نبی کریمﷺ

تحفظ ناموس رسالت میں جانوروں کا کردار

تحریر: ظفرالدین رضوی
صدر رضا اکیڈمی بھانڈوپ ملنڈ ممبئی۔9821439971

عزیزان گرامی

ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب
ہنوز نام توگفتن کمال بے ادبی است

ترجمہ:یارسول اللہﷺ!ہزار بار بھی اگر میں اپنا منہ مشک وگلاب سے دھو لوں تو پھر بھی آپ کاپاکیزہ نام کمالِ ادب کے ساتھ نہیں لے سکتا ۔

سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم وادب واحترام نہ صرف کمال ایمان ہے بلکہ اصل ایمان اور جانِ ایمان ہے۔

احترام رسولﷺ کیا ہے ؟

اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ایمان والوں سے خطاب کیا ہے اور اس میں مومنین کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ جس نے تمہیں ضلالت و گمرہی کی تاریکی سے نکال کر نور ایمان کا اجالا دیا،اسلام جیسی عظیم نعمت سے مالامال کیا اور تمہیں اللہ کا پیغام پہنچایا۔لہذا اب یہ بھی کان کھول کر سن لو کہ اعمال و عبادات کی ابتداء اس کے ادب واحترام پر موقوف ہے کیونکہ بے ادبی وگستاخی اللہ کو نہ اپنے لئے گوارہ ہے اور نہ ہی اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے۔
اگر کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ادنیٰ سی بھی توہین کرتا ہے تو وہ مردودبارگاہ قرارپاتاہے اور ہمیشہ ہمیش کے لئے بارگاہ الہی سے راندہ کر دیا جاتا ہے کیوں کہ ایمان کا دارومدار رسول کی غلامی اور کمال اتباع میں پنہاں ہے۔

جس وقت آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں رونق افروز ہوئے اس وقت وہاں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جن کی زبان عبرانی تھی ان میں اکثریت حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں سے دشمنی کرتی تھی اور کسی نہ کسی بہانے سے وہ حضور کی توہین اور گستاخی کرنے کا موقع تلاشتےرہتے تھے یہودیوں کی خوشی کی اس وقت انتہا نہ رہی جب حضور ﷺکو صحابہ کرام مجلس پاک میں کسی بات کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے راعناکہہ کر پکارنے لگے۔دراصل لفظ ’’راعنا ‘‘یہودیوں کے درمیان بطور استہزاءاستعمال کیاجاتاتھا۔یہودیوں نے جب دیکھا کہ مسلمان اپنے نبی کو راعنا کہہ کر پکارتے ہیں تو انہوں نے از راہ مذاق و بے ادبی راعنا کہنا شراع کر دیا جس کا سادہ مطلب تھا ہمارا چرواہا۔
اللہ رب العزت کی غیرت کو یہ کب گوارہ تھا کہ کوئی اس کے محبوب کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی بھی کرے۔فورا وحی کا نزول ہوا۔اللہ رب العزت نے فرمایا : ’’یاایھاالذین اٰمنوالاتقولواراعناو قولواانظرناواسمعواوللکافرین عذاب الیم ‘‘۔(سورہ البقرۃ)
اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو۔(کنزالایمان)
یعنی میرے محبوب کو راعنا کہہ کر مت بلاؤ۔بلکہ ادب سے انظرنا کہا کرو۔
شان نزول جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے’’راعنایارسول اللہ!‘‘ اس کے یہ معنیٰ تھے کہ یارسول اللہ! ہمارے حال کی رعایت فرمائیے۔یعنی کلام اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے ۔یہود کی لغت میں یہ کلمہ سوءادب کے معنیٰ رکھتا تھا،انہوں نے اسی نیت سے کہنا شروع کیا۔
حضرت سعد بن معاذ یہود کی اصطلاح سے واقف تھے آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی زبان سے سن کر فرمایا اے دشمنان خدا !تم پر اللہ کی لعنت۔اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سنا اس کی گردن مار دوں گا یہود نے کہا: ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں اس پر آپ رنجیدہ ہوکر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں راعنا کہنے کی ممانعت فرما دی گئی اور اس معنیٰ کا دوسرا لفظ انظرنا کہنے کا حکم ہوا۔اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں کلمات ادب عرض کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترک ادب کا شائبہ بھی ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے ۔اور میرے محبوب کی اطاعت میں ذرہ برابر بھی کوتاہی مت کرو اور میرے محبوب کی تعظیم و تکریم بجا لاؤ یہی عظمت رسول کا تقاضہ بھی ہے کہ ہر امتی اپنے نبی کی بتائی ہوئی باتوں پر مکمل طور پر عمل پیرا ہو۔ جیسا کہ خود خالق کائنات قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:’’وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ۔‘‘(النساء/۶۴)
ترجمہ۔کنزالایمان۔اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔
آیت کریمہ کی تفسیر پر نظر ڈالنے سے بات صاف ہوجاتی ہےکہ رسول کو بھیجا ہی اس لئے ہے کہ ہر بات میں ان کی اطاعت کی جائے اس لئے ان کی اطاعت فرض کی گئی،تواب جو رسول مطاع ﷺ کے حکم سے راضی نہ ہو اس نے رسالت کو تسلیم نہ کیا وہ کافر ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہوا :من یطع الرسول فقط اطاع اللہ (النساء)
ترجمہ کنزالایمان۔جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ کا حکم مانا۔
اس آیت کریمہ کا شان نزول یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی۔اس پر اس زمانہ کے بعض منافقوں نے کہا کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے ہیں کہ ہم انہیں رب مان لیں جیسا نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم کو رب مانا۔اس پر اللہ تعالی نے ان کے رد میں یہ آیت نازل فرما کر اپنے نبی کے کلام کی تصدیق فرما دی کہ بے شک رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔

آپ غور کریں کہ اللہ تبارک و تعالی اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر کی کتنی تاکید فرمارہا ہے اور کوئی اس کے حبیب کے بارے میں ذرہ برابر بھی گستاخی کرتا ہے تو اسے پسند نہیں۔جب اللہ کو اپنے محبوب کیلئے لفظ راعنا گوارہ نہیں تو کوئی اس کے حبیب کی شان میں گستاخی کرے تو وہ کیسے گوارہ کرے گا۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نے اپنے آقا کی ناموس کی حفاظت کیلئے اپنے جان کی بازی تک لگادی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ذرہ برابر بھی گستاخی برداشت نہیں کی۔
ان کی فرزانگی کا عالم یہ تھا وہ زبان حال سے یہ کہتے نظر آتے
نبی کا حکم ہو تو فاند جائیں ہم سمندر میں

بقول امام عشق و محبت

سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردان عرب

ناموس رسالت پناہ ﷺ پر مر مٹنا یہ خوش نصیبوں کا حصہ ہے یہ سعادت اللہ رب العزت نے ہر کسی کو عطا نہیں فرمائی یہ صرف اور صرف خوش نصیبوں کا ہی حصہ ہے۔

جہاں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین نے اپنے آقاﷺ کی ناموس کی حفاظت کی ہے وہیں پر جمادات نباتات زمین و آسمان اور حیوانات نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی حفاظت کی ہے۔
اس تعلق سے احادیث مبارکہ اورتاریخ میں بےشمار واقعات موجود ہیں۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ جانوروں نے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی حفاظت کس کس طرح سے کی ہے۔
حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین میں علامہ نبہانی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں۔کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم امت پر فرض ہے اس کے بغیر دنیا وآخرت میں کامیابی نہیں مل سکتی۔

اپنے مولی کی ہے بس شان عظیم
جانور بھی کریں جن کی تعظیم
سنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم
پیڑ سجدے میں گرا کرتے ہیں

کیوں نہ زیبا ہو تجھے تاجوری
تیری ہی دم کی ہے سب جلوہ گری
ملک و جن وبشر حورو پری
جان سب تجھ پہ فدا کرتے ہیں۔
(حدائق بخشش)

علامہ نبہانی نے حدیث نقل فرمائی ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم غزوۂ ذات الرقاع میں نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اور واپسی پر جب ہم مقام حرہ کے نشیب میں پہونچے تو سامنے سے ایک اونٹ دوڑتا ہوا آیا تو حضور نے ہم سے دریافت فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ اس اونٹ نے کیا کہا؟ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یہ اونٹ مجھ سے اپنے مالک کے خلاف امداد کا طلب گار ہے یہ کہتا ہے کہ اس کا مالک اس سے کئی سال سے کھیتی باڑی کا کام لیتا رہا ہے اور اب اسے ذبح کرنا چاہتا ہے۔جابر تم اس کے مالک کے پاس جاؤ اور اسے لے آؤ۔میں نے عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ !میں اس کے مالک کو نہیں جانتا آپ نے فرمایا:یہ اونٹ تمہیں اس کے پاس لے جائےگا حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اونٹ میرے آگے آگے چلتا رہا یہاں تک کہ اپنے مالک کے پاس لے جاکر کھڑا کردیا، پس میں اس کے مالک کو لے آیا۔

بارگاہ رسالت میں اونٹوں کا وجد کرنا
عبداللہ بن قرط کا بیان ہے کہ عیدالاضحیٰ کے دن حضور کی خدمت میں پانچ اونٹ یا چھ اونٹ لائے گئے تو وہ جھوم جھوم کرحضور کی طرف بڑھنے لگے کہ جس سے چاہیں ذبح کی ابتداء فرمائیں(طبرانی،ابونعیم،حاکم)

عَنْ أَنَسٍ رضی الله عَنْہٗ قَالَ: کَانَ أَهْلُ بَيْتٍ مِنَ الْأَنْصَارِ لَهُمْ جَمَلٌ يَسْنُوْنَ عَلَيْهِ، وَإِنَّ الْجَمَلَ اسْتُصْعِبَ عَلَيْهِمْ فَمَنَعَهُمْ ظَهْرَه، وَإِنَّ الْأَنْصَارَ جَاؤُوْا إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالُوْا: إِنَّه کَانَ لَنَا جَمَلٌ نُسْنِي عَلَيْهِ وَإِنَّهُ اسْتُصْعِبَ عَلَيْنَا وَمَنَعَنَا ظَهْرَه، وَقَدْ عَطَشَ الزَّرْعُ وَالنَّخْلُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم لِأَصْحَابِه: قُوْمُوْا فَقَامُوْا فَدَخَلَ الْحَائِطَ وَالْجَمَلُ فِي نَاحِيَةٍ، فَمَشَی النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم نَحْوَه. فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: يَا نَبِيَّ اللهِ! إِنَّهُ قَدْ صَارَ مِثْلَ الْکَلْبِ، وَإِنَّا نَخَافُ عَلَيْکَ صَوْلَتَه، فَقَالَ: لَيْسَ عَلَيَّ مِنْه بَأْسٌ، فَلَمَّا نَظَرَ الْجَمَلُ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَقْبَلَ نَحْوَه حَتّٰی خَرَّ سَاجِدًا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَأَخَذَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِنَاصِيَتِه أَذَلَّ مَا کَانَتْ قَطُّ حَتّٰی أَدْخَلَه فِي الْعَمَلِ، فَقَالَ لَه أَصْحَابُه: يَا رَسُوْلَ اللهِ، هٰذِه بَهِيْمَةٌ لَا تَعْقِلُ تَسْجُدُ لَکَ وَنَحْنُ نَعْقِلُ فَنَحْنُ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَکَ؟ وفي رواية: قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، نَحْنُ أَحَقُّ بِالسُّجُوْدِ لَکَ مِنَ الْبَهَائِمِ. فَقَالَ: لَا يَصْلُحُ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ وَلَوْ صَلَحَ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا مِنْ عِظَمِ حَقِّه عَلَيْهَا…الحديث۔(رواۂ احمد ونحوۂ الدارمی والطبرانی وقال المنذری)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری گھرانے میں ایک اونٹ تھا جس پر (وہ کھیتی باڑی کے لئے) پانی بھرا کرتے تھے، وہ ان کے قابو میں نہ رہا اور انہیں اپنی پشت (پانی لانے کے لئے) استعمال کرنے سے روک دیا۔ انصار صحابہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:یارسول اللہ !ہمارا ایک اونٹ تھا ہم اُس سے کھیتی باڑی کے لئے پانی لانے کا کام لیتے تھے اور وہ ہمارے قابو میں نہیں رہا اور اب وہ خود سے کوئی کام نہیں لینے دیتا، ہمارے کھیت اور باغ پیاسے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا: اُٹھو۔پس سارے صحابہ اُٹھ کھڑے ہوئے (اور اس انصاری کے گھر تشریف لے گئے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احاطہ میں داخل ہوئے تو اونٹ ایک کونے میں بیٹھا تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُونٹ کی طرف چل پڑے تو انصار کہنے لگے: (یا رسول اللہ!) یہ اُونٹ کتے کی طرح باؤلا ہو چکا ہے اور ہمیں اِس کی طرف سے آپ پر حملہ کا خطرہ ہے۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے اِس سے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اُونٹ نے جیسے ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بڑھا یہاں تک (قریب آکر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سجدہ میں گر پڑا۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیشانی پر دست اقدس پھیرا اور حسب سابق دوبارہ کام پر لگا دیا۔ صحابہ کرام نے یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ تو بے عقل جانور ہوتے ہوئے بھی آپ کو سجدہ کر رہا ہے اور ہم تو عقل مند ہیں اس سے زیادہ حقدار ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں اور ایک روایت میں ہے کہ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم جانوروں سے زیادہ آپ کو سجدہ کرنے کے حقدار ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسی فردِ بشر کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی بشر کو سجدہ کرے اور اگر کسی بشر کا بشر کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو اُس کی قدر و منزلت کی وجہ سے سجدہ کرے جو کہ اُسے بیوی پرحاصل ہے۔
امام الانبیاء علیہ السلام کی ذرا شان تو دیکھو کہ جانور بھی آپ کی تعظیم کرتے ہیں پتھر آپ کا احترام کرتے ہوئے درودو سلام پڑھتے ہیں اور درخت آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر سجدہ ریز ہوتے ہیں۔آپ کے یہ تمام معجزات طبرانی،مشکوٰۃ، شرح مشکوۃ میں موجود ہیں۔

اعلی حضرت فرماتے ہیں:

اے بے خردئی کفار رکھتے ہیں
ایسے کے حق میں انکار
کہ گواہی ہو گر اس کو درکار
بے زباں بول اٹھا کرتے ہیں

ہائے افسوس !کم عقلی اور جہالت کتنی بڑی مصیبت ہے کہ کافروں نے اس کی نبوت وکمالات کا انکار کیا جس کی عظمت و رسالت کی گواہی بے زبان جانور(چاند سورج،پتھر،درخت،گونگے بول کر) دیتے ہیں،۔
اس شعر میں ان بےشمار معجزات وکمالات کی طرف اشارہ ہے جو وقتا فوقتا بے زبان اور غیر ذی روح چیزوں نےحضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی گواہی دی جیسے ابوجہل کی مٹھی میں کنکروں کا کلمہ پڑھنا اور پتھر کا آپ پر ان الفاظ میں سلام بھیجنا۔’’السلام علیک یارسول اللہ‘‘ترمذی۔شفاء عن علی رضی اللہ تعالی عنہ)اور عکرمہ بن ابو جہل کے مطالبے پر پتھر کا پانی پہ تیرتے ہوئے اور کلمہ پڑھتے ہوئے آنا۔حوالہ۔انوار محمدیہ، تفسیر کبیر۔(شرح حدائق بخشش)

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم حَائِطًا لِـلْأَنْصَارِ، وَمَعَه أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ رضي الله عنهما وَرِجَالٌ مِنَ الْأَنْصَارِ. قَالَ: وَفِي الْحَائِطِ غَنَمٌ فَسَجَدَتْ لَه. قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّا نَحْنُ أَحَقُّ بِالسُّجُوْدِ لَکَ مِنْ هٰذِهِ الْغَنَمِ. فَقَالَ: إِنَّه لَا يَنْبَغِي أَنْ يَسْجُدَ أَحَدٌ لِأَحَدٍ. وَلَوْ کَانَ يَنْبَغِي أَنْ يَسْجُدَ أَحَدٌ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا. رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْمَقْدِسِيُّ وَاللَّفْظُ لَه وَإِسْنَادُه حَسَنٌ۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور چند دیگر انصار صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہمراہ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ باغ میں بکریاں تھیں۔اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:یا رسول اللہ! اُن بکریوں سے زیادہ ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:کسی انسان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے اور اگر ایک دوسرے کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَعْفَرٍ رضي الله عنهما قَالَ: فَدَخَلَ حَائِطًا لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَإِذَا جَمَلٌ. فَلَمَّا رَأَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم حَنَّ وَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ. فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَمَسَحَ ذِفْرَاه، فَسَکَتَ فَقَالَ: مَنْ رَبُّ هٰذَا الْجَمَلِ؟ لِمَنْ هٰذَا الْجَمَلُ؟ فَجَاءَ فَتًی مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ: لِي، يَا رَسُوْلَ اللهِ، فَقَالَ: أَفَـلَا تَتَّقِي اللهَ فِي هٰذِهِ الْبَهِيْمَةِ الَّتِي مَلَّکَکَ اللهُ إِيَاهَا، فَإِنَّه شَکَا إِلَيَّ أَنَّکَ تُجِيْعُه وَتُدْئِبُه۔روَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ ۔
حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک انصاری شخص کے باغ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک اُونٹ تھا۔جب اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو وہ رو پڑا اور اُس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے پاس تشریف لے گئے اور اُس کے سر پر دستِ شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُس اُونٹ کا مالک کون ہے اور یہ کس کا اونٹ ہے؟انصار کا ایک نوجوان حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ میرا ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا تم اس بے زبان جانور کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے۔ اُس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اُسے بھوکا رکھتے ہو اور اُس سے بہت زیادہ کام لیتے ہو۔‘‘
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي الصَّحْرَاءِ فَإِذَا مُنَادٍ يُنَادِيْهِ ’’يَا رَسُوْلَ اللهِ‘‘ فَالْتَفَتَ فَلَمْ يَرَ أَحَدًا. ثُمَّ الْتَفَتَ فَإِذَا ظَبْيَةٌ مُوْثَقَةٌ فَقَالَتْ: أُدْنُ مِنِّي، يَا رَسُوْلَ اللهِ، فَدَنَا مِنْهَا فَقَالَ: حَاجَتُکِ؟ قَالَتْ: إِنَّ لِي خَشْفَيْنِ فِي ذَالِکَ الْجَبَلِ. فَخَلِّنِي حَتّٰی أَذْهَبَ فَأُرْضِعَهُمَا ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَيْکَ. قَالَ: وَتَفْعَلِيْنَ؟ قَالَتْ: عَذَّبَنِيَ اللهُ عَذَابَ الْعَشَّارِ إِنْ لَمْ أَفْعَلْ. فَأَطْلَقَهَا، فَذَهَبَتْ، فَأَرْضَعَتْ خَشْفَيْهَا، ثُمَّ رَجَعَتْ، فَأَوْثَقَهَا. وَانْتَبَهَ الْأَعْرَابِيُّ فَقَالَ: لَکَ حَاجَةٌ، يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، تُطْلِقُ هٰذِه. فَأَطْلَقَهَا، فَخَرَجَتْ تَعْدُوْ وَهِيَ تَقُوْلُ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّکَ رَسُوْلُ اللهِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
’’حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک صحراء میں سے گزر رہے تھے کہ کسی ندا دینے والے نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’یارسول اللہ‘‘ کہہ کر پکارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس آواز کی طرف متوجہ ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سامنے کوئی نظر نہ آیا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ غور سے دیکھا تو وہاں ایک ہرنی بندھی ہوئی تھی۔اُس نے عرض کیا: یارسول اللہ! میرے قریب تشریف لائیے۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے قریب ہوئے اور اس سے پوچھا: تمہاری کیا حاجت ہے؟اُس نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) اُس پہاڑ میں میرے دو چھوٹے چھوٹے نومولود بچے ہیں۔ پس آپ مجھے آزاد کر دیجئے کہ میں جا کر اُنہیں دودھ پلا سکوں پھرمیں واپس لوٹ آؤں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: کیا تم ایسا ہی کرو گی؟ اُس نے عرض کیا: اگر میں ایسا نہ کروں تو اللہ تعالیٰ مجھے سخت عذاب دے۔ پس حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے آزاد کر دیا۔وہ گئی اُس نے اپنے بچوں کو دودھ پلایا اور پھر واپس لوٹ آئی۔آپ نےاُسے دوبارہ باندھ دیا۔ پھر اچانک وہ اعرابی (جس نے اس ہرنی کو باندھ رکھا تھا) متوجہ ہوا اور اُس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کی کوئی خدمت کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اِس ہرنی کو آزاد کردو۔ تو اُس اعرابی نے اُسے فوراً آزاد کردیا۔ وہ وہاں سے دوڑتی ہوئی نکلی اور وہ یہ کہتی جارہی تھی: میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔‘‘ اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم حَائِطًا لِـلْأَنْصَارِ، وَمَعَه أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ رضي الله عنهما وَرِجَالٌ مِنَ الْأَنْصَارِ. قَالَ: وَفِي الْحَائِطِ غَنَمٌ فَسَجَدَتْ لَه. قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّا نَحْنُ أَحَقُّ بِالسُّجُوْدِ لَکَ مِنْ هٰذِهِ الْغَنَمِ. فَقَالَ: إِنَّه لَا يَنْبَغِي أَنْ يَسْجُدَ أَحَدٌ لِأَحَدٍ. وَلَوْ کَانَ يَنْبَغِي أَنْ يَسْجُدَ أَحَدٌ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا. رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْمَقْدِسِيُّ وَاللَّفْظُ لَه وَإِسْنَادُه حَسَنٌ۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور چند دیگر انصار صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہمراہ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ باغ میں بکریاں تھیں۔اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کیا۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اُن بکریوں سے زیادہ ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسی انسان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے اور اگر ایک دوسرے کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘اِسے امام ابو نعیم نے روایت کیا۔
عَنْ سَفِيْنَةَ رضي الله عنه قَالَ: رَکِبْتُ الْبَحْرَ فِي سَفِيْنَةٍ، فَانْکَسَرَتْ فَرَکِبْتُ لَوْحًا مِنْهَا، فَطَرَحَنِي فِي أَجَمَةٍ فِيْهَا أَسَدٌ، فَلَمْ يَرُعْنِي إِلاَّ بِه فَقُلْتُ: يَا أَبَا الْحَارِثِ، أَنَا مَوْلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَطَأْطَأَ رَأْسَه وَغَمَزَ بِمَنْکَبِه شِقِّي، فَمَا زَالَ يَغْمِزُنِي وَيَهْدِيْنِي إِلَی الطَّرِيْقِ، حَتّٰی وَضَعَنِي عَلَی الطَّرِيْقِ، فَلَمَّا وَضَعَنِي هَمْهَمَ، فَظَنَنْتُ أَنَّه يُوَدِّعُنِي۔رَوَاه الْحَاکِمُ وَالْبُخَارِی۔
’’حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں سمندر میں ایک کشتی پر سوار ہوا۔ وہ کشتی ٹوٹ گئی تو میں اُس کے ایک تختے پر سوار ہو گیا اُس نے مجھے ایک گھنے جنگل میں پھینک دیا جہاں شیر رہتا تھا۔ وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا کہ اچانک وہ شیر سامنے تھا۔ میں نے کہا: اے ابو الحارث (شیر)! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام ہوں تو اُس نے فوراً اپنا سر خم کر دیا اور اپنے کندھے سے مجھے اشارہ کیا اور وہ اُس وقت تک مجھے اشارہ اور رہنمائی کرتا رہا جب تک کہ اُس نے مجھے صحیح راہ پرنہ ڈال دیا پھر جب اُس نے مجھے صحیح راہ پر ڈال دیا تو وہ دھیمی آواز میں غر غرایا۔ سو میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے الوداع کہہ رہا ہے۔‘‘
عَنِ ابْنِ الْمُنْکَدِرِ أَنَّ سَفِيْنَةَ مَوْلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَخْطَأَ الْجَيْشَ بَأَرْضِ الرُّوْمِ أَوْ أُسِرَ فِي أَرْضِ الرُّوْمِ. فَانْطَلَقَ هَارِبًا يَلْتَمِسُ الْجَيْشَ فَإِذَا بِالْأَسَدِ. فَقَالَ لَه: يَا أَبَا الْحَارِثِ، أَنَا مَوْلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَإِنَّ مِنْ أَمْرِي کَيْتَ وَکَيْتَ. فَأَقْبَلَ الْأَسَدُ لَه بَصْبَصَةً حَتّٰی قَامَ إِلٰی جَنْبِه. کُلَّمَا سَمِعَ صَوْتًا أَتَی إِلَيْهِ ثُمَّ أَقْبَلَ يَمْشِي إِلٰی جَنْبِه. فَلَمْ يَزَلْ کَذَالِکَ حَتّٰی بَلَغَ الْجَيْشَ ثُمَّ رَجَعَ الْأَسَدُ. رَوَاهُ ابْنُ رَاشِدٍ وَالْبَيْهَقِيُّ۔
’’حضرت ابن منکدر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ جو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے ایک دفعہ روم کے علاقہ میں لشکرِ اسلام سے بچھڑ گئے یا وہ ارضِ روم میں قید کر دیئے گئے۔ وہ وہاں سے بھاگے تاکہ لشکر سے مل سکیں کہ اچانک ایک شیر اُن کے سامنے آ گیا۔اُنہوں نے اُس سے کہا: اے ابو حارث! میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام ہوں اور میرا معاملہ اِس طرح ہے (کہ میں لشکر سے بچھڑ گیا ہوں)۔ یہ سننا تھا کہ شیر فوراً دُم ہلاتا ہوا اُن کی طرف آیا اور اُن کے پہلو میں کھڑا ہو گیا۔ جب بھی وہ شیر (کسی درندے کی) آواز سنتا تو فوراً حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کے آگے آجاتا (جب خطرہ ٹل جاتا تو) پھر وہ واپس آ جاتا اور اُن کے پہلو میں چلنا شروع کر دیتا۔ وہ اِسی طرح اُن کے ساتھ چلتا رہا یہاں تک کہ وہ لشکر میں پہنچ گئے۔ اِس کے بعد شیر واپس لوٹ آیا۔‘‘
امام احمد رضا قدس سرہ کیا خوب لکھتے ہیں:

ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد
ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی داد
اسی در پر شتران ناشاد
گلہ ٔرنج عنا کرتے ہیں

کاشانۂ نبوت کی شان یہ ہے کہ جہاں چڑیاں بھی آکر فریاد کرتی ہیں اور ان کی فریاد سنی جاتی ہے ،ہرنی انصاف مانگتی ہے اور اس کو انصاف ملتا ہے۔ اونٹ اپنی تکلیف کی شکایت کرتا ہے تو اس کی شکایت دور کردی جاتی ہے۔ان تینوں معجزات کا ذکر مشکوٰۃ، نزہۃ المجالس ،شفا اور حجۃ اللہ العالمین میں موجود ہے۔

بھیڑیا کا کلام کرنا
اس ضمن میں بھیڑئیے کا کلام کرنا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دینے کا واقعہ بھی ہے بھیڑئیے کے کلام کرنے کی حدیث کو جماعت صحابہ نے متعدد طرق سےروایت کیا ہے۔
چنانچہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث روایت کی ہے وہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بھیڑیا ایک بکری پر جھپٹا اور بکری کو اپنے چنگل میں لے لیا لیکن چرواہے نے دوڑ کر بکری کو اس کے چنگل سے چھڑالیا اس کے بعد درندوں کی عام عادت کے مطابق بھیڑیا اپنی دم پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا چرواہے تو خدا سے نہیں ڈرتا کہ تو میرے اس رزق کو چھینتا ہے جسے خدا نے میرے قبضہ میں دیا تھا چرواہے نے کہا کہ سبحان اللہ تعجب ہے کہ بھیڑیا آدمیوں کی مانند بات کرتا ہے اس پر بھیڑئیے نے کہا کیا تجھے اس سے تعجب خیز بات نہ بتاؤں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں لوگوں کو گزری ہوئی باتوں اور خبروں کی اطلاع دے رہے ہیں اور لوگ ہیں کہ آپ پر ایمان نہیں لاتے پھر تو چرواہا ان بکریوں کو ایک گوشے میں اکٹھا کرکے چھوڑ کر چل دیا یہاں تک کہ مدینہ منورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور حضور کو تمام احوال سنایا اس پر حضور نے لوگوں کو بلانے کیلئے اعلان عام کا حکم دیا جب لوگ جمع ہوگئے تو حضور نے چرواہے سے فرمایا کہ جو کچھ تم نے سنا اور دیکھا ہے انہیں بتاؤ۔ اسی طرح بیہقی نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے اور ابو نعیم نے حضرت انس سے روایت کیا ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت بسند صحیح میں مذکور ہے کہ بھیڑئیے نے کہا کہ اس سے عجیب تر بات یہ ہے کہ ایک شخص حرمین کے درمیان کھجوروں کے باغوں میں گزشتہ اور آئندہ کے حالات بتارہا ہے یہ چرواہا یہودی تھا تو وہ بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا اور ایمان لے آیا(مدارج النبوہ ح اول ص ۳۴۴)

براق نے حضور کی تعظیم کی
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب معراج کیلئے تشریف لے جارہے تھے تو اس وقت حضرت جبریل امین علیہ السلام نے حضور کی بارگاہ میں ایک براق پیش کی اور عرض کیا:یارسول اللہ: اس پر آپ تشریف فرما ہوں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم رکاب میں پائے اقدس رکھنے لگے تو براق شوخی کی اس وقت حضرت جبریل امین علیہ السلام نے براق سے کہا: اے براق! تجھے کیا ہوگیا ہے کیوں شوخی کرتا ہے تجھ پر حضور سے زیادہ بزرگ تر سوار نہیں ہوا پھر براق نے شوق کا اظہار کیا اور زمین پر بیٹھ گیا اس کے بعد حضور نے اس کی پشت پر سواری فرمائی۔ براق کی شوخی اس وجہ سے تھی اب تک اس پر کسی نے سواری نہیں کی تھی بعض کہتے ہیں کہ براق کی یہ شوخی نازوطرف اور افتخار سے تھی نہ کہ سرکشی۔ جیسا کہ پہاڑ کے جنبش کرنے کے سلسلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
اثبت یا شبر فانما علیک نبی وصدیق و شہیدان ۔ترجمہ۔اے شبر پہاڑ قائم رہ(ٹھر جا) بلاشبہ تجھ پر ایک نبی،ایک صدیق، اور دوشہید ہیں۔(حوالہ مدارج النبوہ ص 294)

کُتّا بھی توہین رسالت برداشت نہ کرسکا
شارح بخاری حضرت امام حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے ایک کتے کا ذکر کیا ہے, جس نے رسول اللہ ﷺ کے دشمن کو کاٹ کھایا۔
"ایک دن عیسائیوں کے بڑے پادریوں کی ایک جماعت منگولوں کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے روانہ ہوئی.جو ایک منگول شہزادے کی عیسائیت قبول کرنے پر منعقد کی گئی تھی،اس تقریب میں ایک عیسائی مبلغ نے رسول اللہ ﷺ کو گالی بکی،قریب ہی ایک شکاری کتا بندھا ہوا تھا.جو اس کی طرف سے گالی بکنے پر چھلانگیں مارنے لگا.اور زوردار جھٹکا دے کر رسی نکالی۔اور اس بدبخت پر ٹوٹ پڑا۔اور اس کو کاٹ لیا.لوگوں نے آگے بڑھ کر اس کتے کو قابو کیا.اور پیچھے ہٹا یا،تقریب میں موجود بعض لوگوں نے کہا کہ یہ محمد (ﷺ) کے خلاف تمہاری گفتگو کی وجہ سے ہوا ہے، اس گستاخ نے کہا.بالکل نہیں۔
بلکہ یہ خودار کتا ہے.جب اس نے بات چیت کے دوران مجھے دیکھا کہ میں بار بار ہاتھ اٹھا رہا ہوں.اس نے سمجھا کہ میں اس کو مارنے کے لیے ہاتھ اٹھا رہاہوں.تو اس نے مجھ پر حملہ کر دیا، یہ کہہ کر اس بد بخت نے ہمارے محبوب ﷺ کو پھر گالی بکی. اس بار کتے نے رسی کاٹ دی. اور سیدھا اس ملعون پرچھلانگ لگا کر اس کی منحوس گردن کو دبوچ لیا.اور وہ فورا ہلاک ہو گیا۔اس واقعہ کو دیکھ کر 40000 (چالیس ہزار) منگولوں نے اسلام قبول کیا‘‘
(الدرر الکامنہ)اور امام الذھبی نے اس قصے کو صحیح اسناد کے ساتھ "معجم الشیوخ صفحہ 387 میں نقل کیا ہے۔

بکرے نے گستاخ رسول کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا
حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ غزوۂ احد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عبداللہ بن قمئہ بد بخت نے ایک پتھر مارا جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی ہوگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے تو وہ کہنے لگا کہ اس کو پکڑیں میں ابن قمئہ ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں کیا ہے ؟اللہ تعالی تجھ کو ذلیل کرے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء اللہ تعالی نے قبول فرمائی اور اس پر ایک پہاڑی بکرا مسلط فرمادیا اس بکرے نے اس کو سینگ مار مار ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
(المعجم الکبیر جلد ۸ص ۱۵۴ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

گوہ کا ختم نبوت کا اعلان کرنا
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول گرامی وقار صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام کی انجمن میں تشریف فرما تھے کہ ایک دیہاتی گوہ کا شکار کرکے لایا اور بولنے لگا کہ مجھے لات وعزیٰ کی قسم میں آپ پر ایمان تب تک ایمان نہیں لاؤں گا جب تک یہ ضب آپ پر ایمان نہ لے آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گوہ سے فرمایا کہ اے گوہ تو کس کی عبادت کرتی ہے تو گوہ فصیح عربی زبان میں بولی اس نے کہا لبیک و سعدیک یارسول رب العالمین۔اس کی بات کو محفل میں شریک سبھی سمجھ رہے تھے حضور نے فرمایا تو کس کی عبادت کرتی ہے تو اس نے کہا کہ میں اس کی عبادت کرتی ہوں جس کا عرش آسمانوں میں ہے اور اسکی حکومت زمین میں ہے اور اس کے راستے سمندروں میں ہیں اور جنت جس کی رحمت کا مظہر ہے اور جہنم اس کے جلال کا مظہر ہے تو رسول گرامی وقار نے فرمایا کہ اے گوہ بتا میں کون ہوں تو اس نے کہا کہ آپ تمام جہانوں کے رب کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں جو آپ پر ایمان لایا وہ کامیاب ہوگیا اور جو ایمان نہیں لایا وہ ذلیل ہوا یہ سنتے ہی وہ دیہاتی کلمہ پڑھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام بن گیا۔(الخصائص الکبری جلد ۲ص ۱۰۸ )
اس حدیث پاک سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ چرند پرند چاند سورج ستارے آسمان زمین نباتات جمادات حیوانات حتی کہ کائنات کا ذرہ ذرہ سب سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ﷺہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔ اگر کوئی گواہی نہیں دے رہا ہے تو سرکش انسان اور جنات ہیں آج کے اس پرفتن دور میں کچھ بد قسمت قسم کے لوگ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے نظر آتے ہیں اور وہ طرح طرح کے نازیبا کلمات بکے جا رہے ہیں اور ہم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں یہ ہماری دنیا پرستی ہی ہے کہ ہم اپنے نبی کی غیروں کی طرف سے توہین برداشت کرتے جارہے ہیں شاید ہماری غیرت مر چکی ہے ،ہمارا ضمیر مردہ ہوچکا ہے ۔جب کہ بندھا ہوا کتا نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کو ٹکڑے ٹکڑے کر سکتا ہے، اس نے اپنی زندگی کی پرواہ نہ کی بلکہ اپنی جان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کرنے کو تیار ہوگیا ۔غور تو کرو وہ کتا ہوکر ہم سے زیادہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی حفاظت کرنے میں آگے ہے اور ہم ہیں کہ صرف زبانی نعروں کے مجاہد اور کاغذی غازی ہیں۔

زہرآلود بکری کی بریانی کا نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کرنا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے مقام پر مشرکین سے قتال کے بعد واپس تشریف لائے راستے میں ایک یہودی عورت ملی جو سر پر کھانے کا برتن اٹھائے ہوئی تھی اس برتن میں بکری کا بھنا ہوا گوشت تھا اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوک لگی ہوئی تھی اس عورت نے کہا کہ الحمدللہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اللہ کی نذر مانی تھی کہ اگر آپ بخیر وعافیت واپس آئے تو میں یہ بکری قربان کروں اور اس کا گوشت بھون کر آپ کو کھلاؤں گی پس اللہ تعالی نے بکری کے گوشت کو قوت گویائی عطاء کی اس نے بول کر کہا کہ یارسول اللہ آپ مجھے تناول نہ فرمائیں کیونکہ میں زہرآلود ہوں۔(ابونعیم)

چڑیا کی فریاد
بہیقی،ابونعیم اور ابوالشیخ کتاب العظمہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ہم ایک درخت کے قریب سے گزرے جس میں حمرہ(چڑیا) کا گھونسلہ تھا تو ہم نے اس کے دونوں بچے پکڑ لئے وہ حمرہ بار بار حضور کے اوپر آکر اڑتی اور کچھ کہتی۔حضور نے فرمایا کسی نے اس کے بچوں کو پکڑ کر اسے تکلیف پہنچائی ہے؟ہم نے عرض کیا کہ ہم نے اس کے بچے پکڑے ہیں فرمایا انہیں ان کے گھونسلے میں رکھ دو تو ہم نے انہیں واپس ان کے گھونسلے میں رکھ دیا۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ ہمارے یہاں ایک پالتو جانور تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف فرما ہوتے تو وہ جانور سکون کے ساتھ ایک جگہ بیٹھا رہتا نہ کہیں پر جاتا نہ آتا اور جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے جاتے تو گھر میں بے چین ہوکر چکر لگاتا رہتا کیونکہ اس وقت گھر میں کوئی ایسا نہ ہوتا جس سے اسے خوف ہو۔اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے محروم ہوکر بے قرار ہوجاتا اور شوق دیدار میں بے کل رہتا۔(احمد بزار)
حضرت ابو عقرب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ابولھب کا بیٹا گالیاں دیتا تو ایک دن سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے بد دعاکی: اے اللہ! اس پر اپنے کتوں میں سے ایک کتا مسلط فرما دے تو وہ شام کی طرف ایک قافلہ جارہا تھا ان کے ساتھ روانہ ہوا رات کو ایک جگہ رکے تو وہ کہنے لگا کہ مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ڈر لگ رہا ہے تو اس کے ساتھیوں نے کہا کہ تم ہرگز فکر نہ کرو انہوں نے اپنا سارا سامان اس کے گرد ڈھیر کردیا اور اس کی حفاظت کرنے لگے اتنے میں ایک شیر آیا اور اس نے اس گستاخ کو سب کے درمیان سے کھینچا اور اپنے ساتھ لے گیا اور اسکو چیر پھاڑ دیا۔(المستدرک جلد ۲ص ۳۹ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)
سوچئےایک شیر بھی جانتا ہے کہ رسول گرامی وقار صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ کو زندہ نہیں رہنا چاہئے اور دوسری طرف یہ انسان ہیں جو ان جانوروں سے بھی بدتر ہیں جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا مسئلہ سمجھ میں نہیں آتا۔
بے شک جانور۔بدترین کافر سے اچھے ہیں۔کیونکہ جانور عقل و شعور نہ رکھتے ہوئے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتے ہیں اور عزت و احترام کرتے ہیں اور یہ اپنے سمجھ دار ہونے کا دعویٰ کرکے بھی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے مسئلے کو نہیں سمجھتے پھر یہ بات کتنی افسوس ناک ہے کہ انسان اپنے آپ کو عالم ودانشور بھی کہے پھر رسول پاک کی نہ تو خود تعظیم کرے اور نہ لوگوں کو کرنے دے بلکہ ان کو بھی منع کرے یہی وجہ ہے اس کے جانوروں سے بدتر ہونے کی۔

جانور کا رسول پاک کا ادب کرنا
حضرت امام دمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب تک رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جانور پر سوار رہتے تب تک وہ جانور پیشاب وغیرہ نہ کرتے اور نہ ہی بیمار ہوتے تھے۔ذکر جمیل ص ۳۷۵ مطبوعہ ضیاء القران لاہور۔
بےشک یہ واقعات اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی حفاظت جانوروں نے کرکے ان بدعقلوں اور گمراہوں بددینوں کو دعوت فکر دے رہے ہیں کہ جس نبی کے صدقے میں اللہ تبارک و تعالی نے کائنات کو وجود بخشا اس کا مرتبہ سب سے اولی واعلی ہے اس کی تعظیم و تکریم بجا لانا انسان پر فرض ہے کیونکہ کائنات کا ذرہ ذرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم کرتا ہے۔
گویا کہ جانوروں نےانسانوں کو یہ بتایا کہ نبیٔ محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم کیسے بجا لانا ہے ہم سے سیکھو۔ دیکھو ہمارے پاس تمہارے جیسا عقل و شعور نہیں،ہمارے پاس تمہارے جیسا دل ودماغ نہیں، ہمارے پاس تمہارے جیسا علم و ہنر نہیں، ہمارے پاس تمہارے جیسی سمجھ نہیں ہم نے تو کسی کتاب کو پڑھا نہیں ہم کسی مکتب و مدرسے میں گئے نہیں ہم نے کسی کالج اور یونیورسیٹی کا منہ تک نہیں دیکھا ہمارا کوئی استاذ نہیں تمہارے پاس تو استاذ ہیں تمہارے پاس عقل و شعور ہے تم اہل عقل ہو پھر بھی تم اللہ کے رسول کی توہین کرتے ہو۔ لعنت ہو تمہاری عقل پر۔ لعنت ہو تمہاری بینائی پر،لعنت تمہاری ہوش مندی پر، لعنت ہو تمہاری دانائی پر، لعنت ہو تمہاری زندگی پر۔یاد رکھو یہ دنیا فانی ہے ایک دن یہاں سے چلے جاؤ گے پھر دوبارہ نہ آؤگے کل قیامت کے دن رب کے حضور کیا منہ لےکر جاؤ گے؟اللہ تعالی بروز حشر تم سے یہ پوچھے گا کہ ہم نے تمہارے درمیان اپنے محبوب کو تمہاری رہبری کیلئے بھیجا تھا تم نے میرے محبوب کی اطاعت گزاری اور اس کی تعظیم و تکریم کیوں نہیں کی تو بتاؤ کیا جواب دوگے۔اس لئے آج ہی سے ان کے دامن کرم سے وابستہ ہوجاؤ اور اپنی دنیا وآخرت سنوار لو ورنہ بہت پچھتاؤگے۔

آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
کل نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا

ظفرالدین رضوی ممبئی

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے