تحریر: روشن رضا مصباحی ازہری
رضوی دارالافتاء، رام گڑھ
رکن: مجلس علمائے جھارکھنڈ
آج کے اس پر فتن دور میں جہاں تمام تر مسلم مخالف طاقتیں ہمارے وجود کو کالعدم قرار دینے میں مصروف عمل ہیں، اور نت نئے منصوبے بند طریقے سے ہمارے اور ہمارے پاکیزہ مذہب کے خلاف سازش کی جارہی ہیں، وہیں پر ہمارا وجود ہمارا تشخص، ہماری اسلامی پہچان مٹانے میں وہ مسلسل کوشاں و سرگرداں نظر آتے ہیں، اور ہماری زندگی و ہمارے معمولات وأخلاق و کردار سے اسلامی رنگ کو مٹانے کے درپے ہیں، کبھی ہماری نئی نسلوں میں نیم عریاں لباس منتقل کرکے تو کبھی ان کے اذہان و افکار میں فیشن کے نام پر تعلیمات اسلام کے عین مخالف امور کو راسخ کرکے ذہن سازی کی کوشش کرتے ہیں.
اور جب سے ہماری قوم کے نوجوان لڑکے و لڑکیاں مغربی تہذیب و تمدن میں غرق ہوکر اسلامی لباس و اسلامی افکار و مومنانہ فراست کو خود سے الگ کرنے لگے اور اپنے آپ کو ترقی یافتہ و ماڈرن کہلانے کے چکر میں اسلامی نظریات میں نقص نکالنے لگے اسی دم سے ہمارا عملی زوال شروع ہوگیا اور بڑی سرعت کے ساتھ عالمی سطح پر ہماری شبیہ مکدر ہوکر رہ گئ، اور ہر محاذ پر ہمیں ہزیمت و شکست سے دوچار ہونا مقدر بن گیا.
اور وہ لڑکیاں جنہیں مذہب اسلام نے عزت و عصمت و عفت کے تحفظ ساتھ باوقار زندگی گزارنے کا حق دیا تھا آج انہیں لڑکیوں کو اسلام کے قوانین غیر مناسب لگنے لگے اور انہیں اس حجاب و برقع و اسلامی لباس و تہذیب میں گھٹن ہونے لگی تو ان لوگوں نے مغرب کی طرف رخ کیا جہاں بظاہر ہر طرح کی آزادی دستیاب ہے، خواہ وہ طرز لباس ہو یا سلیقہ زندگی، چاہے وہ پیار و محبت کے جھوٹے دعوے ہوں یا شادی کی آزادی، زندگی کے ہر موڑ پر انہیں آزادی و حریت دی گئ ہے، جس انداز کا چاہیں لباس پہنیں، جس سے چاہیں محبت کے نام پر اپنے تقدس کو پامال کریں، مگر انہیں کیا خبر ہے کہ جسے وہ محبت تصور کرتی ہیں وہ فقط ان کی عزت و عصمت کو تار تار کرنے کا ایک حیلہ ہے، اگر ہماری مسلم بچیوں کی عزت و عصمت اگر محفوظ رہ سکتی ہے تو وہ ہےقرآنی تعلیمات کے مطابق ، اپنے مذہب و شریعت کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے اپنی متعینہ حدود آزادی میں رہ کر زندگی کے لمحات طئےکرنا، جس کی وجہ سے معاشرہ میں لڑکی کی نیک نامی و پارسائی و خدا ترسی کی مثالیں دی جائینگی اور گھر کے تمام افراد اپنا سر فخر سے بلند کر کے چلنے میں فرحت محسوس کریں گے.
مگر افسوس اس جدید دور میں جہاں نت نئے آلات لہو ولعب وجود میں آگئے وہیں انٹرنیٹ کی صورت میں ایک ایسی وبا آئی کہ اس نیٹ کی وساطت سے اور سوشل میڈیا کے ذریعہ جہاں لوگوں کے ایمان و عقیدے کا سودا ہوتا ہے وہیں پر لڑکیوں کو چند میٹھے بول، زبانی، جھوٹی دعوئےمحبت کے دام میں پھنسا کر اس کے تقدس کو پامال کیا جاتا ہے اور اس کی عزت و عصمت کا جنازہ نکال کر اسے زندہ لاش بنادیا جاتا ہے.
اسی مغرب کی بیہودہ تہذیب میں ایک نام "ویلنٹائن ڈے "کا آتا ہے، آج کے اس ترقی یافتہ و ماڈرن دور میں لوگ اس دن کو عالمی محبت کے دن کے نام سے مناتے ہیں اور اسے ایک تیوہار کی حیثیت سے جانتے ہیں ، اس دن عاشق اپنے معشوقہ کو گلدستہ عقیدت دے کر اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے اور پھر وہ وہیں سے گناہوں کے اس بھیانک دلدل میں جاتے ہیں جہاں سے جیتے جی ان کا نکلنا دشوار ترین امر ہوتا ہے ، اس جھوٹی و نام نہاد محبت کے نام پر ویلینٹائن کے دن یہ ہوس و نفس و خواہشات کے غلام پھول دے کر نہ جانے کتنی بچیوں کی پھول سی زندگی کو تباہ کرتے ہیں اس کا اندازہ نہیں، آج کے دن عشق و محبت کے نام پر بے حیائی و فحاشی کا ایسا ننگا ناچ ہوتا ہے جس کا تصور بھی نہیں.
"ویلینٹائن ڈے "کی حقیقت کیا ہے تو مشہور قول کے مطابق اس کی ابتدا یہاں سے ہوئی کہ سترہویں صدی میں ویلٹئین نام کا ایک پادری تھا جسے وہیں کی ایک نن نامی راہبہ سے عشق ہوگیا، اس نے عشق تو کر لیا مگر چونکہ پادریوں کے لیے شادی کرنے کی اجازت نہیں تھی تو اس نے اس راہبہ کے پاس جاکر ایک من گھڑت کہانی سنائی اور کہا کہ مجھے رات خواب میں یہ بشارت ہوئی ہے کہ اگر ہم دونوں اس آنے والے ١٤/فروری کو ملیں تو یہ کوئی جرم و گناہ نہیں ہوگا، وہ عورت اس کے جھانسے میں آگئ اور چودہ فروری کو راہب و راہبہ دونوں متعینہ مقام پر آے اور شب باشی کی، مگر جیسے ہی یہ راز فاش ہوا تو اس کی قوم کے لوگ آگ بگولہ ہوگئے اور ان لوگوں نے اس راہب و راہبہ دونوں کو سر عام قتل کردیا. اسی دن سے اس راہب یعنی ویلٹئین کے نام سے منسوب کرکے اس دن کو عالمی محبت کے دن کے طور پر لوگ منانے لگے، پہلے تک تو یہ وبا عیسائی اور یہودیوں کے اندر تھی مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور لوگ اسلامی تعلیمات سے دور ہوتے چلے گئے اب یہ ہماری مسلم برادری میں بھی آگئ اور ہماری نئ نسل اس گندے و سزا والے دن کو یوم محبت و پیار کے طور پر منانے لگی،جس کے نتیجے میں اس دن ہزاروں، لاکھوں بچیوں کی عزت و عصمت بھی تار تار ہوئی اور ماں باپ کے تمام ارمانوں کا خون کردیا گیا.
میرے عزیزوں! اسلام قبل از نکاح عشق بازی کی کوئی اجازت نہیں دیتا اورمسلمانوں کو فحاشی کے قریب جانے سے بھی روکتاہے۔ چنانچہ ویلنٹائنز ڈے مطلقاً غیراسلامی عشق بازی پرمشتمل ہے ،اس لئے اس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ قرآن کہتاہے :’’زناکے قریب بھی نہ جاؤ ،بے شک یہ فحاشی کاکام ہے‘‘ ۔ جو لوگ ویلنٹائنز ڈے منا کر Datingکامزہ لیتے ہے ،اس دن محبت کے نام پر تحائف بانٹتے ہیں۔رقص و سرور کی مجلسیں سجاتے ہیں اور بدکاری کادروازہ کھولتے ہیں ،وہ کوئی محبت کا اظہار نہیں کرتے بلکہ دراصل بڑی ڈھٹائی سے اسلامی تہذیب کالبادہ اُتارکر شیطان کے مکروہ جال کے اسیر ہوجاتے ہیں ۔ قرآن کہتاہے :’’شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتاہے
اور بے
حیائی کے کاموں کی ترغیب دیتاہے ‘‘۔(سورۃ زمر)
٭ اسلام محبت کاسب سے زیادہ درس دینے والا دین ہے،اورشرعی حدود کی پابند محبت کوجنت میں جانے کاذریعہ بتاتاہے۔ (مسلم)۔مسلمان محبت اور محبت کے طریقے سکھانے کے لئے ویلنٹائن یاکسی دوسرے عیسائی پادری یا رومی مشرکین کے محتاج نہیں۔ہمارے لئے اللہ کے رسول ﷺ کی حیات طیبہ ہی بہترین اسوہ ٔ و قابلِ تقلید نمونہ ہے، بھلا جس مذہب کے ماننے والے کو مادر رحم سے لے کر قبر کی آغوش میں جانے تک زندگی کے ہر لمحے کے متعلق روشن اشارات موجود ہوں وہ کسی مغربی تہذیب کا محتاج کیوں کر ہوگا ۔مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ چھوڑ کر ایک کافر کا نقشہ قدم اختیار کریں۔
اسلام حیااورپاکدامنی کانام ہے اورویلنٹائن بے حیائی کاعالمی دن ہے ،اس لئے یہ اسلام کے سراسرمخالف ہے.
آج دھڑلے سے لوگ اس ویلینٹائن ڈے کے متعلق تحریریں لکھتے ہیں اور اس کی حیثیت یوں بیان کرتے ہیں جیسے اس میں کوئی برائی ہی نہ ہو، جب کہ جب سے اس کی ابتدا ہوئی ہے اس دم سے لے کر اب تک نہ جانے کتنی معصوم بچیوں کی عزت اس منحوس تہذیب کی نذر ہوچکی ہے، مگر افسوس اس کے باوجود بھی ہمیں اس حوالے سے کوئی فکر نہیں ہے.
اخیر میں تمام والدین سے گزارش ہے کہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اپنی اولاد کو اس مغربی و بے حیائی و فحاشی سے لبریز نحوست سے بچائیں اور ان پہ کڑی نظر رکھیں کہ وہ اس بے حیائی والے دن کہاں جاتی ہیں ، کس سے ملتی ہیں ، اور کیا کرتی ہیں ، کیوں کہ اگر آپ نے انہیں نہیں روکا اور منع نہیں کیا تو جتنا وبال ان کے سر ہوگا اتنا ہی اس کے ذمہ دار آپ بھی ہوں گے.
اگر اب بھی ہم اپنی بے راہ روی سے باز نہیں آئے تو یقین جانیں ہماری عظمت رفتہ کی بازیابی کا تصور تو دور ہم اپنے تشخص کو باقی نہیں رکھ سکیں گے.
کتنی شرم کی بات ہے کہ ایک مسلمان و صاحب ایمان جس کا کام ہی تھا دوسروں کو برائی سے روکنا، آج وہ خود اپنا نصب العین بھول کر، اپنے مقصد تخلیق کو فراموش کرکے ہر برائی و بے حیائی کے انجام دینے میں پیش پیش رہتا ہے. مسلمانوں!
اگر ہوا یہی رہی تو اے نقیب بہار
کہاں سے آئیں گی رعنائیاں چمن کےلیے