ازقلم: فھیم احمد ثقلینی ازھری
صدر مدرس: جامعة المصطفي ککرالہ
صدر: الثقلین فاؤنڈیشن، قصبہ ککرالہ ضلع بدایوں شریف۔
٢/ذوالحجہ ١٤٤٣ھ،بروز شنبہ
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں۔۔۔۔۔میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
٣٠/جون ٢٠٢٢ء بروز جمعرات اتر پردیش کے مشہورو معروف قدیم شہر "امروھہ” والدہ محترمہ کے علاج و معالجے کے سلسلے میں جانا ہوا۔
مؤرخین و محققین کے مطابق امروھہ کی قدامت ڈھائی ہزار سال ہے،علما و فضلا مشائخ و صوفیا اور دانشور حضرات کے علاوہ شہر امروھہ صدیوں سے حکما و اطبا کا مرکز و مخزن رہا ہے۔
اگر امروھہ کو ” مدینة الحکماکہاجائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ امروھہ کے بے شمار قدیم اور تجربے کار حکیموں میں ایک مشہور حکیم ،ڈاکٹرچندہ میاں مرحوم کا مطب بہی ہے خاصا بڑا ہے۔ تقریبا دو درجن لوگ یہاں ملازم ہیں۔ روزانہ ملک کے اطراف و اکناف سے پیلیا کے سینکڑوں مریض نہایت کمزور حالت میں گاڑی میں لیٹ کر رکشے میں گرپڑکر آتے ہیں اور ایک مہینے کی دوا سے شفا یاب ہوجاتے ہیں۔
امروھہ کی وجہ تسمیہ آم اور روہو مچھلی ہے۔ یعنی امروھہ آم اور روہو سے مشتق ہے کثرت استعمال سے امروھہ ہوگیاہے۔ اب تک ہمیں یہی معلوم تھا کہ امروھہ کے آم اور روہو مچھلی مشہور ہے مگر شومئ قسمت جب گھر سے نکلے تو بارش شروع ہوچکی تھی اور امروھہ تک بارش ہوتی رہی یہاں تک کہ جب امروھہ میں داخل ہوئے تو ہرچہارجانب تمام گلیوں میں تاحد نظر پانی ہی پانی تھا کہیں گھروں میں پانی بھرا ہوا تھا کہیں بائک اور فور وہیلر پانی میں پھنسی پڑی تھیں بے شمار گاڑیاں بند تھیں۔ ہم بھی بہت گھبرا رہےتھے مگر اللّٰه کے فضل و کرم سے کہیں گاڑی بند نہیں ہوئی۔
بے شمار لوگوں نے بتایا کہ امروھہ کی تیسری شہرت اور علامت بارش کے پانی کا بھرنا ہے۔ اسی پانی کی عکاسی کرتے ہوئے محترم انوار صمدانی صاحب نے اپنے اسٹیٹس پر یہ شعر لگایا ہے
کرنے والے کرتے ہوں گے بمبئی کے ساگر کی سیر
میرے امروھہ میں اس سے اچھا دریا بہتاہے۔
اللّٰه اللّٰه کرکے پانی عبور کیا اور منزل مقصود جامع مسجد کے پاس محلہ مولانا پہنچے۔
تقریبا پندرہ بیس سال قبل روزنامہ راشٹریہ سہارا میں ایک اشتہار نظر سے گزرا تھا کہ "ہم پرانی کتابیں خریدتے ہیں ” اسی وقت سے توفیق احمد قادری چشتی کا نام ذہن میں تھا۔ دو تین سال پہلے صوفیائے بدایوں کے تعلق سے ایک مخطوطے کا تعارف سہ ماہی فکروتحقیق میں نظر نواز ہوا جو امروھہ کے انوار صمدانی صاحب کا تھا۔ اسی وقت نمبر محفوظ کرلیا اور رابطہ کیا۔ اسی وقت سے صمدانی صاحب سے ملاقات کا ارادہ تھا۔ اس سفر میں والدہ ماجدہ، ہمشیرہ اور بردار اکبر ماسٹر نفیس احمد خاں کو اپنے ایک عزیز جناب افضال خاں صاحب کے گھر ٹھرایا اور اپنے بھانجے سہیل خان کے ساتھ انوار صمدانی صاحب کے دولت خانے پر پہنچا۔ واپسی کی وجہ سے وقت کی قلت دامن گیر تھی اس لئے تفصیل سے کتب خانہ نہ دیکھ سکا، دوا کے اگلے سفر میں فرصت سے کتب خانے کا معائنہ کرناہے۔
دوران گفتگو یہ بھی انکشاف ہوا کہ محترم بزرگ توفیق احمد قادری چشتی انوارصمدانی صاحب کے والد محترم تھے۔ جو تاج دار اہل سنت حضرت شیخ عبد الحمید محمد سالم قادری علیہ الرحمہ بدایوں شریف کے خصوصی متعلقین میں سے تھے انوارصمدانی صاحب بھی حضرت شیخ سالم علیہ الرحمہ کے خصوصی معتقدین میں سے اور شہید بغداد عالم ربانی علامہ شیخ اسید الحق قادری ازھری محدث بدایونی علیہ الرحمہ کے خصوصی احباب سے ہیں۔
محترم توفیق احمد قادری چشتی امروھوی مرحوم کا ذاتی کتب خانہ نادر و نایاب نسخوں اور مخطوطوں پر مشتمل ہے اس کتب خانے کی خصوصیات اور انفرادیت میں اپنے الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا
امروھہ کے نوجوان اسکالر ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی کی کتاب
” تواریخ امروھہ کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ” سے انوار صمدانی صاحب کے کتب خانے کا تعارف نذر قارئین ہے۔
مصباح صاحب ” امروھہ کے چند قیمتی ذاتی و عوامی کتب خانے” کے تعارف میں لکھتے ہیں۔
پانچواں عظیم ترین اور اپنی اہمیت و افادیت کے اعتبار سے سب سے عمدہ اور معیاری کتب خانہ محترم توفیق احمد قادری چشتی ساکن محلہ پچدرہ امروھہ کا ہے، جو تمام تر حوالا جاتی کتابوں پر مشتمل ہے، توفیق صاحب بنیادی طور پر کوئی ادیب و شاعر تو نہیں مگر کتابوں کے جوھری ہیں، مخطوطہ شناسی میں آج ہند و پاک بلکہ ایران و اصفہان میں ان کی جوٹ کا ملنا مشکل ہے،وہ مخطوطہ ہاتھ میں لےکر بتادیتے ہیں کہ کب کا ہے ؟ اس کا خط ، کاغذ اور روشنائی کس زمانے کی ہے؟
دیوان غالب کی دستیابی کے بعد سے تو وہ اردو ادب بالخصوص غالبیات میں زمانے بھر کی معروف شخصیات میں مشہور و معروف ہوگئے ہیں۔
بہرحال اس کتب خانے کی صحیح قدرومنزلت سے تو میں پوری طرح واقف نہیں ہوں کیوں کہ اس میں سینکڑوں کی تعداد میں نادر مخطوطات ، آؤٹ آف پرنٹ مطبوعات اور بہت سی خوبیوں سے مملو نادر و نایاب کتب یہاں موجود ہیں،بعض وہ مطبوعات بھی یہاں محفوظ ہیں جو اکثر سرکاری یا غیر سرکاری لائبریریوں میں نہیں ہوں گی، میری اس بات کی تائید صرف وہی محققین اور اسکالرس کرسکتےہیں جو کتاب کی اشاعت اول اور اشاعت دوم کا فرق جانتے ہیں، توفیق احمد قادری چشتی صاحب نے رضا لائبریری کے سابق او ایس ڈی ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی مرحوم کے ذریعے دسیوں کتابیں قیمتاً رضا لائبریری رامپور کو قیمتاً دی ہیں جو وہاں موجود نہیں تھیں۔
توفیق صاحب اصل میں کتابوں کا کاروبار بھی کرتے ہیں {امروھہ کے گزری بازار میں 1958ء میں نیشنل بک ڈپو قائم کیا تھا،جو اب بھی موجود ہے} اس بیچ جو معیاری اور قیمتی کتاب ان کے ہاتھ لگ جاتی ہے وہ اپنے کتب خانے کے لیے روک لیتے ہیں، توفیق صاحب کوئی سرمایہ دار نہیں بلکہ مالی اعتبار سے معمولی انسان ہیں، یہ کتابیں انھوں نے اپنا خون پسینہ بہا کر جمع کی ہیں "اپنی بہت سی ضروریات و خواہشات کا خون کرکے یہ خزانہ جمع کیا ہے”۔
مگر افسوس توفیق صاحب کے پاس اس عظیم و کثیر اور قیمتی سرمایے کو محفوظ رکھنے کے لیے جگہ نہیں ہے ، مکان کے ایک اوپری کمرے میں زیادہ تر کتابیں تلا اوپر رکھی ہیں اور مکان کی اکثر الماریوں میں کپڑوں اور برتنوں کی جگہ کتابیں بھری ہیں، احقر جب کسی کتاب کی تلاش میں توفیق صاحب کے گھر جاتاہے تو کتابیں چیخ چیخ کر پکارتی ہیں کہ اتنی محنت اور وقت صرف کرناہوگا میں فورا آپ کے پاس آجاؤں گی، اور آپ کے دیدہ و دل کو روشن کروں گی ۔
خدا بھلا کرے عزیز گرامی انوار صمدانی صاحب بن توفیق احمد قادری چشتی صاحب کا کہ وہ اس سلسلے میں میری بھرپور معاونت کرتے ہیں اور اپنے تجربے کی بنیاد پر جلد ہی کتاب تلاش کر میرے حوالے کردیتے ہیں انوار صمدانی جے ،این،یو دہلی سے فارسی میں ایم اے کیے ہوئے باذوق جوان ہیں، لکھنے پڑھنے کا اچھاذوق رکھتے ہیں، کئی اہم تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں اب والد کی جگہ اسی کتب خانے کی حفاظت اور نشر واشاعت میں مصروف ہیں، اور اپنے والد کے تجربات و تربیت سے فایدہ اٹھاکر مخطوطات، نایاب و کم یاب نسخوں نادر مطبوعات کے میدان میں نام کما رہے ہیں۔
بہر حال یہ کتب خانہ امروھہ کا سب سے الگ نوعیت کا کتب خانہ ہے، جہاں افسانہ ،شعری مجموعوں، ناولوں اور دیگر وقتی ادب کا گزر بہت کم بلکہ ناکی برابر ہے۔ مگر تاریخ ،تصوف،مذہب،تذکروں پر اتنا مواد یہاں موجود ہے جو دوسرے کسی کتب خانے میں ہوہی نہیں سکتا ۔میں ہمہ وقت دعاگو ہوں کہ اللّٰه رب العزت توفیق صاحب کو اتنی توفیق دے کہ وہ اپنی زندگی میں اس کی حفاظت کا صحیح بندوبست کردیں، ورنہ ہم جیسے بے سروساماں کو وقت وقت دہلی، علی گڑھ اور رامپور کا سردی گرمی برسات میں سفر کرناپڑےگا۔۔۔۔
صفحہ نمبر ١٢١،١٢٢…….
اِس دور قحط الرجال میں سب سے زیادہ تعجب خیز ، قابل ستائش بلکہ حیران کردینے والا معاملہ یہ ہے کہ جس طرح مرحوم توفیق صاحب قدیم کتب ، نادرونایاب مخطوطوں اور غیر مطبوعہ نسخوں کے شوقین تھے اسی طرح ان کے ولد سعید انوار صمدانی صاحب بھی باذوق پڑھے لکھے انسان ہیں اور صد فی صد اپنے والد کے پیشے اور مشن سے انصاف کررہے ہیں توفیق صاحب کی تربیت کا بھی اثر ہے اور صمدانی صاحب کی بھی اخاذ طبیعت کا بھی دخل ہے۔
یہاں پر یہ فیصلہ کرپانا مشکل ہے کہ بیٹے کی تعریف زیادہ کی جائے یا خلد آشیانی والد مرحوم کی۔
اس لیے کہ عصر حاضر میں اردو فارسی ادیبوں ، شاعروں ، پروفیسروں کی اولاد کو اردو میں دستخط کرنا بھی نہیں آتے ہیں اور نہ والد کی کتابی خزانے کی اھمیت معلوم ہوتی ہے ۔ اور کتابیں خردبرد ہوجاتی ہیں،اسی لیے اردو ادب آخری سانسیں لے رہاہے،
بلا مبالغہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ صمدانی صاحب جیسے کتب خانوں سے کئی کئی اضلاع محروم ہوں گے۔
قدیم کتب کی خریدوفروخت کے ساتھ ساتھ جدید کتابوں کا بھی اچھا کاروبار ہے، ہم نے بھی موقع غنیمت سمجھتے ہوئے اپنے پسندیدہ موضوع کے تعلق سے مندرجہ ذیل تاریخی کتابیں موصوف سے قیمتاً حاصل کیں۔۔
1 :- آئینہ عباسی ، مصنف مولوی حکیم محب علی خاں عباسی ،
تدوین ، ترجمہ، حواشی
ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی،
ناشر ڈاکٹر سراج الدین ھاشمی ۔
2 :- تحفة الانساب مسمی باسم تاریخی خـبــر قریش ١٤٢١ھ ،
مؤلف ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی امروہوی۔
{اس کتاب میں صدیقی ، فاروقی ، عثمانی ، علوی، عباسی ، جعفری ، انصاری ، مغل ، افغان ودیگر کا تذکرہ ہے}
3 :- قَـصَـصُ الْاَوَّلِـیْـنَ لِـمَـوْعِـظَـةِ الْآخِـرِیْن الــمــعـــروف بہ تاریخ امروھہ ، مؤلف محمود احمد الھاشمی العباسی ، مرتب و ناشر ڈاکٹر حکیم سراج الدین ہاشمی۔
4 :- تذکرہ علمائے امروھہ ، مؤلف ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی،
5 :- مشاہیر مومن انصار امروھہ ، بقلم محمد عارفین امروھہ
{اس کتاب صحیح النسب اور ثابت النسب انصار مدینہ کی اولاد اور نسل کا تذکرہ ہے}
6 :- تواریخ امروھہ کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ، ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی ۔
اور راقم سطور نے بھی مندرجہ ذیل مطبوعات انوار صمدانی صاحب کو تحفتاً پیش کیں۔
1 :- تذکرہ مشائخ قادریہ مجددیہ شرافتیہ ، مؤلف فھیم احمد ثقلینی،
مطبوعہ الثقلین فاؤنڈیشن ککرالہ۔
2 :- نصاب تعلیم و تربیت،
مرتب فھیم احمد ثقلینی،
مطبوعہ الثقلین فاؤنڈیشن ککرالہ۔
3 :- گلدستہ محمد شیر،
مصنف مولانا شاہ محمد بشیر میاں مجددی بریلی،
مرتب، فھیم احمد ثقلینی
مطبوعہ الثقلین فاؤنڈیشن ککرالہ۔
4 :- مرآة العارفین ،
مصنف منشی مقبول الرحمن بشیری پیلی بھیتی،
مرتب فھیم احمد ثقلینی
مطبوعہ الثقلین فاؤنڈیشن ککرالہ۔
5 مجدد الف ثانی ،حیات-خدمات- افکار،
مرتب مولانا انوار احمد شیری بہیڑی
مطبوعہ شاہ جی اکیڈمی بہیڑی ۔
6 :- مقام صحابہ
ترتیب جدید انوار احمد شیری
مطبوعہ شاہ جی اکیڈمی بہیڑی۔
7 :- کمالات نماز
مصنف بحرالعرفان مفتی آفاق احمد مجددی قنوج،
ناشر:- مولانا انوار احمد شیری،
مطبوعہ شاہ جی اکیڈمی بہیڑی۔
7 :- آئینہ تاج الاصفیا
مؤلف مولانا انوار احمد شیری
مطبوعہ شاہ جی اکیڈمی بہیڑی۔
8 :- انوار طیبہ {دیوان انوار}
شاعر و مرتب انوار بہیڑوی
مطبوعہ شاہ جی اکیڈمی بہیڑی۔
محترم صمدانی صاحب نے طبقات الاولیاء فی مدینة الاولياء کا بھی قلمی نسخہ دکھایا یہ بدایوں کے صوفیا کا ایک اہم قیمتی تذکرہ اور علمی سرمایہ ہے جو اب تک اہل بدایوں کی دست رس سے باہر ہے۔ جس کا تعارف مولانا ضیا علی خاں اشرفی بدایونی نے "مردان خدا ” کے مقدمے میں صفحہ نمبر ٣٨ پر ان الفاظ میں کرایا ہے ۔
"طبقات الاولیاء شیخ سعد اللہ بصیر ملتانی کی لکھی ہوئی کتاب ہے،ان کے بھائی شیخ کرامت اللہ بصیر نے اس کا تکملہ لکھا ہے اس لیے جامع بصیرین کے نام سے مشہور ہے اب تک غیر مطبوعہ ہے”
مفتی شمشاد حسین رضوی بدایونی نے اس کتاب کا تعارف اپنی کتاب آفتاب و ماہتاب میں اس طرح کرایا ہے۔ رقم۔طراز ہیں۔
” الباقیات الصالحات ہنوز پردہ خفا میں ہے اور یہ کتاب طبقات الاولیاء از شیخ سعد الدین بصیر ملتانی بدایونی کی شرح ہے، شارح کا نام مولوی عبدالوالی چشتی ہے ، یہ کتاب ١٢٦٢ھ میں لکھی گئی ہے نہ اصل کتاب دیکھنے کو ملی اور نہ ہی اس کی شرح ، الباقیات الصالحات طبقات الاولیاء ١١٦٠ھ میں لکھی گئی ہے۔
اس کے علاوہ بھی متعدد قلمی نسخوں مخطوطوں، نادر و نایاب کتابوں کی زیارت کی۔اب اگلے سفر میں زیادہ سے زیادہ وقت نکال کر صمدانی صاحب کے کتب خانے کو کھنگالنا ہے اور اپنے ذوق کے مطابق کچھ مال مسالہ نکالنا ہے۔