"برصغیر میں اسلام کے کارواں کو تیز گام کرنے میں جن رجال کا وافر حصہ رہا ہے ان میں مشائخ چشتیہ نمایاں ہیں۔ جن کی خانقاہیں ایک طرف ارشاد و ہدایت کا مصدر ہوا کرتی تھیں تو دوسری طرف عقائد حقہ کی اشاعت کا محور ہوتیں۔”
تحریر: غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن مالیگاؤں
علماے حق نے اپنی ذمہ داری سمجھ کر علماے دیوبند نیز برصغیر میں پنپ رہے باطل عقائد کے حاملین پر شرعی گرفت کرتے ہوئے؛ انھیں سمجھانے کی کوشش کی اور آخرت کا خوف دلایا۔ جب دیکھا کہ وہ جنبش کو تیار نہیں تو پھر ان کا شرعی مواخذہ کیا- ان علماے ربانیین میں ایک نام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی (ولادت ۱۲۷۲ھ/۱۸۵۶ء -وصال ۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء) کا ہے۔ آپ نے ان عقائد و گستاخیوں سے متعلق تنبیہ و توبہ کی ترغیب کے بعد دینی ضرورت سمجھتے ہوئے علماے حرمین کی خدمت میں بِلا کم وکاست گستاخانہ عبارتوں کو پیش کیا اور حکم شرع واضح کرتے ہوئے علماے حرمین سے تصدیق چاہی۔ اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ علامہ فضل رسول بدایونی (م۱۲۸۹ھ)کی کتاب ’’المعتقد المنتقد‘‘ پر امام احمد رضا نے حاشیہ لکھا بہ نام ’’المعتمد المستند‘‘، اس کا خلاصہ امام احمد رضا نے دوسرے سفر حج ۱۳۲۳ھ میں علماے حرمین کی خدمت میں پیش کیااور اس میں ہندوستان میں پیدا ہونے والے فرقوں مثلاً قادیانی، نیچری، وہابی، دیوبندی، غیر مقلد وغیرہم کے عقائد ذکر کیے۔ جس پر ۳۳؍علماے حرمین نے مذکورہ فرقوں پر فتاویٰ کفر صادر فرمایا؛ جس کی اشاعت ’’حسام الحرمین علی منحرالکفروالمین‘‘ (۱۳۲۴ھ) کے نام سے ہوئی۔
مشائخ چشتیہ کی خدمات کا اجمالی تجزیہ:
برصغیر میں اسلام کے کارواں کو تیز گام کرنے میں جن رجال کا وافر حصہ رہا ہے ان میں مشائخ چشتیہ نمایاں ہیں۔ جن کی خانقاہیں ایک طرف ارشاد و ہدایت کا مصدر ہوا کرتی تھیں تو دوسری طرف عقائد حقہ کی اشاعت کا محور ہوتیں۔ دلوں کے زنگ بھی دھوئے جاتے اور ظاہر کو بھی نکھارا جاتا۔ خیالات کی بے راہ روی کی اصلاح کی جاتی اور معاشرتی برائیوں کا سد باب کر کے پاکیزہ و معطر ماحول تشکیل دیا جاتا۔ ان مشائخ کرام کی خدمات کا دائرہ برصغیر کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے۔ دور افتادہ علاقوں، غیر معروف کوچوں، خیابانوں، بیابانوں، دیہاتوں اور وحشت زدہ بستیوں میں اسلام و ایمان کی نوری کرنیں انھیں مشائخ کرام کے توسط سے پھیلیں۔ جن میں سب سے نمایاں نام سلطان الہند خواجہ غریب نواز علیہ الرحمۃ اور ان کے خلفا و تلامذہ و مسترشدین کا ہے- بعد کے ادوار میں سلسلۂ چشتیہ کی نظامی شاخ سے وابستہ بکثرت بزرگوں نے ہند کی دور دراز وادیوں میں اذانِ سحر دی-
شمال و جنوب میں بھی مشائخِ چشتیہ نے دین اسلام کی اشاعت کی- وسطی ہند میں بھی چشتی خانقاہوں سے جام عرفاں پلائے گئے- غرب ہند میں بھی شرک کے مراکز میں انھیں مشائخ کرام کے دَم قدَم سے اوس پڑ گئی اور نغمات توحید گونج گونج اٹھے-
بعد کے ادوار میں بھی مشائخ چشتیہ نے ایک طرف داعیانہ کردار ادا کیا دوسری طرف نوپید فتنوں اور فرق ہاے باطلہ کی تردید میں نمایاں رول نبھایا۔ جب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے گستاخِ رسول؛ مولویوں پر شرعی حکم عائد کیا اور علماے حرمین کی تصدیقات کے ساتھ فتاویٰ حسام الحرمین کی اشاعت کی؛ اس کی تائید و توثیق سلاسلِ طریقت کے بزرگوں نے کی۔ سبھی سلاسلِ طریقت کے بزرگوں نے حفاظتِ دین کے لیے حسام الحرمین کی تائید کی اور تصدیقی کلمات ارشاد فرمائے۔
اس تحریر میں مشائخ چشتیہ کی حسام الحرمین پر تصدیقات اور تردیدِ مذاہبِ باطلہ کے ضمن میں چند نکات درج کیے جاتے ہیں۔ راقم نے اس سے قبل ایک مقالہ ’’حسام الحرمین اور مشائخ نقشبندیہ ‘‘ کے عنوان پر تحریر کیا تھا جس کی کئی مقامات سے اشاعت عمل میں آئی۔
’’حسام الحرمین‘‘(۱۳۲۴ھ) پر ۳۳؍علماے حرمین کی تصدیقات کی اشاعت کے ۲۰؍ سال بعد ۱۳۴۵ھ میں علامہ حشمت علی خان قادری پیلی بھیتی نے ’’الصوارم الہندیہ علیٰ مکر شیاطین الدیوبندیہ‘‘ کے نام سے ۲٦٨؍ علما و مشائخ کی تصدیقات جمع کر کے شائع فرمائیں۔ انھیں میں سے مشائخ چشتیہ کی تصدیقات کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔نیز عقائد حقہ کے تحفظ کے لیے کاوشات پر بھی ضمناً روشنی ڈالی جائے گی۔اس سے قبل علامہ حشمت علی خان قادری کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں:
’’بعض جہال بکا کرتے ہیں کہ یہ تو بریلی و دیوبند کے جھگڑے ہیں علماے بریلی کے سوا دیوبندیوں کو کوئی کافر نہیں کہتا- وہ دیکھیں کہ جس قدر علماے اہلسنّت ہیں وہ سب دیوبندی گروہ کی تکفیر میں علماے بریلی سے متفق ہیں۔‘‘ (الصوارم الہندیہ، رضا اکیڈمی ممبئی۱۳۳۷ھ،ص۲۰)
مرکز چشت اجمیر مقدس:
حسام الحرمین پر اجمیر مقدس جوارِ خواجہ غریب نواز علیہ الرحمۃ میں جاری دارالعلوم معینیہ عثمانیہ کے اساتذہ کی تصدیقات ہیں۔ دارالعلوم کے مفتی امتیاز احمد انصاری لکھتے ہیں:
’’بے شک دعویِ نبوت کفر اور گستاخیاں، شانِ اطہر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں کفر اور ارتداد… اور خداے عزوجل صادق و سبحان کو کذب کا عیب لگانا کفرِ صریح… علٰی ھذا علم اقدس نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو شیطان ملعون کے علم سے کم بتانا موجب لعنت و کفر… نیز حضور اقدس و انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے علم اعلیٰ کو مذکورہ اشیا کے علم سے تشبیہ دینا توہین علوم نبوی… اور موجب ارتداد و کفر۔ اور ان کفریات کا قائل اور یہ اشخاص جن کی کتب مطبوعہ سے اس قسم کے عقائد ثابت ہیں حسبِ فتاواے علماے حرمین شریفین نہ محض بے ادب اور گستاخ… بلکہ خدا اور رسول کے دُشمن اور بقاعدہ شرعیہ کافر و مرتد ہوئے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔‘‘ (مرجع سابق،ص۴۳)
اس ضمن میں دارالعلوم معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف کے جن مدرسین کی تصدیقات ہیں ان کے نام اس طرح ہیں:
[۱] مولانا محمد عبدالمجید(موصوف نے یہ الفاظ درج کیے: ’’بے شک ان اقوال کا قائل و معتقد کافر ہے اور فتاواے حرمین حق ہیں۔‘‘ مرجع سابق)
[۲]مولانا عبدالحی
[۳] مولانا غلام علی
عرس سرکار غریب نواز علیہ الرحمۃ ۱۳۴۷ھ کے موقع پر عرس میں شریک علما نے حسام الحرمین پر تصدیقات ثبت فرمائیں؛ ان کے نام اس طرح ہیں:
[۱]مولانا سید محمود حسین زیدی الوری
[۲] مولانا محمد میراں شافعی (مدرس: مدرسہ نجم الاسلام بھیونڈی ضلع تھانہ)
[۳]مولانا نثار احمد ناگوری
[۴]مولانا شمس الدین احمد جون پوری (مصنف: قانون شریعت)
[۵]مولانا محمد حامدعلی فاروقی راے پوری
[۶]مولانا حبیب الرحمن
[۷]مولانا سید رشید الدین احمد بریلوی
فخرالمدرسین مولانا معین الدین اجمیری ابتدا میں علماے دیوبند کی تصانیف سے عدم مطالعہ کی بنیاد پر خاموش تھے۔ ۱۳۳۷ھ/۱۹۱۹ء میں حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خاں قادری کی اجمیر شریف آمد پر مراسلت ہوئی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولانا اجمیری علماے حرمین و علماے برصغیر کے ہم نوا ہو گئے۔ آپ اپنے ایک مکتوب بنام حجۃالاسلام علامہ حامد رضا خان میں لکھتے ہیں:
’’براہین قاطعہ کے قول شیطانی کو جس میں معاذ اللہ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے علمِ اکمل کے مقابلہ میں اپنے شیخ ’’شیخِ نجدی‘‘ یعنی شیطان کے علم کو وسیع کہا ہے۔ دیکھ کر فقیر کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ یہ کلمات قطعاً کلماتِ کفر ہیں اور ان کا قائل کافر۔ باقی ہفواتِ اہلِ دیوبند کو بعد صحت کے ان شاء اللہ دیکھ کر فیصلہ کروں گا۔‘‘ (مرجع سابق،ص۱۲۸)
آستانۂ کچھوچھہ مقدسہ:
سلسلۂ چشتیہ کی ایک عظیم واہم شاخ خانقاہِ کچھوچھہ شریف (یوپی) ہے؛ جہاں حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃاللہ علیہ نے روحانی مشن کو تازگی عطا کی اور لاکھوں دلوں کو ایمان و ایقان سے روشن فرمایا۔ اس آستانے سے جو گل کھلا اس کی خوش بو دور تک پہنچی۔حسام الحرمین پر کچھوچھہ مقدسہ سے جاری کردہ تصدیقات کی تمہید میں مولانا فضل الدین بہاری لکھتے ہیں:
’’بے شک مرزا غلام احمد قادیانی دعویِ نبوت کر کے کافر ہوا۔ بلا شبہہ رشید احمد گنگوہی و خلیل احمد انبیٹھوی و اشرف علی تھانوی و قاسم نانوتوی نے سرکار الوہیت و دربارِ رسالت میں گستاخی اور منھ زوری کی جس کی بنا پر مردود بارگاہ ہوئے اور ذریت ابلیس میں پناہ پایا۔‘‘ (مرجع سابق،ص۳۸)
اسی میں حضور محدث اعظم علامہ سید محمد اشرفی جیلانی کچھوچھوی جو حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ کے توسط سے چشتی نسبت رکھتے ہیں وہ ان الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’لاریب ان فتاوی علماء الحرمین المحترمین فی تکفیر ھولاء المذکورین صحیحۃ۔‘‘ (مرجع سابق، ص۳۸)
مولانا سید محمد شرف الدین اشرف اشرفی جیلانی جائسی جو حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ کے توسط سے سلسلۂ چشتیہ سے وابستہ ہیں؛ نے حسام الحرمین پر ’’الجواب صحیح‘‘کے الفاظ میں تصدیق کی۔ (مرجع سابق، ص۳۷)
مولانا سید احمد اشرف قادری چشتی اشرفی جیلانی نیز مولانا معین الدین احمد چشتی و مولانا سید حبیب اشرف چشتی نے بھی تصدیق فرمائی۔(مرجع سابق، ص۳۹۔ ۴۰)
شیخ المشائخ اشرفی میاں کی راے گرامی:
۲۱؍ ذی الحجہ ۱۳۳۹ھ کے تحریر کردہ ایک مفاوضۂ عالیہ میں شیخ المشائخ گلبن خیابانِ سمنانی مولانا سید علی حسین چشتی اشر فی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ’’مولانا احمد رضا خاں صاحب عالم اہل سنّت کے فتوؤں پر عمل کرنا واجب ہے۔کافروں کا ساتھ دینا ہرگز جائز نہیں ہے۔‘‘
ایک مقام پر لکھتے ہیں: ’’مولانا بریلوی اور اس فقیر کا مسلک ایک ہے۔‘‘ (مرجع سابق،ص۹۱۔۹۲)
(جاری….)