ازقلم: باقرحسین قادری انواری برکاتی
دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)
بلا شبہ اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے، اس نعمت پر جتنا بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے کم ہے، اولاد کی اگر قدر سمجھنی ہے تو اس سے سمجھیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اولاد سے نہیں نوازا یا اس سے پوچھیں جس کو اولاد سے نواز کر پھر محروم کر دیا- اولاد ماں باپ کے جگر کے ٹکڑے ہوتے ہیں انہیں پر گھرانہ،محلہ، شہر اور ملک و ملت کی بھلائی منحصر ہوتی ہے،اولادآنکھوں کے نور اور دل کے سرور ہوتے ہیں،اس لیے فطری طور پر ہر ماں باپ کی تمنا اور خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد کی بہتر سے بہتر تعلیم وتربیت ہو، اور یہ خواہش ہونی بھی چاہیے، کیونکہ والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت بہتر سے بہتر طریقے سے کریں، کیونکہ اگر آپ ایک درخت کی اچھی طرح سے دیکھ بھال کریں گے تو وہ بڑا ہو کر عمدہ اور اچھے پھل دےگا، اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ اگر آپ شیشے کے گلاس کو احتیاط سے رکھیں گے تو اس کے ذریعہ ٹھنڈا اور مز ہ دار شربت پی کر لذت محسوس کریں گے اور اگر آپ نے گلاس کو احتیاط سے نہیں رکھا تو وہ آپ کے لئے زخمی ہونے کا سبب بھی بن سکتا ہے یہی حال بچوں کی صحیح اور غلط تعلیم وتربیت کا ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں نیک اولاد کی خواہش رکھنے والے تو بہت ہیں بلکہ شاید ہر شخص ہی ہے لیکن اس کے لئے کوشش کرنے والے اور صحیح طریقے اور تربیت کے اصولوں پر عمل کر کے انہیں راہ راست پر لانے والے بہت کم ہیں، بلکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہےجو ایسا رویہ اور طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں جس سے اولاد کے سنورنے کے بجائے بگڑنے کی امید زیادہ ہوتی ہے مثلاً بعض لوگ ضرورت سے زیادہ اولاد سے لاڈ پیار کرتے ہیں اور اس لاڈ پیار میں ان کی اصلاح اور تربیت سے بلکل غافل ہو جاتے ہیں، بعض لوگ اپنے بچوں کو اسکولوں کے سپرد کر کے اپنی ذمہ داری بھول جاتے ہیں اور پھر یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ وہاں ان کو کیا پڑھایا جا رہا ہے، وہاں ان کی دینی و اخلاقی تربیت کا بھی اہتمام ہے یا نہیں؟ ان کو اللہ وہ رسول کا فرماں بردار بننے اور رہنے کی تلقین بھی کی جاتی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو ان کو اس پر دھیان دینے کی سخت ضرورت ہے-
یہ بات ہمارے دلوں پر نقش ہونی چاہیے کہ اولاد کو دین دار بنانے کے لئے سب سے پہلے ماں باپ کو دین دار بننا لازمی ہے، دور حاضر میں اکثر بے شعور ماں باپ کی اپنی اولاد کو دین دار دیکھنے خواہش تو ضرور ہوتی ہے لیکن وہ خود دین پر عمل کرنا پسند نہیں کرتے، اور نیک اعمال و افعال سے بالکل ہی دور رہتے ہیں، ان کی اپنی زندگی میں نہ حرام و حلال کی تمیز ہوتی ہے نہ نماز کی پابندی اور نہ پردہ کا اہتمام ہوتا ہے، نہ وہ سنتوں کی پابندی کرتے ہیں، پھر بھی ان کی چاہت ہوتی ہے کہ ان کی اولاد نیک اور صالح بن جائے، اس کے لئے وہ اپنے بچوں کو اچھے مدرسوں اور اسکولوں میں بھیجتے ہیں، با کمال اساتذہ کا انتظام کرتے ہیں، اور انہیں دینی محفلوں وغیرہ میں بھی بھیجتے ہیں،بلاشبہ یہ ساری چیزیں اچھی ہیں مگر بچے اساتذہ اور دینی محفلوں وغیرہ سے زیادہ اپنے ماں باپ اور گھریلو ماحول کو دیکھ کر اسی طرز پر زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں-
اولاد کی تربیت بہت ہی نازک اور دیر طلب کام ہے، اس میں سب سے پہلے ماں باپ کو خود دین دار بننا ضروری ہے، خاص طور پر گناہ کبیرہ، بے نمازی پن، بے پردگی، حرام کمائی، گانے بجانے، فلمیں دیکھنے، گالی گلوج، شراب نوشی اور فضول خرچیاں وغیرہ کر نے سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہوگا، کیونکہ بچوں کی سب سے بڑی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ وہ زبان سے کہنے کی صورت میں اتنا نہیں سیکھ پاتے جتنا عملی طور پر کر کے بتانے یا کرتے ہوئے دیکھنے کی شکل میں سیکھ جاتے ہیں، چنانچہ ماں باپ کے درمیان لڑائی جھگڑے، مار پیٹ، گالی گلوج، رشتے داروں کے ساتھ نا اتفاقی یا کسی قسم کے اخلاقی قدروں کو بچوں کے سامنے پامال کرنا بچوں کی تربیت کو تباہ وبرباد کر دیتا ہے-
گھروں میں عام طور پر ماں باپ اور گھر کے بڑے بزرگ کا جیسا مزاج اور رویہ ہوتا ہے اولاد بھی اسی مزاج اور نوعیت کی تربیت پاتی ہے۔
ماں باپ ہی اولاد کے لیے سب سے پہلا، سب سے اہم، سب سے بڑا اور سب سے ضروری مدرسہ ہیں، اور بچے ماں باپ کی نصیحتوں سے اتنا کبھی نہیں سیکھ پاتے جتنا ان کے کردار اور باہمی سلوک سے سیکھتے ہیں، کیونکہ بچوں کی تربیت میں والدین کا ہی کردار سب سے اہم ہوتا ہے، بچہ کم عمری میں اپنے اردگرد جو کچھ دیکھتا ہے اسے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے والدین کو اپنے طرز عمل میں بہت احتیاط برتنی چاہیے، ہر طرح کے نا پسندیدہ کاموں اور غیر اسلامی حرکتوں سے اجتناب اور پرییز کرتے ہوئے اسلامی اور اچھے اعمال و افعال کا مظاہرہ کرنا چاہیے-
اولاد کی تعلیم و تربیت سے بے توجہی: آج دنیا میں بہت سے لوگ ایسے پاۓ جاتے ہیں جنہیں خود اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کی بالکل ہی فکر نہیں ہے، وہ اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ نہ دےکر صرف اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور ان کی اولاد گلی کوچوں میں بھٹکتی پھرتی ہے،ایسے لوگ عموماً اپنے بچوں کے لئے روٹی کپڑا اور مکان کا انتظام تو کر دیتے ہیں لیکن ان کی باطنی پرورش یعنی اخلاقی تربیت کی طرف بالکل ہی توجہ نہیں دیتے بلکہ بعضوں کو تو یہ پتہ ہی نہیں کہ تربیت کیا چیز ہوتی ہے؟اور بچوں کو کیا سکھائیں اور کیا سمجھائیں ؟ اس بڑی غفلت کے وہ لوگ بھی شکار ہیں جو خود تو نمازی ہیں،اور کچھ اخلاقی آداب سے بھی واقف ہیں، پڑھے لکھے بھی ہیں، لیکن ملازمت یا تجارت میں اس طرح اپنے آپ کو پھنسا دیا ہے کہ بچوں کی طرف توجہ کرنے کے لئے ان کے پاس گویا وقت ہی نہیں ہے، حالانکہ زیادہ کمانے کی ضرورت اولاد ہی کے لئے ہوتی ہے، جب زیادہ کمانے کی وجہ سے خود اولاد ہی کے اعمال و اخلاق اور اس کے کردار کا خون ہو جائے تو ایسا کمانا کس کام کا ؟
بعض لوگ ایسے بھی ملتے ہیں جو اچھا خاصا علم بھی رکھتے ہیں، مصلح بھی ہیں، بلکہ مرشد بھی ہیں، دنیا بھر کے لوگوں کو راہ دکھاتے ہیں، سفر پر سفر کرتے رہتے ہیں، کبھی یہاں وعظ کی، کبھی وہاں تقریر کی، کبھی کوئی کتاب لکھی یا کوئی رسالہ ترتیب دیا، لیکن خود اپنی اولاد کی اصلاح سے غفلت برت رہے ہیں، حالانکہ اپنے گھر کی خبر لینا سب سے بڑی ذمہ داری ہے، اولاد کی جانب سے جب چند سال غفلت برت لیتے ہیں اور ان کی عمر دس سے بارہ سال ہو جاتی ہے تو اب ان کو صحیح راہ پر لگانا بہت مشکل ہو جاتا ہے، بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں توجہ تو ہے لیکن وہ اپنی اولاد کو حقیقی علم سے بالکل ہی محروم رکھتے ہیں، یعنی اپنی اولاد کو اسلام نہیں سکھاتے، بیس پچیس سال کی اولاد ہو جاتی ہے اور انہیں کلمہ تک یاد نہیں رہتا، یہ لوگ نہ نماز جانتے ہیں نہ اس کے فرائض و واجبات، اور نہ ہی اسلام کے بنیادی عقائد کی انہیں خبر ہوتی ہے، گویا وہ مبادیات اسلام و ضروریات اسلام سے بھی ناواقف ہوتے ہیں، اس بات کے جواب دہ ان کے ساتھ ان کے والدین بھی ہوں گے-
اور بعض والدین اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کا احساس تو رکھتے ہیں لیکن اسے معمولی بات سمجھتے ہیں، جب کہ یہ بہت ہی عظیم اور اہمیت کی حامل بات ہے، اور اس جانب والدین کی کم توجہی نا قابل تلافی نقصان کا ذریعہ بن رہی ہے، اور یہ نقصان دینی بھی ہے اور دنیاوی بھی، اور اگر والدین چاہیں تو ایک ذرا سی توجہ سے انقلابی تبدیلی اور بدلاؤ ظاہر ہو جائے گی(ان شاءاللہ)
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کتنے ہی والدین ایسے ہیں جنہیں دن رات اپنے بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت کی فکر تو دامن گیر رہتی ہے اور وہ اس کے لئے کئی طرح کی قربانیاں بھی دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ لوگوں کے علاوہ اکثر کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے آخر ایسا کیوں ؟ کیونکہ کہ وہ اپنی اولاد کی بہترین تعلیم وتربیت کے خواہش مند تو ہوتے ہیں لیکن اس نازک کام کے طریقوں و اصولوں سے ناواقف ہوتے ہیں اور مستقل مزاجی اور تسلسل سے یہ کام نہیں کرتے-
آئیے ہم بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت کے بارے میں کچھ اصول درج کرتے ہیں، اگر ہم نے ان کو اپنا کر اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کی جانب دھیان دیا تو ان شاءاللہ ہمارے بچے دین دار اور قوم وملت کے لئے نفع بخش ثابت ہوں گے-
بچوں کی صحیح تربیت کے لیے کچھ اہم امور و رہنما اصول:-
بچوں کی تعلیم کا ایک اہم دائرہ اس کی اچھی تربیت ہے،جو بچوں کو اپنے خاندان سے حاصل ہوتی ہے، اس تربیت کا سب سے اہم پہلو بچوں کے ساتھ والدین خاص طور پر ماں کے طرزِ عمل سے متعلق ہیں اس بارے میں کچھ اصولی باتیں درج کی جا رہی ہیں!
★بنیادی دینی تعلیم :- ابتدائی عمر ہی سے بچوں کو دین کی بنیادی تعلیمات سے واقف کرایا جائے، قرآن مجید کی تعلیم کا شعوری انتظام اور حلال و حرام کے احکامات سے واقفیت فراہم کی جائے، سات سال کی عمر سے نماز کا اور روزہ رکھنے کے قابل عمر کو پہنچنے پر روزے کا عادی بنایا جائے، بچوں کو بالکل ابتدا(شروعاتی دور) سے اللہ کا ڈر اور اس کے سامنے تمام کاموں (اعمال) کے لئے جواب دہ ہونے کا تصور پیدا کرنا اور انہیں یہ احساس جگانا ضروری ہے کہ اللہ ان کے کام کو ملاحظہ فرما رہا ہے-
★اخلاقی تربیت :- بچوں کو ابتدائی عمر سے اعلیٰ اخلاق کا عادی بنانے کی کوشش کی جائے کیونکہ بچپن کی عادتیں بڑے ہونے پر پختہ ہوتی ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ بچپن ہی سے انہیں سچائی ، امانتداری ، بہادری ، احسان شناسی ، بزرگوں کی عزت، پڑوسیوں سے بہتر سلوک، دوستوں کے حقوق کی پاسداری اور مستحق لوگوں کی مدد جیسے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل بنایا جائے، پھر انہیں برے اخلاق مثلاً جھوٹ، چوری، گالی گلوج اور بے راہ روی سے سختی سے بچایا جائے، شروعاتی عمر سے ہی محنت ومشقت کا عادی بنایا جائے اور عیش کوشی و آرام پسندی سے دور رکھا جائے-
★جسمانی تربیت:- والدین کی طرف سے بچوں کی جسمانی نشوونما غزا اور آرام کا خیال رکھا جائے، اور انہیں ورزش کا عادی بنایا جائے، جسمانی بیماریوں اور جائز ضروریات کو پورا کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے-
چار بنیادی باتیں جن سے والدین کے لئے پرہیز کرنا لازم ہے:-
(1) تحقیر آمیز سلوک:- بچوں کی اصلاح و تربیت میں عجلت اور جلدبازی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے صبر و استقامت کے ساتھ یہ کام کیا جائے، بچوں کی توہین و تحقیر کرنے سے گریز کیا جائے-
(2) سزا میں اعتدالی:- بالکل سزا نہ دینا اور بہت زیادہ سزا دینا یہ دونوں باتیں غلط ہیں، بچوں کے ساتھ محبت و شفقت اور نرمی کا برتاؤ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اور معقول حد تک سرزنش کا بھی ایک مقام ہے ان دونوں رویوں میں اعتدال لازم ہے-
(3) بےجا لاڈ پیار:- بچوں کی ہر خواہش کو پورا کرنا، غیر ضروری لاڈ پیار انہیں ضدی اور خود سر بناتا ہے اس میں بھی اعتدال نہایت ضروری ہے-
(4) بچوں کو ایک دوسرے پر ترجیح دینا:- ایک ہی گھر میں دو بچوں یا لڑکوں اور لڑکیوں میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا غیر اسلامی رویہ ہے، جس سے بہت سے بچے نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہو کر انتہاء پسندی اور انتقام پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں، ایسے مریضانہ رویے سے اجتناب لازم ہے-
ان اصولی باتوں کے علاوہ چند عملی اقدامات درج کر رہے ہیں، جن پر والدین آسانی سے عمل کر سکتے ہیں-
(1) اپنے خاندان میں بالخصوص بچوں کے ساتھ جہاں تک ہوسکے زیادہ وقت گزارا جائے، اپنی معاشی جدوجھد و دیگر مصروفیات کو اس طرح تربیت دیا جائے کی لازماً کچھ وقت اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارا جا سکے، بچوں کی تعلیم وتربیت ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری ہے، تربیت کا تمام تر بوجھ ماں پر ڈال دینا ایک نا مناسب اور غیر معقول طریقہ ہے، مدرسے میں بچوں کی مصروفیات، دوستوں کی صحبت وغیرہ سے واقفیت کے لئے ضروری ہے کہ والدین ان کے ساتھ روزآنہ کچھ نہ کچھ وقت گزاریں-
(2)بچوں کوسخت باشی، جد وجہد اور محنت کا عادی بنانے کے لئے انہیں ایک درمیانی معیار کی زندگی کا عادی بنایا جائے، تاکہ وہ ایک عام انسان جیسی پر مشقت زندگی کا تجربہ حاصل کر سکیں-
(3) اولا تو جیب خرچ دینے سے بچا جائے، اور بچوں کی ایسی ضروریات کو خود پورا کیا جائے، اور اگر بچوں کو جیب خرچ دیا جائے تو پھر اسے ڈسپلن کا پابند بنایا جائے، بچوں سے اس رقم کا حساب بھی پوچھا جائے تاکہ ان میں بچپن ہی سے کفایت شعاری بچت اور غیر ضروری اخراجات سے پرہیز کی عادت پروان چڑھے اور جواب دہی کا احساس پیدا ہو، والدین کی طرف سے اپنے بچوں کو آرام پہنچانے کی خواہش بجا ہے مگر ابتداء سے بغیر محنت کے آرام طلب بنانا ان کے مستقبل کے ساتھ سنگیں مزاق ثابت ہو سکتا ہے، اسی طرح ان کے کپڑوں اور جوتوں پر اخراجات میں اعتدال رکھنا ضروری ہے، کیونکہ تعلیمی اداروں میں مختلف معاشی و سماجی پس منظر رکھنے والے طلبہ وطالبات ہوتے ہیں، اس طرح ان میں غیر مطلوب مقابلہ آرائی کو روکا جا سکتا ہے-
(4)ابتداء ہی سے بچوں سے خود انحصاری یعنی "اپنی مدد آپ” کے اصول پر کام کرنے یعنی جوتے صاف کرنے، کمرے کو ترتیب دینے،اپناکپڑا خود دھونے اور بستر وغیرہ لگانے اوت کپڑے سمیٹنے وغیرہ کی عادت ڈالی جائے-
(5)والدین کا یہ فرض ہے کہ بچوں کو اپنے بزرگوں کی خدمت کی طرف متوجہ کرتے رہیں-مثلاً اپنے دادا دادی ودوسرے بزرگوں کی برابر خدمت کرتے رہیں-
(6)بچوں کی مصروفیات اور ان کے دوستوں و ملنے جلنے والوں کو جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ جرائم کا ارتکاب اور نشہ آور چیزوں کا استعمال عموما غلط صحبت کا نتیجہ ہوتا ہے اس لیے بچے کے دوستوں پر گہری نظر رکھنا والدین کی لازمی ذمہ داری ہے-
(7) بچوں کے سامنے مدرسے یا اساتذہ یا دوسرے عزیزوں کی برائی نہ کی جائے،اگر جائز شکایت ہو تو متعلقہ ذمہ داران سے گفتگو کی جائے، مگر بچوں کے سامنے کبھی ان کے اساتذہ کی تحقیر نہیں ہونی چاہیے، والدین اپنے بچوں کے اساتذہ کی عزت کریں گے تو بچے بھی اس کا اچھا اثر قبول کرینگے-
(8)اپنے بچوں کی غلطیوں اور جرائم کی صفائی نہیں پیش کرنی چاہیے، بچوں کو غلطی کا احساس دلانا اور حسبِ موقع تادیب انہیں اصلاح کا موقع فراہم کرےگی اور وہ عدل اور انصاف اور اعتدال کے تقاضوں سے واقف ہوں گے-
(9)بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کی جائے تاکہ ملک و ملت اور انسانیت کو ان کی ذات سے فائدہ ہو، موجودہ دور میں ہر شخص اپنے حقوق کے بارے میں بہت حساس ہے،مگر اپنے فرائض کی ادائیگی کے بارے میں انجان بن جاتا ہے اس رویّے کو تعلیمی عمل کے دوران ہی تبدیل کرنا ہوگا-
آخر میں اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں دعا ھیکہ اللہ وحدہ لا شریک ہمیں اپنے بچوں کی صحیح اسلامی تعلیم وتربیت دینے کی توفیق بخشے، تاکہ یہی ہمارے بچے کل بڑے ہو کر قوم وملت اور اپنے ملک کی خدمت کر سکیں اور نیک و صالح معاشرہ کو قائم کریں-آمین!