مقالہ نگار:۔ پروفیسر ڈاکٹر دلاور خان
ایک ایسی زبردست چشم کشا تحریر جس میں سلطنت عثمانیہ اور تحریک خلافت میں مولانااحمدرضاخانؒ اور علمائےاہل سنت وجماعت کے کردار پہ روشنی ڈالی گئی ہے۔اور اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخانؒ پر مولانا زاہد الرشیدی کےالزام کا جواب دیا گیا ہے۔ جو انہوں نے مولانا احمد رضا خان کی ذات پر شریف مکہ کی حمایت کےحوالے سےلگایا تھا۔
اس تحریر میں واضح کیا گیا ہےکہ مولانا احمد رضا خان ؒتحریک خلافت کےمخالف نہیں تھے، بلکہ اُس طریقہ کار کےمخالف تھےجواِس تحریک کے دوران اپنایا گیا۔ اسی لیےآپ ؒ نے 1920ء میں جماعت انصاراسلام کی داغ بیل ڈالی جس کا مقصد سلطنت عثمانیہ کی حمایت و امداد تھا۔
آپؒ نے مسلمانوں کو ترک بھائیوں کی مالی مدد کےلیے اُبھارا۔اور تحریک خلافت کےراہنماؤں کےاُس رویےکی اصول دین کی روشنی میں مخالفت کی ہندو مسلم اتحاد (محبت و دوستی)کے پردے میں مسلم قومیت اور اسلامی تشخص و شناخت کو مٹانے کے اپنائے گئے۔اُنہوں نے اس رویے کے اثرات و نقصانات سے بھی آگاہ گیا جس تائید آنے والے وقت نے کی ۔
آپ تمام اہل علم سےدرخواست ہےاس تحریرکو خود بھی پڑھیں اور دیگر دوستوں تک بھی پہنچائیں تاکہ اصل تاریخی حقائق سے اُنہیں بھی آشائی ہوسکے۔
ہم اِس مقالہ کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر دلاور خان صاحب کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور شکر گزار ہیں کہ اُنہوں اس اہم مقالہ کو سپرد قلم کرکے بہت سے اشکالات اور جھوٹے الزامات کا نہ صرف قلع قمع کیا بلکہ ناقابل تردید تاریخی حقائق بھی سامنے رکھے ہیں۔اِس اہم مقالے کو شائع کرنے پر ہم "ادارہ تحقیقات امام احمدرضا انٹرنیشنل” سب آفس سمندری کے روح ِ رواں جناب محمد شرافت علی قادری صاحب کوبھی مبارک باد پیش کرتے ہیں۔
✍️ محمد احمد طرازی