از:محمد رضوان قادری
استاذ: مدرسہ نثارالعلوم شہزاد پور اکبر پور ضلع امبیڈ کر نگر یو۔پی۔
پیغمبر اسلام نبی آخر الزماں حضور رحمت عالم ﷺ اعلان نبوت سے تیرہ سال تک مکہ مکرمہ میں بے پناہ اذیتوں اور تکلیفوں کو برداشت کرتے ہوۓ دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیتے رہے۔اہل مکہ کو اللہ تعالٰی کی وحدانیت کا درس دیتے رہے اور بتوں کی پرستش چھوڑ کر صرف اللہ کی عبادت کی طرف بلاتے رہے۔اور اہل مکہ آپ پر اور آپ کے صحابہ پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑتے رہے،جن مظالم کی وجہ سے حضور ہادی عالم ﷺ نے صحابہ کرام کو پہلے حبشہ کی جانب پھر جب مدینہ میں اسلام کی روشنی پہنچی تو مدینہ کی جانب ہجرت کی اجازت دی۔لیکن آپ ﷺ اہل مدینہ کی فرماٸش کے باوجود مکہ میں مقیم رہے اور اذن الٰہی کا انتظار کرتے رہے ۔یہاں تک کہ دارالندوہ میں سرداران قریش نے جمع ہو کر حضور نبی رحمت ﷺ کے خلاف خفیہ میٹنگ کی اور آپ ﷺ کو شہید کرنے کاناپاک منصوبہ بنایا۔جس کا تذکرہ سورہ انفال میں یوں ہے:
”وَاِذیَمکُرُ بِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِیُثبِتُوکَ اَو یَقتُلُوکَ اَو یُخرِجُوکَ، وَیَمکُرُونَ وَیَمکُرُاللّٰہُ ،وَاللّٰہُ خَیرُ المٰکِرِینَ“[آیت نمبر 20]
اور اے محبوب!یادکرو جب کافر تمھارے ساتھ مکر کرتے تھے کہ تمھیں بند کر لیں یا شہید کر دیں یا نکال دیں ،اوروہ اپنا سا مکر کرتے تھے اور اللہ اپنی خفیہ تدبیر فرماتاتھا اور اللہ کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر۔[ کنزالایمان]
اللہ عزوجل کی خفیہ کی تدبیر کا ظہور یوں ہوا کہ بحکم الٰہی حضرت جبریل امین علیہ السلام نے حاضر خدمت ہو کر کفار کی سازش سے حضور ﷺ کو آگاہ کیا اور عرض کیا کہ حضور آج رات اپنی خواب گاہ میں نہ رہیں۔اللہ تعالی نے اجازت دی ہے مدینہ طیبہ کا عزم فرماٸیں۔
چنانچہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شہر مکہ کو جو آپ کا مولد ومسکن ،رب قدیر کی کثیر نشانیوں اورشعاٸر اسلام کا مرکز اور آپ کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قبلہ تھا،اشک بار آنکھوں کے ساتھ الوداع کہا اور یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو ساتھ لے کر مدینہ کی جانب ہجرت فرماٸی ۔اہل مدینہ نے آپ کا شاندار استقبال کیا ،مدینہ طیبہ کی ننھی ننھی بچیاں ”طَلَعَ البَدرُ عَلَینَا مِن ثَنِیَّاتِ الودَاعِ“ کا ترانہ گا رہی تھیں۔اہل مدینہ کی خوشیوں کا ٹھکانا نہ تھا،کہ آج برسوں کا ارمان پورا ہو رہاتھا ،رحمت عالم ﷺ ان میں تشریف فرما ہورہے تھے ۔اہل مدینہ نے اس دن سے زیادہ روشن دن نہ دیکھا۔ہر کوٸی مشتاق تھا کہ سرور کاٸنات ﷺ اس کے گھر رونق افروز ہوں ۔
مدینہ طیبہ کا ماحول مکہ شریف سے بالکل مختلف تھا ،یہاں عبادت الٰہی کے لیے امن وسکون تھا، دعوت وتبلیغ کی کھلی آزادی تھی۔مکہ کے مسلمان ہجرت کر کے مدینہ پہنچنے لگے،بلکہ استطاعت رکھنے والے مسلمانوں پر ہجرت کو فرض کردیا گیا۔گویا مدینہ شریف میں اسلام اور مسلمانوں کو ایک محفوظ مقام مل گیا اور پیغمبر اسلام ﷺ کو انصار صحابہ کی صورت میں جاں نثاروں کی ایک بہترین جماعت مل گئی۔اور انصار ومہاجرین کی دوہری قوت حاصل ہو گئی۔
چنانچہ مدینہ شریف میں اشاعت اسلام کا کام مکہ شریف کے مقابلہ میں تیزی کے ساتھ ہونے لگا۔مسجد نبوی شریف کی تعمیر ہوئی ۔پھر ایک وقت آیا کہ ظلم سہنے اور صبر کرنے والے مسلمانوں کو ظالم کافروں کے خلاف جہاد کی اجازت مل گئی۔اور ہجرت کے دوسرے سال جنگ بدر میں تین سو تیرہ مجاہدین اسلام نے ایک ہزار کفار مکہ کو شکست فاش دے کر تمام قبائل عرب میں اپنی ہیبت بٹھا دی، کفار مکہ کے بڑے بڑے سردار مارے گئے۔پھر جنگ احد وجنگ خندق ودیگر غزوات وسرایا میں مجاہدین اسلام دادشجاعت دیتے رہے اور اعلاے کلمةاللہ کے لیے اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ جہاد کرتے رہے ،یہاں تک کہ ہجرت کے صرف آٹھ سال بعد دس ہزار صحابہ کا لشکر جرّار لے کر حضور رحمت عالم ﷺ نے بغیر قتل وخوں ریزی کے مکہ فتح فرمالیا اور ”خلق عظیم“ کا مظاہرہ فرماتے ہوۓ اپنے سخت ترین دشمنوں کو بھی معاف فرمادیا ۔مکہ دارالاسلام قرار پایا اور اب مکہ سے ہجرت ممنوع ہوگئی۔لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے۔پھر دوسال بعد پیغمبر اسلام ﷺ نے ایک لاکھ سے زاٸد صحابہ کرام کے ہمراہ حجةالوداع فرمایا ،جس میں مسلمانوں کو رب ذو الجلال کی جانب سے ”اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دِینَکُم وَاَتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الاِسلَامَ دِینًا“ کا مژدہ عطا کیا گیا۔اور اسلام اللہ عزوجل کا پسندیدہ دین ہونے کے ساتھ دنیا کا سب سے غالب اور طاقت ور دین بن گیا۔اور عرب سے نکل کرآفاق عالم میں چھا گیا،اور جزیرہ عرب ایک اسلامی ریاست میں بدل گیا جس نے دنیا کی بڑی بڑی سلطنتوں کو اپنے پر امن نظام کی طرف دعوت دی ،جس نے دعوت پر لبیک کہا اسے گلے لگایا اور جس نے اس کی دعوت کو ٹھکرایا اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔
چونکہ اسلام کی عظیم شان وشوکت کا آغاز ہجرت مدینہ سے ہوا،اسی لیے خلافت فاروقی میں جب اسلامی کیلنڈر کے آغاز کے سلسلہ میں اکابر صحابہ کے درمیان مشورہ ہوا کہ اس کی ابتدا کب سے رکھی جاٸے؟ولادت مصطفی ﷺ سے یااعلان نبوت سے ؟تو حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجھہ کی راے پر یہ طے پایا کہ اسلامی کیلنڈر کو ہجرت رسول ﷺ سے منسوب کرتے ہوٸے ہجرت کے وقت سے اس کا شمار کیا جاٸے۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی تقویم کو ہجری سنہ سے تعبیر کیا جاتاہے۔
ہجرت اسلام کے افضل ترین اعمال سے ہے۔اور کیوں نہ ہو کہ عمل میں جتنی زیادہ مشقت ہوتی ہے اتنی زیادہ فضیلت ہوتی ہے،اور ہجرت میں گھر بار، وطن ،جاٸداد اور احباب واقارب کو چھوڑنا ہوتا ہے اور یہ نفس پر بہت زیادہ شاق ہے۔
لیکن یادرہے کہ فضیلت اس ہجرت کے لیے ہے جو دین وایمان
کی حفاظت ک
ے لیے ہو ،اللہ عز وجل اور پیارے رسول ﷺ کی خاطر ہو۔اور اگر ہجرت مال کمانے یا دوسری دنیاوی غرض کے لیے ہو تو وہ لاٸق فضیلت نہیں۔
حدیث شریف میں ہے:”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر انسان کے لیے وہی ہے جس کی وہ نیت کرے ،تو جس کی ہجرت اللہ و رسول کی جانب ہو ،اس کی ہجرت اللہ ورسول کی جانب ہے اور جس کی ہجرت دنیا کمانے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اسی کی جانب ہے جس کی خاطر ہجرت کی۔“
دین کی حفاظت اور اللہ عز وجل اور اس کے پیارے رسول ﷺ کی اطاعت کے لیے ہجرت کی ضرورت و اہميت کا بیان سورة النسا۶ کی آیت نمبر 97 تا 100 میں ہے جن کا ترجمہ پیش خدمت ہے
”وہ لوگ جن کی جان فرشتے نکالتے ہیں اس حال میں کہ وہ اپنے اوپر ظلم کرتے تھے ان سے فرشتے کہتے ہیں تم کاہے [کیسے عمل] میں تھے؟کہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور تھے ،کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے،تو ایسوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ پلٹنے کی۔مگر وہ جو دبا لیے گئے مرد اور عورتيں اور بچے جنھیں نہ کوئی تدبیر بن پڑے،نہ راستہ جانیں،تو قریب ہے اللہ ایسوں کو معاف فرمائے اور اللہ معاف فرمانے والا بخشنے والا ہے۔اور جو اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑ کر نکلے گا وہ زمین میں بہت جگہ اور گنجائش پائے گا، اورجو اپنے گھر سے نکلا اللہ ورسول کی طرف ہجرت کرتا پھر اسے موت نے آلیا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ پر ہو گیا،اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“[ترجمہ کنز الایمان]
آیت نمبر 97 کے تحت تفسیر خزاٸن العرفان میں ہے:”یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ جو شخص کسی شہر میں اپنے دین پر قائم نہ رہ سکتا ہو اور یہ جانے کہ دوسری جگہ جانے سے اپنے فرائض دینی ادا کر سکے گا اس پر ہجرت واجب ہو جاتی ہے۔حدیث میں ہے:جو شخص اپنے دین کی حفاظت کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوا اگرچہ ایک بالشت ہی کیوں نہ ہو اس کے لیے جنت واجب ہوئی اور اس کو حضرت ابراہیم اور سید عالم صلی اللہ علیہما وسلم کی رفاقت میسر ہو گی۔“
اللہ عزوجل اپنے پیارے محبوب ﷺ کے طفیل پورے عالم اسلام کے لیے نیا سال مبارک فرمائے ،اس کے خیر سے مالامال اور اس کے شر سے محفوظ فرمائے ، ہم سب کے دین و ایمان کی حفاظت فرمائے اور حضرت سیدنا امام حسین اور آپ کے رفقا رضوان اللہ علیہم کے صدقہ میں ہم سب کو اسلام کے تحفظ وبقا کی خاطر جان ومال کی قربانی کا جذبہ عطا فرمائے ۔