تحریر: انصار احمد مصباحی
رکن: جماعت رضاے مصطفی
مدرسے میں پڑھانے والے ایک مدرس کے ذمے تعلیم، تربیت، نظم و ضبط، اصلاح اعمال، منتظمین سے ملاقات وغیرہ سب کچھ ہوتا ہے؛ بلکہ رمضان میں وہی چندہ کرکے اپنی آدھی تنخواہ لے، طلبہ کے ساتھ قرآن خوانی میں جائے، گاؤں میں کسی کی میت ہوجائے تو تجہیز و تکفین کی ساری کاروائی شروع سے آخر تک وہی کرے اور قبر پر اذان پڑھ کر ہی واپس آئے۔
مسجد کا ایک امام صبح ، دو پہر شام، بچوں کو بھی پڑھائے، صفائی بھی کرائے، گھر گھر فاتحہ بھی وہی کرے، اور آخر میں ایک رات کے جلسے کے لئے ایک ماہ کی کڑی محنت کرے، گھر گھر اور چوک چوک جاکر اشتہارات لگوائے ۔
اسی قوم کے ایک رات کے جلسے میں صدارت، سر پرستی، سیادت، قیادت، نظامت، نقابت، ریاضت، حمایت ، لطافت، شرافت، نیابت فرمانے کے لئے الگ الگ ، نہایت ہی مہنگے اور نخریلے شخصیات بلائے جاتے ہیں، اتنا ہی نہیں ؛ بعض عہدوں کی کرسیوں پر مکرر شخصیات براجمان ہوتی ہیں۔
سال بھر سیکڑوں طلبہ کی ایک ایک نقل و حرکت پر باریکی سے نظر رکھنے والے صدر مدرس صاحب کی رات کرسیاں بٹورتے گزر جاتی ہے، سحر کے وقت سے رات کے 11 بجے تک طلبہ کے پیچھے پاگلوں کی طرح لگے رہنے والے حافظ صاحب ”مہمانان خصوصی“ کو کھلاتے پلاتے اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ انھیں صلٰوة و سلام ہی کے وقت شرکت کا موقع میسر ہوتا ہے۔
ہمارا یہ نظام بتاتا ہے، آج قوم کو تعلیمی اداروں سے زیادہ گویوں کی محفلیں پسند ہیں۔
اٹھیے! اور اپنے معاشرے کی اصلاح کے لئے کمر کسیے! ؎
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
ماشاءاللہ
بہت خوب
دلی مبارکباد