تحریر: ظفر کبیر نگری
چھبرا، دھرم سنگھوا بازار، سنت کبیر نگر ،یوپی
خودکشی ایک غیرانسانی، مذہبی اقدار کے منافی، انتہا درجے کی بزدلی، دین و شریعت کا، انکار اور توکل علی اللہ کے خلاف عمل ہے، اسلام سمیت کوئی بھی مذہب خود کشی جیسے قبیح و حرام فعل کی قطعاً اجازت نہیں دیتا، بیماریوں، پریشانیوں اور آزمائشوں سے نجات کے لیے خودکشی کا راستہ اختیار کرنا انتہائی بڑی غلطی ہے، کیوں کہ اپنے ہاتھوں اپنی جان لینا اللہ رب العزت نے حرام کیا ہے، اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیح عمل پر سخت وعیدیں سنائی ہیں، اور پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے خودکشی کرنا عقلاً بھی غلط ہے، کیوں کہ دنیا کی پریشانی وقتی ہے جب کہ خودکشی کی صورت میں حاصل ہونے والی پریشانی دائمی ہے، لہذا مایوس ہو کر ایسے اقدام سے اپنے آپ کو بچا کر اپنا احتساب کرنا چاہیے کہ کس وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچی، وجہ سمجھ آنے کے بعد اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے، اسلام میں خود کشی کی اجازت نہیں، اور نہ ہی کوئی ایسی کوئی مثال ملتی ہے جہاں کسی سخت حالت میں بھی مرنے کی اجازت دی گئی ہو، شرعی نقطۂ نظر سے کسی بھی مرض کا علاج کرانا قرآن اور احادیث سے ثابت ہے، اگر کوئی مریض کسی ایسی حالت میں چلا جائے کہ اسے لگے کہ اس مرض سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں، تو اسے بھی خودکشی کی اجازت نہی دی جا سکتی، کیونکہ یہ اسلام میں جائز نہیں ہے، لہٰذا آخری دم تک جہاں تک ممکن ہو مریض کا علاج کرایا جائے اور اگر مرض لاعلاج ہے تو مریض کو اس کے حال پر چھوڑ دیاجائے، دیگر مذاہب میں دیکھیں تو عیسائی کیتھولک فرقے کے مطابق انسان کی زندگی اسکے خدا کی ملکیت ہےاور خودکشی کو زندگی کے خلاف جنگ اور خدا کے خلاف جنگ قرار دیا گیا ہے، بدھ مذہب میں خودکشی بدھ کی تعلیمات کے خلاف ہے، کیوں کہ کسی کی موت دوسروں کے لیے باعث غم ہوتی ہے، بدھ مت کے مطابق موت کسی بھی شخص کی مشکلات ختم نہیں کرتی، اسے لیے خودکشی میں کسی فرد کی مدد اس سے محبت نہیں بل کہ اس کے لیے نقصان دہ ہے، ہندوازم کے مطابق اپنے آپ کو مار نے کا گناہ کسی اور کو مارنے کے گناہ کے برابر ہے، کسی انسان کو زندگی کے خاتمے میں مدد دینا، چاہے وہ تکلیف میں ہی مبتلا کیوں نہ ہو غلط ہے کیوں کہ اس سے موت اور دوبارہ جنم کے گردشی وقت میں خلل پیدا ہوجاتا ہے،
در اصل ایسی صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب دل میں کسی خطرناک بیماری یا حالات کا خوف پیدا ہوجائے اور وہ خوف جسم کے اندر کسی بیماری کے نہ ہونے کے باوجود اسے تلاش کرنے پر مجبور کردے، مثلا آجکل نزلہ زکام یا کھانسی ہو جانے پر اسے انسان کرونا تصور کرنے لگتا ہے، اور یہ تصور بار بار دل و دماغ میں آنے کی وجہ سے پختہ یقین ہونے لگتا ہے کہ مجھے تو کرونا ہو ہی چکا ہے، یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے، یہ تصور اسی وقت دل میں بیٹھتا ہے جب آس پاس کوئی خطرناک بیماری پھیلی ہویا کوئی وبائی مرض پھیل چکا ہو یا پھیل رہا ہو، اور اس طرح کی نفسیاتی بیماری کا علاج کسی دوا سے ممکن نہیں بلکہ اس کا علاج ماہر نفسیات سے ہی کروانا چاہئے، اور ان حالات میں جو لوگ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں گے اور مصیبت میں صرف اللہ پر ہی تو کل رکھیں گے کہ ہماری جان و مال سب خدا کی امانت ہے، اسی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ تو انہیں خوشخبری دے دو کہ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایت ہو ں گی۔(البقرہ) اس آیت میں رجوع الی اللہ اور صبر کو خود کشی کے سد باب کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ خود کشی کے متبادل کے طور پر صبر کی بہترین مثال ہمیں حضرت ایوب علیہ السلام کے اسوہ مبارکہ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔
خودکشی کی بڑی وجہ ڈپریشن ہے جو خودکشی کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے، اور پھر ان کے اندر چڑچڑاپن آجاتا ہے، اور وہ تنہائی پسند ہوجاتے ہیں ، خوشی اور اچھے کاموں سے بھی دلچسپی نہیں رہتی، اس کے علاوہ بہت ساری معاشرتی تبدیلیاں، پیدا ہونے لگتی ہیں اور انسان ڈپریشن یا ذہنی دباؤ کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ منشیات کا استعمال کرنے لگتا ہے، خاندانی رویوں میں کمزوری آنے لگتی ہے، وائرس کی زد میں آنے سے پہلے انسان نفسیاتی اعتبار سے متاثر ہونے لگتا ہے، بیروزگاری کے بعد غیر یقینی کی صورتحال سے لے کر گھر پر پڑھائی تک اور پھر تنہائی، اکیلے پن سے لے کر تبدیل ہوچکی کام کی روٹین، گھریلو تشدد اور دوائیوں کے کثرت سے استعمال تک سب دراصل ذہنی مسائل اور صدمہ والی کیفیات کے اجزائے ترکیبی ہیں، اس ڈپر یشن سے لڑنے اور خودکشی سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ گھر کے لوگ ایسے شخص کو تنہا نہ چھوڑیں، ان کے ساتھ گفتگو بات چیت کریں، ان کو مشغول رکھنے کی کوشش کریں، ان کو کسی کونسلنگ سینٹر یا ماہر نفسیات کے پاس لے جائیں، اگر بچے ہوں تو والدین اپنے بچوں سے بات کریں، ان کی مشکلات کو سمجھیں اور ان کو یقین دلائیں کہ ان کی ہر مشکل میں وہ ان کے ساتھ ہیں۔ اگر ڈپریشن کی علامات بہت زیادہ ہوں تو ان کا علاج جلد سے جلد شروع کروائیں۔ اس میں کسی قسم کی شرم یا ہچکچاہٹ محسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔ نوجوانوں کو اپنی ذات سے ہمدردی کی تعلیم دینی چاہیے، یعنی خود سے محبت کرنا سکھانا چاہیے ، خود سے ہمدردی کو بنیاد بنا کر انسان تین اہم باتیں سیکھ سکتا ہے، احساس، انسانیت اور محبت، یوں اپنی جان لینے کے خیالات پر قابو پایا جا سکتا ہے