ذلك بالمحل الأفضل و الموضع الذی لا يُجھل ، سلاسة طبع و بَرَاعَةَ مَنْزَع و إيجاز مَقْطَع و نَصَاعَةَ لَفْظ و جزالة قول و صحَّةَ مَعَانٍ و قلَّةَ تَكلُّف ، أُوتیَ جوامع الكلم و خُص ببدائع الحكم و عُلم ألسنة العرب ، يخاطب كل أمة منھا بلسانها و يُحاورها بلغتھا و يباريھا فی منزع بلاغتھا ، حتى كان كثير من أصحابه يسألونه فی غير مَوْطِن ، عن شرح كلامه و تفسير قوله …… و أما كلامه المعتاد و فصاحته المعلومة و جوامع كَلِمه و حِكَمهُ المأثورة فقد ألف الناس فيھا الدواوين و جمعت فی ألفاظھا و معانيھا الكتب و منھا ما لا يُوَازَى فصاحة و لا يُبَارَى بلاغة ٬ کقولہ : الناس تتکافأ دمائھم ٬ الناس كأسنان المشط ٬ و المَرْءُ مع مَنْ أَحَبَّ ٬ و قوله : ذو الوَجْهَيْن لا يكون عند الله وَجِيھاً . ونھيه عن قيل و قال و كثرة السؤال ، و إضاعة المال و مَنْعِ وهات و عقوق الأمھات ، و وأد البنات . و قوله : اتَّقِ اللهَ حيثما كنت ، و أتبع السيئة الحسنة تمحھا و خالق الناس بخُلق حَسَن . و خَيْرُ الأمور أوساطھا .
یعنی حضور نبی کریم ﷺ کی فصاحتِ زبان اور بلاغتِ کلام کا یہ حال تھا کہ آپ اس وصف میں اعلیٰ مقام پر فائز تھے ۔ آپ کی طبیعت میں سلاست و روانی پائی جاتی تھی ۔ آپ لطیف البیانی میں بڑھے ہوئے تھے ۔ مختصر کلامی میں کامل و اکمل تھے ۔ آپ کے الفاظ صاف ٬ کلام قوی اور معانی صحیح و بلیغ ہوتے تھے ۔ آپ کی گفتگو میں تکلف و تصنع نہ ہوتا تھا ۔ آپ کو جوامع الکلم کا معجزہ بخشا گیا تھا اور آپ حکمت کے عجائبات سے خاص کیے گئے تھے ۔ عرب کی زبان کا آپ کو پورا علم تھا ۔ ہر ایک قبیلہ سے آپ ان کی زبان میں گفتگو فرمایا کرتے تھے ٬ یہاں تک کہ اکثر مقام پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آپ سے آپ کے کلام کی شرح پوچھا کرتے تھے …… آپ ﷺ کا کلامِ معتاد ٬ آپ کی فصاحت معلومہ ٬ آپ کے کلمات جامعہ اور آپ کی حکمتِ منقولہ تو وہ ہیں کہ جن سے لوگوں نے اپنے دیوان لکھے ہیں اور ان کے الفاظ و معانی میں کتابوں میں جمع کی ہیں ۔ جوامع الکلم میں سے بعض تو ایسے ہیں کہ ان کی فصاحت و بلاغت کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ۔ جیسا کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے : تمام مسلمانوں کے خون برابر ہیں ۔ لوگ کنگھی کے دندانوں کی طرح ہیں ۔ لوگ اس کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے ۔ ذو الوَجْھيْن ( دوغلہ ) اللہ کے نزدیک وجیہ ( صاحبِ مرتبہ ) نہیں ہو سکتا ۔ اسی طرح آپ ﷺ کا وہ کلام بھی جوامع الکلم میں سے ہے جو آپ نے فضول گفتگو ٬ کثرتِ سوال ٬ والدین کی نافرمانی اور نو مولود بچی کو زندہ در گور کرنے کی ممانعت سے متعلق فرمایا ہے ۔ اسی طرح آپ کا قول : جہاں کہیں رہو ٬ اللہ سے ڈرتے رہو ٬ برائی کے بعد نیکی کر لو ٬ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ اور سب سے بہتر کام بیچ والا ہے ( حضور علیہ السلام کے یہ سارے اقوال جوامع الکلم کے زمرے میں آتے ہیں )
( الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ ٬ ص : ۱۱۵ ٬ ۱۱۶ ۱۲۰ ٬ مطبوعہ : جائزۃ دُبیّ الدولیۃ للقرآن الکریم ٬ دبئی )
حضور علیہ السلام کے کلام کی تین بنیادی خصوصیت :
کسی کلام کے تین حصے ہوتے ہیں : آغاز ٬ نفسِ مضمون ٬ اختتام یا خاتمہ ۔ قاری و سامع کے ذہن و دماغ پر کلام کے مؤثر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا آغاز مؤثر پیرایہ میں ہو اور اس کا انداز و اسلوب سحر انگیز ہو ۔ اسی کو ” فواتح الکلام ” یعنی آغازِ کلام کہتے ہیں ۔ نیز کلام کی سحر انگیزی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اندر وسعت و جامعیت ٬ معنی آفرینی اور ہمہ گیری ہو ۔ اس کو ” جوامع الکلام ” کہتے ہیں ۔ نیز کلام کا اختتام بھی زور دار انداز اور فکر انگیز اسلوب میں ہونا چاہیے ٬ تاکہ سامع و قاری کا ذہن اس کی طرف ہمہ تن راغب و مشغول ہو سکے ٬ اس کو ” خواتم الكلام ” کہتے ہیں ٬ جس میں حسنِ وقف اور رعایتِ فصل سے کام لیا جاتا ہے ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے کلامِ بلاغت نظام میں کلام کی یہ تینوں خصوصیات پائی جاتی ہیں ٬ جیسا کہ جامع الصغیر میں چنانچہ امام سیوطی روایت نقل کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : اعطیت فواتح الکلام و جوامعہ و خواتمہ . یعنی مجھے کلام کے آغاز و اختتام کا حسن اور کلام کی وسعت و جامعیت عطا کی گئی ۔ امام مناوی اس کے تحت لکھتے ہیں :
( أعطیت فواتح الکلام ) أی البلاغة و الفصاحة و التوصل إلى غوامض المعانی و بدائع الحكم و محاسن العبارات التی أغلقت على غيره و فی رواية : مفاتح الكلم . قال الكرمانی : أی لفظ قليل يفيد معنى كثيراً و هذا معنى البلاغة ( و جوامعه ) التی جمعھا الله فيه فكان كلامه جامعاً كالقرآن فی كونه جامعاً فإنه خلقه ( و خواتمه ) أی خواتم الكلام يعنی حسن الوقف و رعاية الفواصل ؛ فكان يبدأ كلامه بأعذب لفظ و أجزله و أفصحه و أوضحه و يختمه بما يشوق السامع إلا الإقبال على الاستماع مثله و الحرص عليه .
ترجمہ : مجھے فواتحِ کلام عطا کیا گیا یعنی مجھے فصاحت و بلاغت ٬ معانی کی گہرائیوں ٬ عجیب و غریب حکمتوں اور الفاظ و عبارات کے محاسن تک رسائی کا اعجاز بخشا گیا ہے جس کا دروازہ دوسروں پر بند تھے ۔ ایک روایت میں ” اعطیت فواتح الکلام ” کے بجائے ” اعطیت مفاتح الکلام ” کے الفاظ آئے ہیں ۔ شیخ کرمانی کہتے ہیں : اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے ایسے کلام کا اعجاز ( معجزہ ) بخشا گیا ہے ٬ جس کے الفاظ قلیل اور معانی کثیر ہوں اور اسی چیز کو بلاغت کہتے ہیں ۔ ( و جوامعہ ) اور مجھے جوامع الکلام بخشا گیا ہے یعنی حضور نبی کریم ﷺ کا کلام قرآن کی طرح جامع ہوا کرتے ہیں ۔ ( و خواتمہ ) اور مجھے خواتم الكلام کا اعجاز بخشا گیا ہے اور اس سے مراد حسنِ وقف اور رعایتِ فصل ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ اپنے کلام کا آغاز شیریں ٬ فصیح و بلیغ اور واضح ترین الفاظ سے کیا کرتے تھے اور کلام کا اختتام ایسے الفاظ و عبارات سے کیا کرتے جو سامع کے شوق کو اپنی طرف متوجہ کرتا اور اس کے سننے کی طرف طبیعت مائل ہوتی ۔
( فیض القدیر شرح الجامع الصغير ٬ جلد اول ٬ ص : ۷۲۱ – ۷۲۲ ٬ مطبوعہ : دار الکتب العلمیۃ ٬ بیروت )
قرآن اور جوامع الکلم کا اعجاز :
اللہ رب العزت نے اپنے حبیب جناب محمد مصطفیٰ روحی فداہ ﷺ کو قرآن کریم اور جوامع الکلم کا عظیم الشان معجزہ عطا فرمایا ہے ٬ جو رہتی دنیا تک قائم و باقی رہے گا ۔ حضور علیہ السلام کا فرمان ” اعطیت جوامع الکلم ” سے محدثین نے قرآن اور حدیث ( یعنی وہ حدیث جس کے الفاظ قلیل اور معانی کثیر ہیں ) دونوں مراد لیا ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ دونوں معجزہ من جانب اللہ عطا ہوا ہے جو آپ کے فضائل و محاسن کا نہایت روشن پہلو ہے ۔ قرآن کریم اللہ رب العزت کی وہ لا زوال اور بے مثال کتاب ہے ٬ جو علوم و معارف اور حقائق و حِکم کا گنجینہ ہے ۔ اس کا لفظ لفظ اور حرف حرف اپنے اندر ہدایت و سعادت اور اعجاز کا خزانہ رکھتا ہے ۔ یہ رہتی دنیا تک تمام بنی نوعِ انساں کے لیے ہدایت و رہبری اور کامیابی و سرفرازی کا ایک نسخۂ کیمیا ہے ۔ اس کے الفاظ میں جادو ٬ اس کے کلمات و فقرات میں جاذبیت ٬ اس کے لہجوں میں شیرینی ٬ اسلوب میں حلاوت اور اس کے معانی میں وہ وسعت و گہرائی ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ قرآن کے فضائل اور اس کے لفظی اور معنوی محاسن پر بیشمار نصوص وارد ہوئی ہیں ۔ تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے یہاں صرف ایک حدیث پیش کی جاتی ہے ٬ جس سے قرآن کی عظمت روزِ روشن کی طرح نمایاں ہے ۔
عَنِ الْحَارِثِ الاعور قَالَ : مَرَرْتُ فِی الْمَسْجِدِ فَإِذَا النَّاسُ يَخُوضُونَ فِی الْأَحَادِيثِ ، فَدَخَلْتُ عَلَى عَلِی فَقُلْتُ : يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ، أَلَا تَرَى أَنَّ النَّاسَ قَدْ خَاضُوا فِی الْأَحَادِيثِ ، قَالَ : وَ قَدْ فَعَلُوهَا ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : أَمَا إِنِّي قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَقُولُ : أَلَا إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ ، فَقُلْتُ : مَا الْمَخْرَجُ مِنْهَا يَا رَسُولَ اللہ ؟ قَالَ : كِتَابُ اللہ فِيهِ نَبَأُ مَا كَانَ قَبْلَكُمْ ، وَ خَبَرُ مَا بَعْدَكُمْ وَ حُكْمُ مَا بَيْنَكُمْ ، وَ هُوَ الْفَصْلُ لَيْسَ بِالْهَزْلِ ، مَنْ تَرَكَهُ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَهُ اللہ ، وَ مَنِ ابْتَغَى الْهُدَى فِی غَيْرِهِ أَضَلَّهُ اللہ ، وَ هُوَ حَبْلُ اللہ الْمَتِينُ ، وَ هُوَ الذِّكْرُ الْحَكِيمُ وَ هُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ ، هُوَ الَّذِي لَا تَزِيغُ بِهِ الْأَهْوَاءُ وَ لَا تَلْتَبِسُ بِهِ الْأَلْسِنَةُ ، وَ لَا يَشْبَعُ مِنْهُ الْعُلَمَاءُ وَ لَا يَخْلَقُ عَلَى كَثْرَةِ الرَّدِّ وَ لَا تَنْقَضِي عَجَائِبُهُ ٬ هُوَ الَّذِی لَمْ تَنْتَهِ الْجِنُّ إِذْ سَمِعَتْهُ حَتَّى قَالُوا: إِنَّا سَمِعْنَا قُرْءَانًا عَجَبًا يَهْدِی إِلَى الرُّشْدِ فآمنا بہ ٬ مَنْ قَالَ بِهِ صَدَقَ ، وَ مَنْ عَمِلَ بِهِ أُجِرَ ، وَ مَنْ حَكَمَ بِهِ عَدَلَ ، وَ مَنْ دَعَا إِلَيْهِ هَدَى إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ . خُذْهَا إِلَيْكَ يَا أَعْوَرُ .
ترجمہ : حضرت حارث اعور کہتے ہیں کہ میں مسجد گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ گپ شپ اور قصہ کہانیوں میں مشغول ہیں ۔ میں حضرت علی رضی الله عنہ کے پاس پہنچا اور کہا : امیر المؤمنین ! کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ لوگ لا یعنی باتوں میں پڑے ہوئے ہیں ؟ انہوں نے کہا : کیا واقعی وہ ایسا کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا : ہاں ! آپ نے فرمایا : مگر میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب کوئی فتنہ برپا ہو گا ۔ میں نے کہا : اس فتنہ سے بچنے کی صورت کیا ہو گی ؟ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : کتاب اللہ ( یعنی قرآن کریم ) اس میں تم سے پہلے کے لوگوں کی خبریں ہیں اور بعد کے لوگوں کی بھی خبریں ہیں اور تمہارے درمیان کے امور و معاملات کا حکم و فیصلہ بھی اس میں موجود ہے اور وہ دو ٹوک فیصلہ کرنے والی کتاب ہے ، ہنسی مذاق کی چیز نہیں ہے ۔ جس نے اسے سرکشی سے چھوڑ دیا ٬ اللہ اسے توڑ دے گا اور جو اسے چھوڑ کر کہیں اور ہدایت تلاش کرے گا ٬ اللہ اسے گمراہ کر دے گا ۔ وہ ( قرآن ) اللہ کی مضبوط رسّی ہے ٬ وہ حکمت بھرا ذکر ہے ، وہ سیدھا راستہ ہے ، یہ وہ کتاب ہے جس کی وجہ سے خواہشیں ادھر ادھر نہیں بھٹک پاتی ہیں ، جس کی وجہ سے زبانیں نہیں لڑکھڑاتیں اور علما کو اس سے آسودگی نہیں ہوتی ۔ باربار پڑھنے اور تکرار سے بھی وہ پرانا ( اور بے مزہ ) نہیں ہوتا اور اس کے عجائب ( انوکھی باتیں ) ختم نہیں ہوتے اور قرآن وہ ہے جسے سن کر جن خاموش نہ رہ سکے بلکہ پکار اٹھے : ہم نے ایک عجیب ( انوکھا ) قرآن سنا ہے جو بھلائی کا راستہ دکھاتا ہے ، تو ہم اس پر ایمان لے آئے ، تو جو قرآن کے مطابق بولے گا اور اس کے مطابق عمل کرے گا ٬ اسے اجر و ثواب دیا جائے گا اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا ٬ اس نے انصاف کیا اور جس نے اس کی طرف بلایا ٬ اس نے سیدھے راستے کی ہدایت دی ۔ اے اعور ! ان باتوں کا خیال رکھو ۔
( سنن الترمذی ٬ کتاب فضائل القرآن ٬ ص : 675 ٬ رقم الحدیث : 2906 ٬ مطبوعہ : دار الکتب العلمیۃ ٬ بیروت )
قرآن کریم سراپا معجزہ ہے اور اس کا ایک معجزانہ پہلو یہ ہے کہ اس میں علومِ اولین و آخرین اور ہر چھوٹی بڑی خشک و تر کا واضح بیان موجود ہے ٬ جیسا کہ اللہ عز و جل کا قول ہے : وَ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ . ( اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی جس میں ہر چیز کا واضح بیان ہے ) لفظ ” شے ” کا اِطلاق کائنات کے ہر وُجود پر ہوتا ہے ، خواہ وہ مادّی ہو یا غیر مادّی ۔ جو چیز بھی ربِ ذُوالجلال کی تخلیق ہے ٬ وہ ” شے ” کہلاتی ہے ، لہٰذا ہر چیز کا تفصیلی بیان قرآن میں موجود ہے ۔ ایک اور مقام پر اِرشاد ہوتا ہے : مَا فَرَّطْنَا فِی الكِتَابِ مِن شَيْءٍ . یعنی ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی ۔ چونکہ جمیع علوم و فنون قرآنِ کریم میں موجود ہیں ٬ اِس لیے اِس حقیقت کو اِس انداز سے بیان کیا گیا ہے : وَ لاَ رَطْبٍ وَ لاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِی كِتَابٍ مُّبِينٍ . یعنی ہر خشک اور تر چیز کا ذکر روشن کتاب ( قرآن ) میں موجود ہے ۔ اِس آیتِ کریمہ میں دو لفظ ” رَطْب ” اور ” یَابِس ” اِستعمال ہوئے ہیں ۔ رطب کا معنی تر ہے اور یابس کا معنیٰ خشک ہے ۔ یہ آیت قرآنی اِیجاز اور فصاحت و بلاغت کی روشن دلیل ہے ٬ کیونکہ کائناتِ ارض و سماء کا کوئی وُجود اور کوئی ذرّہ ایسا نہیں جو خشکی اور تری کی دونوں حالتوں سے خارِج ہو ۔ عالمِ پست و بالا کی جس شے کا بھی تصوّر کر لیجیے وہ یا تو خشک ہوگی یا تر یا دونوں حالتوں کا مرکب ہو گی ۔ قرآن نے صرف دو لفظ ” وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ ” اِستعمال کر کے کائنات کے ایک ایک ذرّے کا بیان کر دیا کہ اُس کا علم قرآن میں موجود ہے ۔ قرآن کی اسی جامعیت کے پیشِ نظر حبر الامۃ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں : لو ضاع لی عقالُ بعيرٍ لوجدتُه فی کتابِ الله . اگر میرے اُونٹ کی رسی بھی گم ہو جائے تو میں اسے قرآن میں تلاش کر لوں گا ۔ اللہ اکبر ! یہ ہے قرآنی علوم و معارف کی وسعت و جامعیت ! خاتم المحدثین امام جلال الدین سیوطی نے ” الاتقان فی علوم القرآن ” میں قرآن سے مستنبط ہونے والے علوم و فنون پر تفصیلی گفتگو فرمائی ہے اور قرآن کے مخزنِ علوم و معارف ہونے پر اکابر ائمہ و محدثین کے اقوال نقل کیے ہیں ۔ چند اقوال آپ بھی ملاحظہ فرمائیں ٬ تاکہ قرآنی اعجاز کا تھوڑا بہت انداز ہو سکے ۔
عن ابن مسعود قال : من أراد العلم فعليه بالقرآن ، فإن فيه خبر الأولين و الآخرين . قال البيهقی : يعنی أصول العلم . و أخرج البيهقی عن الحسن قال : أنزل الله مئة و أربعة كتب ، أودع علومھا أربعة منها : التوراة و الإنجيل و الزبور والفرقان ، ثم أودع علوم الثلاثة الفرقان ( یعنی القرآن ) و قال الإمام الشافعی : جميع ما تقوله الأمة شرح للسنة و جميع السنة شرح للقرآن . و قال أيضاً : جميع ما حكم به النبی ﷺ ، فهو مما فھمه من القرآن . قلت : و يؤيد هذا قوله : إني لا أُحِلُّ إلا ما أحل الله و لا أحرم إلا ما حرم الله في كتابه ، أخرجه بهذا اللفظ الشافعی فی « الأم » . و قال سعيد بن جبير : ما بلغنی حديث عن رسول الله ﷺ على وجھه إلا وجدت مصداقه فی كتاب الله عز و جل ……. وقال القاضی أبو بكر بن العربی فی ” قانون التأويل ” : علوم القرآن خمسون علماً و أربع مئة علم و سبعة آلاف علم و سبعون ألف علم ٬ على عدد كلم القرآن ، مضروبة فی أربعة ، إذ لكل كلمة ظھر و بطن و حد و مطلع .
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جو شخص علم حاصل کرنا چاہے اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن کو مضبوطی سے پکڑ لے ٬ کیونکہ قرآن میں اوّل سے آخر تک سارا علم موجود ہے یعنی اس میں سارے علوم کی اصل موجود ہے ۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ایک سو چار کتابیں نازل فرمائیں ، جن میں کائنات کے تمام علوم و معارف بیان کر دیے ٬ پھر اُن تمام علوم کو چار کتابوں تورات ، زبور ، انجیل اور قرآن میں جمع کر دیا ۔ پھر اُن میں سے پہلی تین کتابوں کے تمام علوم و معارف کو قرآنِ حکیم میں جمع فرمایا ۔ حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ علمائے ملت ( مجتہدینِ امت ) کے جملہ اقوال حدیث و سنت کی شرح ہیں اور پورا ذخیرۂ حدیث قرآن کی شرح ہے ۔ نیز امام شافعی نے فرمایا : حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام چیزوں کا حکم قرآن کو سمجھنے کے بعد ہی دیا ہے ( یعنی حضور علیہ السلام کے جملہ اقوال و ارشادات قرآن سے ماخوذ ہیں ) اور اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے : میں اسی چیز کو حلال کرتا ہوں جسے اللہ نے حلال فرمایا ہے اور اسی چیز کو حرام قرار دیتا ہوں جسے اللہ عز و جل نے اپنی کتاب قرآن میں حرام قرار دیا ہے ۔ اس روایت کو امام شافعی نے ” کتاب الام ” میں نقل فرمایا ہے ۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضور نبی کریم ﷺ کی جو حدیث بھی مجھ تک پہنچی ہے ٬ میں نے اس کی اصل اور اس کا مصداق قرآن میں موجود پایا ہے ۔ قاضی ابو بکر بن عربی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ” قانون التاوِیل ” میں بیان کرتے ہیں کہ قرآن کے کل کلمات کے لحاظ سے قرآنی علوم کی تعداد ستہتّر ہزار ٬ چار سو پچاس 77450 ہے ۔ پھر اس مجموعی تعداد کو چار سے ضرب دیا جائے ٬ کیوں کہ قرآن کے ہر لفظ کا ایک ظاہر ہے اور باطن ہے ٬ اس کا ایک آغاز ہے اور اس کا ایک اختتام ہے ( تو اس لحاظ سے قرآنی علوم کی تعداد تین لاکھ نوّے ہزار آٹھ سو ( 309800 ) بنتی ہے ۔
( الاتقان فی علوم القرآن ٬ ص : ۶۶۱ – ۶۶۷ ٬ مطبوعہ : مؤسّسۃ الرسالۃ ناشرون ٬ بیروت )
حضرت سیدنا علی خواص رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
إِنَّ اللہ تَعَالَى اِطَّلَعَنی عَلَى مَعَانِی سُورَةِ الْفَاتِحَةِ فَظھرَ لِی مِنْهَا مِائَةَ أَلْفِ عِلْمٍ وَ ارْبَعُونَ الْفِ عِلْمٍ وَ تِسْعَ مِائَةٍ وَ تِسْعُونَ عِلْمًا .
بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے سورۂ فاتحہ کے معانی پر آگاہ فرمایا تو ان میں سے ایک لاکھ چالیس ہزار نو سو ننانوے علوم مجھ پر منکشف ہوئے ۔ اسی طرح امام شعرانی علیہ الرحمہ اپنی کتاب میزان میں تحریر فرماتے ہیں :
قَدِ اسْتَخْرَجَ أَخِی أَفْضَلُ الدِّيْنِ مِنْ سُورَةِ الْفَاتِحَةِ مَأتَى الْفِ عِلْمٍ وَ سَبْعَةً وَ أَرْبَعِينَ الْفِ عِلْمٍ وَ تِسْعَ مِائَةٍ وَ تِسْعَةً وَ تِسْعُونَ عِلْمًا . میرے بھائی افضل الدین نے سورۂ فاتحہ سے دو لاکھ سینتالیس ہزار نو سو ننانوے علوم نکالے ہیں ۔
ان روایتوں سے اچھی طرح واضح ہوتا ہے کہ قرآن مجید اگرچہ ظاہر میں تیس پاروں کا مجموعہ ہے ٬ لیکن اس کا باطن کروڑوں بلکہ اربوں علوم و معارف کا ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا ۔ کسی عارف باللہ کا مشہور شعر ہے کہ :
جَمِيعُ الْعِلْمِ فِی الْقُرْآنِ لَكِنْ
تَقَاصَرَ عَنْهُ أَفْھامُ الرِّجَالِ
یعنی تمام علوم قرآن میں موجود ہیں ٬ لیکن لوگوں کی عقلیں ان کے سمجھنے سے قاصر و کوتاہ ہیں ۔ الحاصل قرآن مجید میں صرف علوم و معارف ہی کا بیان نہیں ٬ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں پوری کائنات اور سارے عالم کی ہر ہر چیز کا واضح اور روشن تفصیلی بیان موجود ہے ۔
( غرائب القرآن ٬ ص : ۴۱۰ ٬ ناشر : مکتبۃ المدینہ دعوت اسلامی ٬ کراچی )
جَوامِعُ الکَلِمْ کیا ہیں :
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے جو فضائل و کمالات اور خصوصی اِمتیازات عطا ہوئے ٬ ان کو آپ ﷺ کے خصائص مبارکہ کہا جاتا ہے ۔ امام ابو نعیم اصفہانی کی ” دلائل النبوۃ اور امام جلال الدین سیوطی کی کتاب ” الخصائص الکبریٰ ” آپ کے انہیں اوصاف و خصوصیات کو اجاگر کرتی ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ کے خصائص میں ایک قابلِ ذکر خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ مختصر اور جامع کلمات میں حکمت و معانی کا سمندر سمو دیا کرتے تھے ۔ آپ کی پیغمبرانہ گفتگو ” خیر الکلام ما قلّ و دلّ ” کا نمونہ ہوتی اور آپ کے کلام میں وسعت و جامعیت علی وجہ الکمال پائی جاتی ۔ کم سے کم الفاظ میں وسیع معانی و مفاہیم بیان کرنے پر آپ زبردست قدرت رکھتے تھے اور یہ وصف و خصوصیت آپ کو بطورِ معجزہ عطا ہوئی تھی ۔ آپ کو عطا کیا جانے والا سب سے بڑا معجزہ قرآنِ کریم ہے ۔ آپ کے اخلاقِ حسنہ سراپا قرآن ہیں ٬ جیسا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول : کان خُلقہ القرآن . اس پر شاہد ہے ۔ جس ذاتِ گرامی کا مبارک وجود ٬ ان کے اقوال و افعال اور اخلاق و کردار قرآن کے سانچے میں ڈھلے ہوں ٬ بھلا یہ کیوں کر ممکن ہے کہ ان کے اقوال و ارشادات میں معجزانہ پہلو شامل نہ ہو ۔ جوامع الکلم آپ کی وہ نمایاں خصوصیت ہے جس میں آپ منفرد و ممتاز ہیں ۔ اپنے اسی پیغمبرانہ اعجاز و خصوصیت کا اظہار کرتے ہوئے آپ نے خود ارشاد فرمایا کہ مجھے بارگاہِ الہٰی سے ” جوامع الکلم ” خصوصی طور پر عطا کیے گئے ہیں ۔ جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث ہے :
عن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : فضلت على الانبياء بست ، اعطيت جوامع الكلم و نصرت بالرعب و احلت لی الغنائم و جعلت لی الارض طهورا و مسجدا و ارسلت إلى الخلق كافة و ختم بی النبيون .
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : مجھے دوسرے انبیاء پر چھ چیزوں کی بدولت فضیلت دی گئی ہے ۔ مجھے جوامع الكلم یعنی جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں ۔ ( دشمنوں پر ) رعب و دبدبے کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے ۔ میرے لیے اموال غنیمت حلال کر دیے گئے ہیں ۔ زمین میرے لیے پاک اور مسجد قرار دی گئی ہے ۔ مجھے تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہے اور مجھ پر سلسلۂ نبوت و رسالت ختم کر دیا گیا ہے ۔
( مسلم شریف ٬ کتاب المساجد و مواضع الصلوٰۃ ٬ ص : ۱۹۵ ٬ رقم الحدیث : ۵۲۴ ٬ مطبوعہ : دار الکتب العلمیۃ ٬ بیروت )
حضرت امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنی صحیح میں ” باب قولہ صلی اللہ علیہ و سلم بعثت بجوامع الكلم ” کے عنوان سے مستقل ایک باندھا ہے اور اس کے تحت جوامع الکلم والی حدیث کی تخریج فرمائی ہے ۔ چنانچہ آپ حدیث نقل فرماتے ہیں :
عن ابی هريرة رضی الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : بعثت بجوامع الكلم و نصرت بالرعب و بينا انا نائم رايتنی اتيت بمفاتيح خزائن الارض فوضعت فی يدی .
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے جوامع الكلم ( مختصر الفاظ میں کثیر معانی بیان کرنے کا اعجاز ) کے ساتھ بھیجا گیا ہے اور میری مدد رعب کے ذریعہ کی گئی اور میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں لائی گئیں اور میرے ہاتھوں میں رکھ دی گئیں ۔
( بخاری شریف ٬ کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ ٬ ص : ۱۳۱۷ ٬ رقم الحدیث : ۷۲۷۳ ٬ مطبوعہ : دار الکتب العلمیۃ ٬ بیروت )
حضور نبی کریم ﷺ کے اقوال و ارشادات اور مکتوبات و خطبات عربی ادب کا شہکار اور بے مثل نمونہ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جاحظ نے ” البیان و التبیین ” میں جہاں عرب کے نامی گرامی ادبا و شعرا کے کلام پر روشنی ڈالی ہے ٬ وہیں آپ ﷺ کے کلامِ بلاغت نظام کی نمایاں ترین خصوصیات اور بالخصوص آپ کی زبانِ فیض ترجمان سے ادا ہونے والے ” جوامع الکلم ” پر بھی گفتگو کی ہے ۔ جاحظ کہتا ہے کہ لوگوں نے حضور نبی کریم ﷺ کے کلام سے بڑھ کر نفع بخش ٬ لفظاً معتدل ٬ معناً مفید تر ٬ موزوں و متناسب ٬ عمدہ ٬ بہتر ٬ احسن ٬ اوضح و اظہر ٬ آسان ترین اور معنی کے لحاظ سے فصیح و بلیغ کسی انسان کے کلام کو نہیں سنا ۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل اقتباس سے ظاہر ہے :
و أنا ذاكر بعد هذا فنًا آخر من كلامه ﷺ و هو الكلام الذی قل عدد حروفه و كثر عدد معانيه و جَلَّ عن الصنعة و نزّه عن التكلف و كان كما قال الله تبارك و تعالى : قل يا رسول اللہ ﷺ : و ما أنا من المتكلفين . فكيف و قد عاب التشديق و جانب أصحاب التقعيب و استعمل المبسوط فی موضع البسط و المقصور فی موضع القصر و هجر الغريب الوحشى و رغب عن الھجين السوقى ، فلم ينطق إلا عن ميراث حكمة و لم يتكلم إلا بكلام قد حُفٌ بالعصمة و شيد بالتأييد و يسر بالتوفيق . الكلام الذى ألقى الله عليه المحبة و غشاه بالقبول و جمع له بين المھابة و الحلاوة و بين حسن الإفھام و قلة عدد الكلام ، مع استغنائه عن إعادته و قلة حاجة السامع إلى معاودته …… ثم لم يسمع الناس بكلام قط أعم نفعاً و لا أقصد لفظا ، و لا أعدل وزناً و لا أجمل مذهباً و لا أكرم مطلباً و لا أحسن موقعاً و لا أسھل مخرجاً و لا أفصح معنى و لا أبين فی فحوى من كلامه ﷺ كثيراً .
( البیان و التبیین ٬ جلد دوم ٬ ص : ۱۷ ٬ ۱۸ ٬ الناشر : مکتبۃ الخانجی ٬ قاہرہ ٬ مصر )
جوامع الكلم کا لفظی و اصطلاحی مفہوم :
اللہ رب العزت کے اسمائے حسنیٰ میں ایک مبارک نام ” الجامع ” بھی ہے ۔ اللہ رب العزت کو ” جامع ” اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ قیامت کے دن حساب و کتاب کے لیے جملہ مخلوقات کو میدانِ محشر میں جمع فرمائے گا ۔ الجامع ھو الذی یجمع الخلائق لیوم الحساب . ” جوامع الکلم ” دو لفظ کا مجموعہ ہے ۔ جوامع ٬ جامعۃ کی جمع ہے ٬ جیسے سواطع ساطعۃ کی جمع ہے ۔ کَلِم ( بکسر اللام ) صیغۂ جمع ہے اور اس کا واحد ” کلمۃ ” ہے ۔ قرآن کریم میں ہے : الیہ یصعد الکلم الطیّب . یعنی اللہ عز و جل کی بارگاہ میں پاکیزہ کلمات پہنچتے ہیں ۔ جوامع الکلم میں چوں کہ مختلف معنی خیز الفاظ ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں یا پھر ان کا مجموعہ کثیر الفوائد اور وسیع المعانی ہوتے ہیں ٬ اس لیے ان کو جوامع الکلم کہا جاتا ہے ۔ جوامع الکلم کا اصطلاحی معنی یہ ہے : وہ جامع کلمات جو مختصر ہونے کے با وجود کثیر المعانی ہو ۔ ” جوامع الکلم ” کی حقیقت و ماہیت کے بارے میں سب سے پہلے امام بخاری ہمیں آگاہ فرماتے ہیں ۔ چنانچہ جوامع الکلم سے متعلق حدیث نقل کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں :
و بلغنی ان جوامع الكلم ان الله يجمع الامور الكثيرة التی كانت تكتب فی الكتب قبله فی الامر الواحد و الامرين او نحو ذلك .
یعنی مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ ” جوامع الكلم ” سے مراد یہ ہے کہ بہت سے امور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے کتابوں میں لکھے ہوئے تھے ، ان کو اللہ تعالیٰ نے ایک یا دو امر میں جمع کر دیا ہے ۔
( صحيح البخاری ٬ کتاب التعبیر ٬ ص : ۱۲۷۴ ٬ رقم الحدیث : ۷۰۱۳ ٬ مطبوعہ : دار الکتب العلمیۃ ٬ بیروت )
سید السند علامہ میر شریف جرجانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : جامع الکلم یا جوامع الکلم اسے کہتے ہیں جس کا لفظ قلیل اور معانی کثیر و جزیل ( ہمہ گیر ) ہو ۔ مثلاً یہ حدیث پاک : حفت الجنۃ بالمکارہ و حفت النار بالشھوات . جنت مشقت میں ڈالنے والی چیزوں سے اور جہنم شہوتوں سے گھِری ہوئی ہے ۔ اسی طرح : خیر الامور اوسطھا . بھی جوامع الکلم میں شامل ہے ۔ میر جرجانی کے الفاظ یہ ہیں :
جامع الكلم : ما يكون لفظه قليلاً و معناه جزيلاً ، كقوله : حفت الجنة بالمكاره ، وحفت النار بالشهوات ، و قوله : خير الأمور أوسطھا .
کتاب التعریفات للجرجانی ٬ ص : ۱۰۰ ٬ مطبوعہ : دار الریّان للتراث ٬ بیروت )
” جوامع الکلم ” کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ ابن اثیر جزری ” النھایۃ فی غریب الحدیث ” میں لکھتے ہیں :
و فيه ( أُوتِيتُ جَوَامِع الكلم ) يعنى القرآن ، جمع الله بلطفه فی الألفاظ اليسيرة منه معانى كثيرة ، واحدها جامعة : أى كلمة جامعة . و منه الحديث فی صفته صلى الله عليه و سلم : أنه كان يتكلم بجوامع الكلم . أى أنه كان كثير المعانی قليل الألفاظ . و الحديث الآخر كان يَسْتَحِبُّ الجوامع من الدعاء هی التی تجمع الأغراض الصَّالِحَة و المقاصد الصحيحة أو تجمع الثناء على الله تعالى و آداب المسئلة . و حديث عمر بن عبد العزيز رضى الله تعالى عنه : عَجِبْتُ لِمَنْ لَاحَنَ النَّاسَ كَيْف لا يَعْرِف جَوامع الكلم ، أَی كَيْفَ لَا يَقْتَصِر على الوجيز و يَتْرُكُ الفُضُول . و الحديث الآخر قال له : أقرننى سورة جامعة ، فأقرَأَهُ : إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضِ زِلْزَالَھا . أى أنھا تجمع أسباب الخير ، لقوله فيھا : فمن يعمل مثقال ذرة خيراً يره ، و من يعمل مثقال ذرة شرا يره .
( النھایۃ فی غریب الحدیث و الأثر ٬ جلد اول ٬ ص : ۲۹۵ ٬ مطبوعہ : المکتبۃ الاسلامیۃ ٬ بیروت )
ترجمہ : أوتیت جوامع الکلم . ( مجھے جوامع الكلم عطا کیا گیا ) اس سے قرآن مراد ہے کہ اللہ عز و جل نے اپنے لطف و مہربانی سے قرآن میں کم اور آسان الفاظ میں کثیر معانی بیان فرما دیا ہے ۔ جوامع کا واحد ” جامعۃ ” ہے ۔ اسی معنی میں حدیث پاک ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ جوامع الکلم کے ساتھ گفتگو کرتے تھے یعنی قلیل الفاظ میں کثیر معانی بیان فرماتے تھے ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ دعاؤں میں ” جوامع الدعاء ” کو پسند فرماتے تھے ۔ جوامع الدعاء کا مطلب ہے : ایسی دعا جو صالح اغراض اور صحیح مقاصد کو جامع ہو یا وہ دعا جو اللہ عز و جل کی ثنا اور سوال کرنے کے آداب کو جامع ہو ۔ حضرت عمر بن عبد العزيز رضى اللہ عنہ کے متعلق منقول ہے کہ وہ فرماتے تھے : عجبت لمن لاحن الناس کیف لا یعرف جوامع الکلم . یعنی مجھے اس شخص پر تعجب ہے کہ جو لوگوں سے گفتگو کرتا ہے ٬ لیکن جوامع الکلم کی رعایت نہیں کرتا یعنی وہ ایجاز و اختصار پر اکتفا نہیں کرتا اور فضول باتوں کو ترک نہیں کرتا ۔ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں التجا کی : اقرأنی سورۃ جامعۃ . یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے جامع سورت بتائیں ۔ اس وقت آپ نے ” سورۂ زلزال : اذا زلزلت الارض زلزالھا الیٰ آخرہ ….. کی تلاوت فرمائی ٬ کیوں کہ یہ مبارک سورہ جملہ اسبابِ خیر و شر کو جامع ہے ۔ کیوں کہ اس میں : فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ و من یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ . ہے ۔
جوامع الكلم کی قسمیں :
جب الفاظ قلیل ہوں اور معانی کثیر تو ان کو جوامع الکلم کہتے ہیں ۔ پھر جوامع الکلم کی دو قسمیں ہیں : ( ۱ ) قرآن کریم کی کچھ آیات ( ۲ ) وہ احادیثِ نبویہ جو اس شان کی حامل ہوں کہ ان کے الفاظ قلیل اور معانی کثیر ہوں ۔ اس قسم کی احادیث کا ایک معتد بہ حصہ ذخیرۂ احادیث میں بکھرے پڑے ہیں ۔ جیسا کہ علامہ ابنِ رجب حنبلی تحریر فرماتے ہیں :
فجوامع الكلم التی خص بھا النبی ﷺ نوعان : أحدهما : ما هو فی القرآن ، كقوله عز و جل : إِنَّ اللہ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسان وَ إِيتَاءِ ذِی الْقُرْبیٰ وَ يَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنكَرِ وَ الْبَغْی . قال الحسن : لم تترك هذه الآية خيراً إلا أمرت به و لا شراً إلا نَهَتْ عنه . و الثانی : ما هو فی كلامه ﷺ و هو موجود منتشر فی السنن المأثورة عنه و قد جمع العلماء جموعاً من كلماته الجامعة ، فصنف الحافظ أبو بكر بن السنی كتاباً سماه : الإيجاز و جوامع الكلم من السنن المأثورة ، و جمع القاضی أبو عبد الله القضاعی من جوامع الكلم الوجيزة كتاباً سماه : الشهاب فی الحكم و الآداب ، و صنف على منواله قوم آخرون ، فزادوا على ما ذكره زيادة كثيرة و أشار الخطابی فی أول كتابه : غريب الحديث إلى يسير من الأحاديث .
ترجمہ : تو جوامع الکلم جو حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ خاص ہیں ٬ ان کی دو نوع ہیں ۔ ایک وہ جو قرآن کی مختلف آیات میں موجود ہیں ۔ مثلاً : اللہ عز و جل کا یہ قول : ان اللہ یامر بالعدل و الاحسان …… امام حسن بصری فرماتے ہیں : اس آیت میں خیر اور شر دونوں کو جمع کیا گیا ہے کہ کوئی خیر ایسا نہیں جس کا حکم نہ دیا گیا ہو اور کوئی شر ایسا نہیں جس سے منع نہ کیا گیا ہو ۔ جوامع الکلم کی دوسری نوع وہ ہے جو نبی کریم ﷺ کے کلام میں مذکور ہیں اور احادیثِ ماثورہ میں بکھرے ہوئے ہیں ۔ علما کے ایک گروہ نے حضور علیہ السلام کے کلماتِ جامعہ ( جوامع الکلم ) کو کتابوں میں جمع کیا ہے ۔ حافظ ابو بکر ابن سنی نے اس موضوع پر ایک کتاب بنام ” الایجاز و جوامع الكلم من السنن المأثورۃ ” تصنیف فرمائی ہے ۔ قاضی ابو عبد اللہ قضاعی نے ” الشھاب فی الحکم و الآداب ” لکھی ہے ۔ ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دوسرے علما نے بھی اس موضوع پر کتابیں لکھی ہیں ۔ امام خطابی نے ” غريب الحديث ” کے آغاز میں جوامع الکلم پر مشتمل چند احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
( جامع العلوم و الحِکم ٬ ص : ۲۵ / ۲۶ ٬ مطبوعہ : دار ابن کثیر ٬ بیروت )
جوامع الكلم سے متعلق علما و محدثین کے اقوال و آراء :
امام نووی شافعی فرماتے ہیں کہ ایک روایت میں ” اعطیت جوامع الکلم ” اور ایک روایت میں ” بعثت بجوامع الكلم ” ہے ۔ شیخ ہروی کے بقول : جوامع الكلم سے قرآن مراد ہے ( یعنی حضور نبی کریم ﷺ کو قرآن کی شکل میں جوامع الكلم کا معجزہ عطا کیا گیا ) اور قرآن کو جوامع الکلم اس لیے کہا گیا ہے کہ اللہ عز و جل نے اس میں کم سے کم الفاظ میں کثیر معانی و مفاہیم بیان کر دیے ہیں ۔ نیز حضور نبی کریم ﷺ کا مبارک کلام بھی ” جوامع الکلم ” ہے کہ آپ ﷺ کم الفاظ میں کثیر معانی بیان فرماتے ہیں ۔
( قوله : صلى الله عليه و سلم أعطيت جوامع الكلم ) و فی الرواية الأخرى بعثت بجوامع الكلم . قال الھروى : یعنى به القرآن جمع الله تعالى فی الألفاظ اليسيرة منه المعانى الكثيرة و كلامه صلى الله عليه و سلم كان بالجوامع قليل اللفظ كثير المعانى .
( شرح صحیح مسلم للنووی ٬ جلد : ۵ ٬ ص : ۵ ٬ مطبوعہ : المطبعۃ المصریۃ ٬ بالأزھر ٬ قاہرہ ٬ مصر )
علامہ ابن حجر عسقلانی ” اعطیت جوامع الکلم ” کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : جوامع الكلم سے مراد قرآن ہے کہ اس میں قلیل الفاظ میں کثیر معانی پائے جاتے ہیں ۔ اسی طرح احادیثِ نبویہ میں بھی جوامع الکلم کی حامل کثیر احادیث موجود ہیں ۔ جیسا کہ فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے :
جوامع الكلم : القرآن فإنه تقع فيه المعانی الكثيرة بالألفاظ القليلة و كذلك يقع فی الأحاديث النبوية الكثير من ذلك .
( فتح الباری شرح صحیح البخاری ٬ ۶ / ۱۵۶ ٬ مطبوعہ : دار السلام ٬ الریاض )
علامہ ابن حجر عسقلانی دوسرے مقام پر تحریر فرماتے ہیں :
( بعثت بجوامع الكلم ) أی بجوامع الكلمات القليلة الجامعة للمعانی الكثيرة و حاصله أنه كان يتكلم بالقول الموجز القليل اللفظ الكثير المعانی ، و قيل : المراد بجوامع الكلم القرآن بدليل قوله ” بعثت ” و القرآن هو الغاية فی إيجاز اللفظ و اتساع المعانی .
یعنی جوامع الکلم ان قلیل الفاظ و کلمات کو کہتے ہیں جو کثیر معانی کو جامع ہوں ۔ خلاصۂ کلام یہ کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہایت مختصر اور قلیل الفاظ میں کثیر معانی بیان فرماتے تھے ۔ کہا گیا ہے کہ جوامع الکلم سے قرآن مراد ہے اور اس کی دلیل ” بعثت ” ہے ۔ قرآن اختصارِ الفاظ اور وسعتِ معانی میں اپنی انتہا پر فائز ہے ۔
( فتح الباری شرح صحیح البخاری ٬ جلد : ۲۵ ٬ ص : ۳۷ ٬ مطبوعہ : دار السلام ٬ الریاض )
” بعثت ” کی دلیل سے جوامع الکلم کو صرف قرآن پر محمول کرنا ٬ راقم اس منطق کو سمجھنے سے قاصر رہا ۔ حق یہی ہے کہ جوامع الکلم سے قرآن اور مخصوص احادیث ( جو قلیل الالفاط اور کثیر المعانی ہوں ) دونوں مراد ہیں ۔ شارحِ بخاری حضرت علامہ عینی حنفی نے بھی ” عمدۃ الباری ” میں بعینہٖ یہی بات کہی ہے :
( بعثت بجوامع الكلم ) أی بجوامع الكلمات القليلة الجامعة للمعانی الكثيرة و حاصله أنه كان يتكلم بالقول الموجز القليل اللفظ الكثير المعانی ، و قيل : المراد بجوامع الكلم القرآن بدليل قوله ” بعثت ” و القرآن هو الغاية فی إيجاز اللفظ و اتساع المعانی .
( عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ٬ جلد : ۲۵ ٬ ص : ۳۷ ٬ مطبوعہ : دار الکتب العلمیۃ ٬ بیروت )
شیخ کرمانی نے ” الکواکب الدراری بشرح البخاری ” میں جوامع الکلم کی تشریح ان الفاظ میں کی ہے : ( جوامع الکلم ) أی الكلمات القليلة الجامعة للمعانی الكثيرة . وہ مختصر الفاظ اور قلیل کلمات جو کثیر معانی پر مشتمل ہوں ٬ ان کو جوامع الکلم کہتے ہیں ۔
( الکواکب الدراری بشرح البخاری ٬ جلد : ۲۵ ٬ ص : ۳۰ ٬ مطبوعہ : دار احیاء التراث العربی ٬ بیروت )
سلطان الفقہاء و المحدثين حضرت ملا علی قاری حنفی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں :
( أعطيت جوامع الكلم ) أی قوة إيجاز فی اللفظ مع بسط فی المعنى فأبين بالكلمات اليسيرة المعانی الكثيرة و قد جمعت أربعين حديثاً من الجوامع الواردة على الكلمتين اللتين هما أقل مما يتصور منه تركب الكلام ويتأتى منه إسناد المرام نحو قوله عليه السلام : العدة دين ، و المستشار مؤتمن ، و لا تغضب و أمثال ذلك . و قد روى أبو يعلى فی مسنده عن عمر رضی الله عنه : أعطيت جوامع الكلم و اختصر لی الكلام اختصاراً . و فی شرح السنة ، قيل : جوامع الكلم هی القرآن جمع الله سبحانه بلطفه معانی كثيرة فی ألفاظ يسيرة .
” اعطیت جوامع الکلم ” یعنی مجھے کم لفظ میں وسیع معنی ادا کرنے کی قوت بخشی گئی ہے تو میں کم الفاظ اور آسان کلمات میں کثیر معانی بیان کرتا ہوں ۔ میں نے جوامع الکلم کے عنوان سے چالیس احادیث جمع کی ہیں جو کم سے کم دو کلمات پر مشتمل ہیں جن سے کلام تام ہوتا ہے ۔ ( اور وہ جوامع الكلم یہ ہیں ) العدۃ دین ٬ المستشار مؤتمن ٬ لا تغضب وغیرہ ۔ امام ابو یعلیٰ اپنی مسند میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : مجھے جوامع الكلم عطا کیے گئے اور میرے لیے کلام کو مختصر کیا گیا ۔ شرح السنۃ میں ہے کہ جوامع الکلم قرآن ہے ۔ کیوں کہ اللہ عز و جل نے قرآن مجید میں مختصر الفاظ میں کثیر معانی کو بیان فرمایا ہے ۔
( مرقات المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ٬ جلد دہم ٬ ص : ۴۲۷ ٬ مطبوعہ : دار الکتب العلمیۃ ٬ بیروت )
امام عبد الرؤف مناوی کے نزدیک جوامع الکلم حضور نبی کریم ﷺ کو بخشا جانے والا ایک ایسا ملکہ ہے جس کی بدولت آپ مختصر لفظ میں وسیع و کثیر معنی ادا کرنے پر قدرت رکھتے تھے ٬ جس کی طلب میں نہ فکر کو کوئی دقت پیش آتی اور نہ ذہن اس کے سمجھنے سے قاصر رہتا ۔ ذہن آپ کے بیان کردہ لفظ کو سمجھنے کا ارادہ کرتا تو اس سے پہلے ہی اس کا معنی ذہن میں راسخ ہو جاتا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ جوامع الکلم سے مراد قرآن کریم ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ گذشتہ ادیان میں جو بہت سارے امور بیان کیے گئے ہیں ٬ وہ سب کے سب یک بیک حضور نبی کریم ﷺ کے لیے جمع کر دیے گئے ہیں ۔ امام مناوی کے الفاظ یہ ہیں :
( أعطيت جوامع الكلم ) أی ملكة أقتدر بھا على إيجاز اللفظ مع سعة المعنى بنظم لطيف لا تعقيد فيه يعثر الفكر فی طلبه و لا التواء يحار الذهن فی فھمه فما من لفظه يسبق فھمہ إلى الذهن إلا و معناہ أسبق إليه ؛ و قيل أراد القرآن و قيل أراد أن الأمور الكثيرة التی كانت تكتب فی الأمور المتقدمة جمعت له فی الأمر الواحد و الأمرين .
( فیض القدیر شرح الجامع الصغير ٬ جلد اول ٬ ص : ۷۱۹ ٬ مطبوعہ : دار الکتب العلمیۃ ٬ بیروت )
حدیث ” اعطیت جوامع الکلم ” کی توضیح و تفسیر اس روایت سے بھی ہوتی ہے جسے امام جلال الدین سیوطی نے ” جامع الصغیر ” میں ان الفاظ میں بیان کی ہے : اعطیت جوامع الکلم و اختصر لی الکلام اختصارا . یعنی مجھے جوامع الکلم عطا کیے اور میرے لیے کلام کو مختصر کیا گیا ۔ اس حدیث میں صراحت کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ میرے لیے کلام کو مختصر کیا گیا ہے یعنی حضور علیہ السلام کو یہ معجزہ بھی عطا ہوا ہے کہ آپ کا کلام مختصر لیکن جامع ہوا کرتا ہے ۔ امام مناوی اس روایت ( اختصر لی الکلام اختصارا ) کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ہے کہ میرے لیے کلام کو مختصر کیا گیا ہے ۔ میں جو گفتگو کرتا ہوں ٬ اس کے الفاظ کم اور معانی کثیر ہوتے ہیں ۔ گذشتہ انبیائے کرام علیہم السلام کو جو اعجازِ تکلم متفرق طور پر بخشا گیا تھا ٬ وہ سب آپ میں ایک ساتھ جمع ہے اور یہ وہ خصوصیت و فضیلت ہے جو آپ سے پہلے کسی کو عطا نہیں ہوئی ہے ۔
( و اختصر لی الکلام ) أی أوجز لی الكلام حتى صار ما أتكلم به كثير المعانی قليل الألفاظ و قوله ( اختصاراً ) مصدر مؤكد لما قبله فھو الجامع لما تفرق قبله فی الرسل من الكمال المخصوص بما لم يعطه أحد منهم من المزايا و الإفضال فمما اختص به عليھم الفصاحة و البلاغة .
( فیض القدیر شرح الجامع الصغير ٬ جلد اول ٬ ص : ۷۱۹ ٬ مطبوعہ : دار الکتب العلمیۃ ٬ بیروت )
خلاصۂ کلام یہ کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ” جوامع الکلم ” کا عظیم الشان معجزہ کیا گیا ہے ۔ قرآن مقدس اور احادیثِ طیبہ میں جوامع الکلم کی گل کاریاں ذوقِ سلیم اور ادب آشنا قلوب کو تسکین و سرور فراہم کرتی ہیں ۔ اللہ رب العزت ہمیں قرآن و حدیث کی تلاوت و قرأت اور اس کے احکام و تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین !






