ازقلم : غلام مصطفی اسماعیلی میرانی
بلا ریب حصول علم شرافت وکرامت اور دارین میں سرخروی کا عظیم ذریعہ ہے، اور علم ہی انسان کودیگر مخلوقات کے مابین منفرد و ممتاز کرنے کا اساس و کلید اور علام الغیوب کی طرف سے عطا کردہ خلقی اور فطری برتری و بزرگی میں چار چاند لگانے کا اہم سبب ہی نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مقصدِ تخلیقِ انسانی تک رسائی علم ہی کے ذریعے ممکن ہے،
علم ہی کی بہ دولت انسانوں نے سنگلاخ وادیوں، چٹیل میدانوں اور زمینوں کو مَرغ زاری عطا کی ہے، اور آسمان کی بلندیوں اور وسعتوں کو چیرکر تحقیق وانکشاف کے نت نئے پرچم لہرائے ہیں؛ اختصار میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں رونما ہونے والے تمام محیرالعقول کارنامے علم ہی کی مرہون منت ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے ابتداء آفرینش ہی سے بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر ”اقرأ“ کے خدائی حکم سے جہالت کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں علم کی عظمت واہمیت کو جاگزیں کیا پھر معلم کائنات مختار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حصول علم کی تاکید فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا طلب العلم فريضة علي كل مسلم و مسلمة (طلب علم ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے.)
تعلیم نسواں کی اہمیت
حدیث مذکورہ میں پیغمبر اسلام نے خواتین کو شامل فرما کر ضرورت تعلیم نسواں کو واضح کردیا اس لئے کہ عورتیں ہی بہترین معاشرے کی تشکیل میں اساس و کلید ہوتی ہیں اور قوم کے نونہالوں کی صحیح نشوونما میں ان کی ماؤں ہی کا اہم رول ہوتا ہے؛ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ماں کی گود بچے کا پہلا مدرسہ ہے؛ پھر جب اسلام کی شہزادیاں زیور علم و عمل اور تربیت سے آراستہ ہوتی ہیں تو اپنے کوخ سے ایسی باکمال اولاد جنم دیتی ہیں، جن کی اطاعت گزاری، وفاشعاری، تحقیق و تدقیق اور تبحر علمی سے لاتعداد خرمن آباد ہوتے ہیں۔
اسی مقصد جمیل کی تکمیل فرمانے کیلیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عورتوں کی تعلیم کا اہتمام فرماتے ہوئے ان کی خواہش پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باضابطہ ان کے لیے ایک دن مقرر کردیا تھا،جیساکہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے: ”قَالَتْ النِّسَاءُ لِلنَّبِيّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ”غَلَبْنَٓ عَلَیکَ الرِّجَالُ، فَاجْعَلْ لَّنَا یَوْمًا مِنْ نَفْسِکَ، فَوَعَدَہُنَّ یَوْماً لَقِیَہُنَّ فِیْہِ، فَوَعَظَہُنَّ، وَأمَرَہُنَّ“
جس کا یہ ریزلٹ رہا کہ جماعتِ صحابیات میں بے شمار بلند پایہ اہل علم خواتین پیدا ہوئیں جن کے ذکر جمیل سے آج بھی تاریخ اسلام کے اوراق درخشاں وتاباں ہیں؛ چنانچہ یہ امر ۔مسلم ومحقق ہے کہ امہات المومنین میں حضرت عائشہ وحضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما فقہ وحدیث و تفسیر میں رتبہٴ بلند رکھنے کے ساتھ ساتھ تحقیق ودرایت کے میدان کی بھی شہہ سوار تھیں، حضرت ام سلمہ کی صاحبزادی زینب بنت ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہماجو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پروردہ تھیں، ان کے بارے میں تاریخ کا بیان ہے کہ:
”کَانَتْ أَفْقَہَ نَسَاءِ أہْلِ زَمَانِہَا“
حضرت ام الدردادء الکبری اعلیٰ درجے کی فقیہ اور عالمہ صحابیہ تھیں۔
پھر صحابیات تک ہی یہ زریں سلسلہ محدود نہ رہا؛ بلکہ تابعیات اور بعد کی خواتین کے زمانوں میں بھی ہمیں اس طبقے میں بڑی بڑی عالمہ، زاہدہ اور امت کی محسنہ وباکمال خواتین ملتی ہیں؛ چنانچہ مشہور تابعی، حدیث اور فن تعبیر الرؤیا کے مستند امام حضرت محمد بن سیرین کی بہن حفصہ رحمۃ اللہ علیہا نے صرف بارہ سال کی عمر میں قرآنِ کریم کو معانی و مفاہیم کے ساتھ حفظ کرلیا تھایہ فن تجوید وقرائت میں مقامِ امامت کو پہنچی ہوئی تھیں؛ یہی وجہ تھی حضرت ابن سیرین کو جب تجوید کے کسی مسئلے میں شبہ ہوتا، تو شاگردوں کو اپنی بہن سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتے۔