تحریر: ساجد محمود شیخ، میرا روڈ تھانے مہاراشٹرا
پچھلی تین دہائیوں سے یہ بات زیرِ بحث رہی ہے کہ بچہ کی بنیادی تعلیم یعنی پرائمری اسکول کی تعلیم کِس زبان میں ہو۔ یہ مسئلہ صرف مسلم طلباء یا ایسے بچوں کا نہیں ہے جن کی مادری زبان اُردو ہے بلکہ یہ ایک ایسا ہمہ گیر تعلیمی مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کا راست تعلق والدین اور بچوں سے ہے، چاہے ان مادری زبان کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ والدین اپنے بچوں کو انگریزی زبان کے ذریعہ تعلیم کہ اسکولوں تعلیم دلانے کو پسند کرتے ہیں اور انگریزی میڈیم اسکول کو اردو زبان یا مادری زبان کے اسکول پر فوقیت دیتے ہیں ۔ اس کی وجہ انگریزی زبان کی بین الاقوامی اہمیت کے ساتھ اعلیٰ فنی تعلیم کا مخزن بھی انگریزی زبان ہی ہے ۔ انگریزی زبان کی اہمیت سے انکار ناممکن ہے مگر یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ پرائمری تعلیم کِس زبان میں حاصل کی جائے۔
مادری زبان کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر محسن عثمانی رقمطراز ہیں "دنیا بھر کے ماہرینِ تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ بنیادی تعلیم مادری زبان میں دی جانی چاہئے۔دنیا کے ہر ملک میں مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانا ایک فطری اصول سمجھا گیا ہےاور غیر ملکی اور اجنبی اور غیر مادری زبان کے ذریعہ ابتدائی تعلیم کے حصول کو غیر فطری غیر ضروری قرار دیا گیا ہے۔اس وسیع عرصہ کائنات میں ہزاروں قومیں آباد ہیں ۔ایک قوم کی بھی نشاہدہی نہیں کی جا سکتی ہے جس نے غیر مادری زبان میں تعلیم کے ذریعہ ترقی اور عروج کی منزلیں کی ہوں ۔مسلمانوں نے تاریخ میں اپنے عروج کے زمانہ میں دنیا کی بہت سی قوموں کے علوم سیکھے تھے لیکن اس طرح نہیں کہ انہوں نے دوسری قوموں کی زبانوں کی درسگاہیں کھول لیں ہوں اور دوسری زبانوں کو اپنا ذریعہ تعلیم بنالیا ہو۔ آج بھی چین میں چینی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے” ۔
مادری زبان سے متعلق انعام اللّٰہ خان شیروانی لکھتے ہیں ” مادری زبان وہ زبان ہے جس سے انسان جذباتی طور پر منسلک ہوتا ہے یہ وہ زبان ہے کہ اگر کوئی شخص اس زبان کو چھوڑ کر کسی دوسری زبان کو مادری زبان بنالے تو اس صورت میں وہ اپنی طور پر تو زندہ رہ سکتا ہے مگر جزباتی لحاظ سے مفلوج ،بنجر اور سپاٹ ہو جائے گا” ( مادری زبان کی اہمیت،تدریس زبان اُردو، ناشر انجلی گھوش کلکتہ ص ۲۴)
ڈاکٹر حسن رضا مادری زبان کی اہمیت پر کہتے ہیں ” سند رہے کہ حافظہ اور یادداشت تک رسائی کے وسیلے سے ہوتی ہے اور یہ زبان یقیناً مادری زبان ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ شعور،تحت الشعور کا سفر کرنے والا انسان ذولسان ،سہ لسان یا ہمہ لسان ہو مگر اس کا یہ ذہنی سفر مادری زبان کی قیادت میں ہی ہوتا ہے کیونکہ مادری زبان انسان کی فطرت و جبلت کا جزوِ لاینفک ہوتی ہے ۔البتہ انسان مصلحتاً یا ضرورتاً مادری زبان کے علاوہ دوسری زبانوں کا بھی استعمال ترسیل و اظہار کے لئے کرتا ہے” ( لاشعور میں مادری زبان کی عمل داری،ماہنامہ اردو دنیا نئی دہلی جنوری ۲۰۱۳ صفحہ ۲۳)
سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین نے کہا تھا کہ بچہ مادری زبان ماں کے دودھ کے ساتھ پیتا ہے۔ بچہ ماں کی گود میں جو زبان سیکھتا ہے اسے مادری زبان کہتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق بچہ ماں کے پیٹ سے ہی سننے اور سمجھنے کے قابل بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچہ پیدا ہونے کے ایک آدھ سال کے بعد بڑی آسانی سے اپنی مادری زبان کے الفاظ دہرانے لگتا ہے۔ مادری زبان جو کہ بچہ اپنے گھر میں بچپن سے سنتا ہے اور وہ اس زبان کو پہلے پہل بولنا سیکھتا ہے اور یہ زبان بچے کو سکھائی نہیں جاتی بلکہ اس زبان کو بچہ اپنے ماں باپ بھائی بہن کی گفتگو کو سن کر خود ہی سیکھ جاتا ہے۔ بچہ آہستہ آہستہ اس زبان کو کو سیکھتا ہے اور اسی زبان میں سوچتا اور سمجھتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے جذبات اور خیالات اپنی مادری زبان میں ادا کرتا ہے ۔ بچہ کو ہر ماں اپنی زبان میں بات کرنا سکھاتی ہے۔اچھی اور بُری باتوں سے واقف کرواتی ہے۔ تہذیب اور اخلاق اسی زبان میں سکھائے جاتے ہیں۔ چونکہ مادری زبان بچہ ماں کے دودھ کے ساتھ ہی پی لیتا ہے،یہی وجہ ہے بچوں کو جب اِن کی مادری زبان میں کوئی بات سمجھائی یا پڑھائی جاتی ہے تو وہ آسانی سے سیکھ اور سمجھ لیتا ہے ہے،جبکہ دوسری زبان میں بڑی دقّت محسوس کرتا ہے ۔ یہ فطرت کی دین ہے ۔ ہربچہ مادری زبان جس تیزی کے ساتھ ابتدائی عمر میں سیکھتا ہے،باقی ساری عمر کوئی اور زبان اُس تیزی کے ساتھ نہیں سیکھ پاتا۔ ابتداء میں تو وہ چیزوں کو دیکھتا ہے اور پھر اُن کے نام سے واقف ہوتا ہے۔ اشیاء کا مشاہدہ اور زبان کی علامت اس نام کے ساتھ نہ صرف اس کی ماہیت بلکہ خصوصیت سے بھی واقف ہوجاتا ہے ۔ رفتہ رفتہ وہ غیر مشاہد باتوں کو بھی سمجھ جاتا ہے جن کا تعلق سماج میں اقدار تہذیب و روایات سے ہوتا ہے۔ سچ ،جھوٹ ،ہمدردی ،محبت دھوکہ وغیرہ ایسی باتیں ہیں جن کا تعلق لوگوں کے عمل سے ہوتا ہے۔ ان سارے مراحل کے طے کرنے میں بچہ کو بڑا ہونے تک کسی خاص پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور نہ ہی کوئی جدوجہد کرنی پڑتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے سارے ماہرینِ تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ بچہ کی تعلیم صرف مادری زبان میں ہونی چاہئے۔