نتیجہ فکر: اشکررضا لطفی مصباحی
حضور کی ذات منبع فضائل وکمالات ہے ، نور سے ظہور تک جس طرح پاک وصاف ہے ، اسی طرح ، بچپن سے اخیر عمر تک ، ولادت سے وفات تک ، زندگی کا ہرگوشہ اپنے اندر انسانیت کے لیے شمع فروزاں کیے ہوا ہے ۔
آپ کی حیات مقدسہ کا ہر لمحہ، شر، ظلم، حق تلفی، لاچاری، بےبسی سے پاک ہے ، اور کوئی لمحہ انسانی اقدار سے ہٹاہوانہیں ہے، اور آپ کی ذات بابرکات ، شرافت وبزرگی کے نکتہ انتہا پر پہنچی ہوئی ہے۔
لیکن مستشرقین نے ، آپ کے بچپن کو بھی ، قارونی ذہنیت کے حامل لوگوں کے سامنے ، مالی اعتبار سے کمزور ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کی ، اور کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک غریب گھرانے میں جنم لیا ،جس کہ وجہ سے انہیں احساس کمتری نے اپنا شکار بنالیا ، اور اسی احساس محرومی نے ایک ایسی تحریک کی بنا ڈالنے پر مجبور کیا ، جس کا سہارا لے کر انہوں نے قتل وغارت گری کی، اور مشاہیر دولتمند اور متمول عرب قبائل کا رخ کیا ، جسے ان کے ماننے والے جہاد کا نام دیتے ہیں
(العیاذ باللہ ) ان مستشرقین نے ،مالک کل کی ذات گرامی پر، غربت وافلاس کا داغ اس لیے لگایاکہ مالداری بھی ایک وجہ افتخار ہے ، لھذا ان کی زندگی کو مفلسی سے پُر بناکر پیش کی جائے، تاکہ انسانوں کا ایک طبقہ جو مال وزر کو ہی باعث تکریم تصور کرتاہے ، ان کے سامنے ان کی کوئی عزت نہ رہ جائے ۔
(جس خدانے نمرود کے سامنے، حضرت ابراہیم کو عزت بخشی ، جس مالک نے فرعون کے سامنے، حضرت موسیٰ کے سرپر تاج کرامت رکھا ،جس معطی حقیقی نے رومی بادشاہ پر ، حضرت عیسی کو فضیلت بخشی ، اسی خدا نے پوری کائنات انسانی پر ، اپنے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فوقیت بخشی )
بطور حوالہ ، تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپنے کے دوتاریخی واقعات کو پیش کرتے ہیں ۔
1۔ ایک تو یہ کہ زمانہ طفولیت ، آپ نے اپنی ماں کے بجائے ، دائی کی ساتھ گذارا ، اور اسی دائی کا دودھ پیتے رہے ۔
2 ۔ دوسرے یہ کہ ، چھ سالوں تک آپ کی پرورش ، آپ کی نانیہال میں ہوئی ۔
ان دونوں باتوں سے ، یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ، غربت کا عالم یہ تھاکہ ، آپ کی ماں آپ کو دودھ پلانے سے قاصر تھی ، اور جب دودھ پینے کا زمانہ ختم ہوا تو ، چوں کہ آپ کا خاندان غریب تھا ، اور آپ کی دیکھ بھال بھی نہیں کرسکتے تھے اس لیے نانیہال میں چھ سالوں تک رہے ۔
حالاں کہ ہروہ شخص جسے عقل وشعور ہو، اپنے گردوپیش کے ماحول کو دیکھ کر نتیجہ اخذ کرسکتاہو، زمانے کے مزاج سے واقفیت رکھتا ہو ، وہ یہی سمجھے گا کہ ، جس کے گھر کھانے کے لیے کھانا ، اور اسباب حیات مفقود ہو ، وہ کیسے کسی مرضعہ کو رکھ سکتاہے ؟
وہ نہ تو مُرضِعَہ کو پیسہ دےسکتاہے ، اور نہ اپنے بچے کی درست پرورش وپرداخت کےلیے کوئی اضافی چیز ۔
واقعہ یہ ہے کہ حضرت عبدالمطلب جو مکہ کے سردار تھے ، اپنے پوتا کی پرورش اس انداز میں کرنے کے خواہاں تھے ، جیسے امرا ورؤسائے عرب ، اور سرداران قریش اپنے بچوں کی پرورش کیاکرتے تھے کہ ، وہ اپنے بچوں کی پرورش کے لیے مرضعہ رکھتے تھے ، تاکہ غریب مرضعہ کا بھلا ہوجائے ، اسی طریقے سے سرور کائنات کےلیے دائی حلیمہ کا انتخاب عمل میں آیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم میمنت لزوم نے حلیمہ کے گھر کو برکت سے بھردیا، خشک تھنوں والی اونٹنیاں کثرت سے دودھ دینے لگی ۔ ( تاریخ اسلام ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے )
رہی بات چھ سالوں کی آپ کے نانیہال میں رہنے کی ، تو ایسا کہیں نہیں ہے ، نہ کسی روایت میں نہ تاریخ میں ، بلکہ اتناہے کہ ، چار سالوں تک ، آپ ، دائی حلیمہ کے ہاں رہے ، اور عمر شریف کے چھٹے سال ، جناب آمنہ رضی اللہ عنہا آپ کو لےکر اپنے میکے (آپ کے نانیہال)کے لوگوں کو دکھانے گئی تھیں ، اور وہیں سے واپسی پر مقام ابوا پر جناب آمنہ رضی اللہ عنہا انتقال فرگئیں ۔
اس حقیقت میں خرد برد کرنے کی وجہ یہ بنی کہ ، مستشرقین اپنے قاری کو اس بات پر باور کرادے کہ ، آپ ایک تنگ دست تھے ، اور عربوں میں تنگدستوں کا کوئی مقام نہیں تھا ۔
انہیں معلوم ہوناچاہیے کہ ، جن کفارومشرکین عرب سے وہ فکری غذا حاصل کرتے ہیں ، جنہوں نے سنگین سے سنگین تر الزام عائد کرنے سے دروغ نہیں کیا ، خود وہ لوگ ، آپ کو صادق وامین کہاکرتے تھے ، بہت سارے واقعات ہیں جن سے پتہ چلتاہے کہ ، کفار مکہ بھی ، حضور کو باعزت ، مکرم اور شریف الطبع انسان سمجھتے تھے ، جیسے حجر اسود کی تنصیب کا مسئلہ ، کہ عرب کا ہر قبیلہ اپنے سردار کے ہاتھوں حجر اسود کو نصب کرناچاہتا تھا ، لیکن جب بات آگے بڑھی اور حَکَم اور ثالث بنائے جانے تک پہنچی تو، پورے مکہ میں ایک بھی ذات ایسی نظر نہ آئی جس کو ثالث اور حَکَم مان لیاجائے ، ہاں ایک ذات تھی ، اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے ، جو سب کی نگاہوں کی مرکز بن گئی ، اسی طرح ابولہب ، جو تمہارے نزدیک مکرم اور معزز ہے ، اس نے بھی تو اپنے دوبیٹوں کا نکاح ، حضور کی دوبیٹیوں سے کیاتھا ، اسی طرح ، ابوسفیان اسلام لانے سے پہلے ، حضور کے شدید ترین دشمنوں میں شمار کیے جاتے تھے ، اور سرداری میں بھی اپنی مثال آپ رکھتے تھے ، اس کے باوجود اپنی بیٹی کو حضور کے نکاح میں دیا ۔
تو تمہارے فکری باپ اور آقاؤں نے اپنے کردار سے یہی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ، عزت وبزرگی ، کرامت وشرافت ، اور عدل و امانت میں آپ کا ہم پَلّہ کوئی نہیں تھا ، پھر تم اس قسم باتیں کررہے ہو ؟
تم اس رسول کی عظمت گھٹانے کی کوشش کررہے ہو ، جن کے قدم ناز سے کائنات انسانی کی عظمتیں اور رفعتیں وابستہ ہیں؟
عظمتوں اور رفعتوں کا منبع ومصدر میرے نبی کی ذات ہے ، کون نہیں جانتاکہ ، عرب میں سیدنا بلال ، سیدنا خباب ، سیدنا صہیب ، سیدنا عمار ، بلکہ خود سیدنا عمر کی زبانی ، حضرت عمر کی کیا حیثیت تھی ؟ لیکن نبی کے قدموں سے لپٹے تو ، رفعت وبلندی کے آسمان پر پہنچ گئے ۔ رضی اللہ عنہم اجمعین ۔
پھر میرے نبی کی عظمتوں کا کیا کہنا ؟؟؟؟؟؟؟
تو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے!
جب بڑھائے تجھے اللّٰہ تعالیٰ تیرا!
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ کا ہے سایہ تجھ پر!
بول بالا ہے تِرا ، ذِکر ہے اُونچا تیرا !