ازقلم : ڈاکٹر محمد فرقان رضا نوری بیسلپوری
اس وقت میرے مطالعہ کے میز پر ایک سریع القلم والبیان نوجوان کی کتاب فتاویٰ انوار مصطفے کا مسودہ تأثر کے لئے حاضر ہے، جو معصومانہ صفات کا حامل ہے، جو اخلاق و کردار کا دھنی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ میں ایک عظیم مفکر محرر مدرس و مفتی بھی ہے
پھر مجھے خیال آیا کہ کتاب پر تأثر رقم کرنے پہلے اس نوجوان پر کچھ لکھ ڈالوں
جسے دیکھ کر ایسا لگا کہ یہ کوئی جادو تو نہیں ……………..کیونکہ اس مقام و منزل تک پہنچنے کے لئے بڑے بڑوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ ان کاموں میں لگایا، تب جاکر اسطرح کے علمی خزائن کا ذخیرہ ہوسکا،
مجھے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ آج سے پانچ چھ سال پہلے ایک دبلا پتلا لڑکا جو ہماری درسگاہ کے بالکل سامنے ہی اپنی درسگاہ لگا کر طالبان علوم نبوت کے تشنگی کو دور کرنے کےلئے چوبیسوں گھنٹے کوشاں رہتا تھا،
درسگاہ ختم ہوتی….. اسی درسگاہ میں سوجاتا……..طلباء درسگاہ کے بعد بھی پیچھا نا چھوڑتے کوئی نا کوئی کتاب لے کر آ جاتا، وہ نوجوان اٹھ بیٹھتا،اس طالبعلم کے مسلۓ کو سنتا اس کا حل بتاتا،اس کا یہی معمول روزانہ کا تھا، مگر کبھی بھی اس کے ماتھے پر شکن کے آثار نمایاں نہیں ہوئے
ہمیشہ خوش و خرم رہنا اساتذہ کا احترام بجا لانا اس کی فطرت تھی، دور تعلیم سے لیکر دور تدریس تک کبھی بھی اس نے کوئی ایسا فعل انجام نا دیا جو معیوب سمجھا جائے، مگر اس کی ایک عادت بہت ہی بری تھی، وہ مزاجا عاشق تھا،،،، ،
چونک گئے آپ………………… . وہ مزاجا عاشق تو تھا مگر کتابوں کا…… اس کا روزانہ کا معمول تھا، جب چھٹی ہوتی، درسگاہ سے نکلتا درگاہ اعلی حضرت پر پہنچتا حاضری دیتا سامنے موجود مکتبہ سے کوئی نا کوئی کتاب ضرور خرید لاتا، اگلے ایک دو دن تک وہ کتاب یا رسالہ مطالعہ کے میز پر نا ہوکر دوسری کتاب ہوتی…..جب گھنٹیاں خالی ہوتیں ان گھنٹیوں میں دارالافتاء میں آئے ہوئے سوالات کے جوابات لکھتا……. اسی طرح دوسال کا عرصہ کیسے گذر گیا؟ کچھ پتہ ہی نہیں چلا ، اچانک ایک دن غالباً رجب المرجب کی 9 تاریخ رہی ہوگی……………….مجھ سے ملاقات کی غرض سے میرے آفس میں داخل ہوا، چہرے پر اداسی تھی، آنکھیں بھی نم تھیں، بال بکھرے ہوئے تھے، دبی آواز میں گویا ہوا، حضور کل میں لکھنؤ نکل رہا ہوں، میں نے دریافت کیا، کب تک واپسی ہوگی، وہ دبی زبان میں میں کہنے لگا، شاید اس منصب پر اب کبھی نہیں…………….. . میں کچھ سمجھا نہیں……. وہ کہنے لگا کہ دل تو اس کی اجازت نہیں دیتا کہ دیار اعلی حضرت کو خیرآباد کہوں، کیا کروں والد محترم کا حکم ہے جس کی بنیاد پر جانا بھی ضروری ہے میں نے بہت کوشش کی کہ وہ رک جائے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اللہ نے اس نوجوان متحرک عالم دین کی روزی بریلی سے لکھنؤ منتقل فرمادیا تھا
میں بات کر رہا ہوں سکون قلب و جگر عزیزم مولانا مفتی غلام آسی مونس پورنوی کی
مفتی غلام آسی مونس پورنوی 4/اگست 1995 میں شہر لکھنؤ کے علاقہ نخاس بشیرت گنج میں پیدا ہوئے، کیونکہ والد گرامی قائد ملت حضرت مولانا عبدالمتین قادری صاحب حفظہ اللہ اس وقت دارالعلوم فرقانیہ میں پڑھاتے تھے، اسی لئے والدہ بھی یہیں رہتی تھی
پہلی اولاد کی آمد نے گھر کے صحن کو خوشگوار ومشکبار موسم عطا کردیا تھا
ولادت کے ایک مہینے بعد والدین نے ننھے بچے کو اپنے وطن لے چلنے کا ارادہ کیا، کچھ ہی دنوں میں اپنے وطن اصلی کی آب و ہوا میں ننھے کی کلکاریوں نے ایک عجیب سماں پیدا کردیا، ننیہال و ددیہال میں اکلوتے ہونے کی بنیاد پر سبھی کی محبتیں اس پر نثار ہوتیں، سبھی اس کی بلائیں لے کر محبت کا نذرانہ پیش کرتے،
گاؤں کے سبھی ہندو مسلم اس بچے کو دیکھنے کے لئے آتے اور والدین کو مبارکباد دیتے، اور چلے جاتے اسی مابین چھ مہینے کا عرصہ گذرگیا، والد ماجد نے بہت دھوم دھام کے ساتھ عقیقہ کیا،
کون جانتا تھا کہ ایک دن یہی بچہ اپنے وقت کا بہترین محقق و مصنف و مفتی بنے گا، جن کے علمی دھاروں سے بندگان خدا جو شکوک وشبہات و اوہام کی وادیوں میں بھٹک رہے ہیں انہیں سبیل منزل نظر آئے
مفتی غلام آسی پورنوی کی عمر جب چار سال کی ہوئی تو بڑے ابا منشی عبدالقدوس مرحوم نے مدرسہ زینت الاسلام ہرن توڑ ہی میں داخلہ کرادیا، وہاں قاعدہ و قرآن پاک اور فارسی کی ایک دو کتابیں اپنے بڑے ابا ہی سے پڑھیں،………… پھر تقریباً سن 2000 میں دارالعلوم فیاض المسلمین بائسی میں آپ کا داخلہ ہوا وہاں رہکر آپنے ، ہدایۃ النحو، گلستاں، بوستاں، مولانا مظاہر حسین اور منشی ظہیر صاحبان سے پڑھیں، پھر سن 2002 میں اپنے والد کے ساتھ لکھنؤ چلے آئے، والد گرامی نے آپ کا داخلہ جامعہ مخدومیہ ردولی شریف میں کروادیا 3سال وہاں رہکر اکتساب کیا پھر 2006 میں جامعہ ربانیہ باندہ چلے آئے باندہ میں تین سال رہے اور علم دین کے جام سے سیرابی حاصل کی، اسکے بعد والد محترم کے حکم پر دارالعلوم وارثیہ لکھنؤ میں داخلہ لیا، اور ایک سال یہاں رہے، جب پیاس اور بڑھی تو شہر محبت کا رخ کیا، اور مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا میں داخلہ لیا…………3 /سال وہاں رہ کر اپنی علمی پیاس بجھائی، بعدہ جامعہ رضویہ مظہر اسلام سے افتاء کیا اور یہیں مدرس ہوگئے،، اور فی الحال مرکز اہل سنت دارالعلوم انوار مصطفیٰ رمضان نگر تیلی باغ لکھنؤ کے نائب مہتمم اور مفتی ہیں، موصوف کو شروع سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق ہے، سستی نام کی کوئی چیز ان کے اندر نہیں،
مضمون نگاری شعر گوئی کا فن ایسا لگتا ہے کہ ان کے چوکھٹ کا دربان ہو، فتاویٰ تحریر کرنے کا انداز بالکل اکابرین کا سا، فتویٰ دلائل و براہین سے پر، ایک قول پر دلیلوں کا انبار لگانا مفتی غلام آسی کا طرۂ امتیاز ہے
کون جانتا تھا کہ وہ لڑکا جس عمر ابھی 26 ،27، سال ہی ہے اتنی کم عمری میں ایک درجن کتابوں کا مصنف ہوجائے گا، سو سے زائد مقالوں کے خالق کی حیثیت سے دنیا اسے پہچانے گی، اور اتنی قلیل مدت میں اتنی شہرت حاصل کرکے اپنے اور اپنے صوبے اور ملک کا نام پوری دنیا میں روشن کرے گا
یقیناً یہ اساتذہ و والدین اعزا واقرباء کی دعاؤں کا ہی ثمرہ ہے ورنہ جس عمر میں بچے سیر و تفریح کرتے ہیں اس عمر میں اتنی ترقی ہرگز ممکن نہیں
آئیے ایک نظر مفتی غلام آسی مونس پورنوی کی تصانیف پر بھی ڈال لیں
مفتی صاحب کی کتب مطبوعہ
فتاویٰ انوار مصطفے مکمل
جس میں تین ہزار سے زائد فتاؤوں کا جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں موجود ہے جو ابھی پریس کے مراحل میں جو ان شاء اللہ تین جلدوں میں بہت جلد قارئین کے مطالعے کے میز ہوگی پر ہوگی،
فیوض خیر الانام فی توضیح علی ارکان الاسلام
اس کتاب میں مفتی صاحب نے حدیث بنی الاسلام علی خمس کی تشریحات و توضیحات کو شامل کرکے ایک مدلل بحث کی ہے جو 142 صفحات پر پھیلا ہے
فضل متین فی مسائل تجہیز و تدفین
اس کتاب میں مفتی صاحب نے مسائل کفن دفن کو یکجا کرکے، قرآن و احادیث، و آثار صحابہ واقوال ائمہ سے کتاب کو مبرہن کیا ہے جو 108 صفحات پر مشتمل ہے
تخیل
یہ مفتی صاحب کا غزلیہ مجموعہ ہے جس میں تقریباً ڈیڑھ سو عزلیں شامل ہیں اس کتاب کی خاصیت یہ کہ اس میں شامل تمام کلام اپنی الگ نوعیت رکھتا ہے اور نئے اور نایاب قوافی کے تعین نے اس کتاب میں چار چاند لگا دیئے ہیں
ضرب رحمانی برفتنۂ قادیانی
تیلی باغ لکھنؤ میں جب قادیانیوں نے اپنے ہاتھ پیر پسارنے کی کوشش کی اور قادیانیوں نے کئی سوالات کئے، انہیں سوالات کے جوابات کے ساتھ مفتی صاحب نے یہ رسالہ تحریر کیا، اور ان کے تابوت میں یہ رسالہ آخری کیل ثابت ہوئی، اور اس کا اثر ایسا ہوا کہ علاقے سے قادیانیت نیست و نابود ہوگئی
یہ کتاب 108 صفحات پر مشتمل ہے
نقد ونظر
یہ فن تنقید پر مفتی صاحب ایک عظیم الشان تحریر ہے جسے کافی مقبولیت حاصل ہوئی اور دوسالوں میں اس کے کئی ایڈیشن چھپ کر قارئین سے خراج تحسین حاصل کیا، اس کتاب میں خاص کر ان شعراء کی خبر لی گئی ہے جو اپنے وقت کے اساتذہ شمار کئے جاتے ہیں، مگر انہوں نے اعلی حضرت کی شاعری کو نا سمجھتے ہوئے نشانا بنایا مفتی صاحب نے اس کتاب کے ذریعے ان شعراء کے کلام کے ذریعے ہی ان کا میجر آپریشن کیا ہے اور انہیں یہ بتایا ہے کہ
ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیئے ہیں
کہرام در تردید حکم اذن عام
کرونا کال میں جب بہت سے لوگوں نے مسجد کا دروازہ بند کرکے نماز جمعہ کے لئے حکم اذن عام صادر فرمایا جو حقیقت میں اذن عام نہیں
اس کی تردید میں مفتی صاحب نے حکم شرعی کی حقیقت سے عوام و خواص کو روشناس کرایا ، یہ کتاب 84 صفحات پر مشتمل ہے
مفتی صاحب کی کتب غیر مطبوعہ
کتب غیر مطبوعہ
مینارۂ علم
اس کتاب میں مفتی صاحب نے شہزادہ اعلی حضرت امام اہل سنت سرکار مفتیٔ اعظم کے فیض یافتگان کے تذکروں کو شامل کیا جو کسی وجہ سے گمنامیوں کے دلدل میں پھنسے ہیں، یہ کتاب 124 صفحات پر مشتمل ہے
توضیحات رسم المفتی
یہ افتاء میں پڑھائی جانے والی کتاب رسم المفتی کی وضاحت ہے، کٹھن مقامات پر مفتی صاحب نے حاشیہ تحریر فرمایا، یہ کتاب تقریباً ڈھائی، تین سو صفحات پر مشتمل ہوگی
امام احمد رضا کی مثالی شاعری
اس کتاب میں مفتی صاحب نے اعلی حضرت کی فن شاعری سے عوام خواص کو روشناس کرایا ہے، یہ کتاب 48 صفحات پر مشتمل ہے
مقالات آسی
اس کتاب میں مفتی صاحب نے اپنے تمام مقالات کو یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے، اس کتاب کی ابھی تک ٹائپنگ شروع نہیں ہوئی
اکابرین سے ہماری ملاقات
اس کتاب میں مفتی صاحب نے اپنے اکابرین سے ملاقات اور ان سے دریافت کئے گئے سوالات کے جوابات کو یکجا ہے، اس کتاب کی بھی ٹائپنگ ابھی شروع نہیں
ان کے علاوہ مفتی غلام آسی نے بہت ایسے کارہائے نمایاں انجام دئیے جس کو آب زر سے لکھنے کے قابل ہے،
اخیر میں دعا گو ہوں کہ مولی تعالیٰ میرے علمی وفکری وارث کو سلامت رکھے اور ان سے دین متین کی بے حساب خدمت جلیلہ مقبولہ لے، آمین ثم آمین
فضل خدا سے اور بھی مظبوط ہو قلم
اٹھا ہے ایک نو جواں لوح وقلم لئے