تنقید و تبصرہ

اظہار احمد مصباحی ازہری ثقافی جواب دیں!

ازقلم: محمد نعیم امجدی علیمی، بہرائچ شریف،یوپی

حامدا و مصليا و مسلما!

شوشل میڈیا پہ اظہار احمد مصباحی ازہری ثقافی، ریسرچ اسکالر جامعہ ازہر مصر کا ایک مضمون نظر سے گزرا۔ جس کی ہیڈنگ کچھ یوں تھی "مفتئ امجدیہ سے چند شرعی مواخذات” مضمون پڑھنے کے بعد یہ علم ہوا کہ یہ شرعی مواخذات نہیں بلکہ نفسانی مواخذات ہیں۔ جس میں بدیہی چیزوں کو نظری بنانے کی سعئ لا حاصل کرکے ان پردلائل کا بےجا مطالبہ کیا گیا ہے۔

سورج کی روشنی میں اندھا اگر نہ دیکھے
اس میں قصور کیا ہے بھلا آفتاب کا

خیر مواخذات کا جواب وہ دیں گے جن سے مطالبہ ہے۔ فی الوقت میں ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ چند سوالات، اظہار احمد ازہری سے کر لئے جائیں جو کہ مواخذات کو پڑھنے کے بعد ہی سے ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ وہ ضرور جواب دیں گے۔

(١)ابو میاں کے خلاف اہلسنت وجماعت کے معتبر ومستند متعدد مفتیان کرام کے فتاویٰ کا مجموعہ بنام "ابو میاں علمائے اہلسنت کی عدالت میں” شائع ہو چکا ۔ خصوصاً تلمیذ مجاہدملت ماہر ہفت لسان علامہ عاشق الرحمٰن حبیبی علیہ الرحمۃ والرضوان کی تصدیق سے مزین تکفیری فتویٰ منظر عام پر آ چکا۔ کیا آپ نے ان مفتیان کرام سے شرعی مواخذات کئے یا نہیں.؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اگر کئے تو تحریراً یا تقریراً، اگر تحریراً تو تحریر اور تقریرا تو کوئی ثبوت؟؟

(٢) ابو میاں کی گمراہیت کے سلسلے میں علمائے اہلسنت وجماعت کی تحقیقی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ جیسے مولانا راحت خان قادری کی کتاب "حجاب تصوف میں بھیانک چہرہ” اور طارق رضا نجمی کی کتاب "لباس خضر میں” یہ دونوں کتابیں 2016ء ہی میں شائع ہوچکی ہیں۔ اور سوشل میڈیا پہ بشکل پی ڈی ایف بھی دستیاب ہیں۔ اظہار ازہری صاحب آپ نے ان کتابوں کا مطالعہ کیا یا نہیں؟ اگر نہیں تو حلفیہ بیان دیں۔اورحلف نامہ بھی شائع کریں کہ میں نے مطالعہ نہیں کیا ہے۔تاکہ یہ کتابیں آپ کو فراہم کی جائیں۔ اور اگر مطالعہ کیا تو ان کے مصنفوں سے اسی طرح مواخذہ کیا یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اگر کیا تو ثبوت شرعی پیش کریں۔

نیز کیا آپ یا آپ کی جماعت کی طرف سے ان کتابوں کا کوئی جواب دیا گیا؟ اگر دیا گیا ہے تو سوشل میڈیا پہ جواب عام کریں۔

(٣) دار الافتاء جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی سے فتویٰ جاری ہوئے دو مہینے سے زائد کا عرصہ گزر چکا۔اب آپ نے شرعی مواخذہ کیا۔جبکہ مفتئ امجدیہ اگر شرعاً گرفت میں آرہے تھے تو بلا تاخیر مواخذہ کرنا چاہئے تھا۔اتنی تاخیر آپ نے کیوں کی؟
کیا اس تاخیر کی وجہ سے آپ خود شرعی گرفت میں نہ آئے؟

کسی کے حق میں حکم شرع بیان کرنے کے لئے کیا مفتی پر یہ لازم ہے کہ وہ شہادت شرعیہ حاصل کرے؟ اگر لازم ہے تو قاضی اور مفتی میں کیا فرق ہے؟ مفصل بیان کریں۔اور اگر لازم نہیں تو مفتئ امجدیہ سے یہ آپ کا مواخذہ، مواخذۂ شرعی ہے یامواخذۂ شرّی؟

(٤) اہلسنت وجماعت المعروف بہ مسلک اعلیٰ حضرت کے خلاف مسلسل ابو میاں کے ادارہ کے ماہنامہ ودیگر ذرائع سے زہر افشانی کی جارہی ہے۔تو کیا مسلک اعلیٰ حضرت کی مخالفت کرنا درست ہے؟
اگر درست ہے تو اپنے مسلک کی کامل وضاحت کریں۔ اگر درست نہیں تو اہلسنت وجماعت کے مسلمہ عقائد ونظریات کے خلاف خانقاہ عارفیہ سے تحریریں کیوں شائع ہورہی ہیں؟
آپ نے اب تک مواخذہ کیوں نہیں کیا؟

(٥)عرصۂ دراز پہلے جب ابو میاں کے احوال و افکار نمایاں وعیاں نہیں تھے۔ بہت سے علماء ان کی خانقاہ اور مدرسہ میں ان کی دعوت پر گئے۔اور انہوں نے ان کے بارے میں ان کی ظاہری وضع قطع اور سلوک سے متاثر ہوکر تاثراتی تحریر دیا مگر بعد میں جب راز کھلا تو علماء نے اپنے تاثرات سے رجوع کیا۔ان کے رجوع نامے سوشل میڈیا پہ پھیلے۔جناب اظہار ازہری صاحب ! آپ نے اس کا مطالعہ ضرور کیا ہوگا۔اگر نہیں تو حلفیہ بیان دیں۔آپ کے لئے رجوع نامہ کا عکس پیش کیا جائے گا۔
اگر ابو میاں واقعی اہلسنت وجماعت کا مبلغ اور داعی الی اللّٰہ ہے۔تو ان حضرات علمائے دین نے رجوع کیوں کیا؟
اور ان کے رجوع پر آپ نے مواخذہ کیا یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اگر کیا تو ثبوت دیں۔

(٦) آپ نے ابو میاں کے لئے مرشد العلماء، داعئ اسلام، عارف باللہ جیسے القابات لکھے۔
ابو میاں کے عارف باللہ ہونے پر آپ کے پاس کونسی نص شرعی موجود ہے؟
یا آپ کو کس عرفان کے تحت اس کے عارف باللہ ہونے کا علم ہوا؟ کیا ایسے باطل نظریات کے حاملین کو عارف باللہ کہنا از روئے شرع درست ہے؟

آپ اپنے مواخذات کے جوابات کے انتظار کرنے کے بجائے میرے سوالات کے جواب دیں۔ہمیں آپ سے زیادہ انتظار ہے۔ آپ کی طرف سے جواب نہ آنے پر ہم سمجھیں گے کہ آپ کے نزدیک بھی ابو میاں گمراہ،گمراہ گر ہے۔

اللّٰہ تعالیٰ اپنے حبیب پاک صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے صدقے ہمیں مسلک اعلیٰ حضرت پہ قائم رکھے اور متصوفین زمانہ کے شر سے بچائے۔آمین

٩،ربیع الثانی،١٤٤٣ھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے