ازقلم : انصار احمد مصباحی
کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ آخر کار امریکہ افغانستان میں جنگ ہار گیا، طالبان جیت گئے۔ جس طرح طالبان صوبائی شہروں پر مسلسل اپنا قبضہ جما رہے تھے، دیکھ کر دنیا حیران تھی؛ لیکن کابل کے تعلق سے ابھی تک یہی طنز کیا جا رہا تھا کہ ”ہنوز کابل دور است“ ۔ کابل کی تہذیب، یہاں کی آبادی، رہن سہن اور کنٹرول دوسرے افغانی شہروں سے بہت مختلف ہے۔افغانستان کا کابل ، بھارت کا ممبئی ہے۔ لیکن افغانی تو سر پہ کفن باندھ کر، علم فتح بلند کرنے کا عزم لے کر نکل گئے تھے۔ نہ خون بہا، نہ بستیاں جلیں، نہ جانیں گئیں اور کابل فتح ہو گیا۔ کابل پر افغانی جھنڈا در اصل امریکہ کی پیشانی پر آخری کیل تھی۔
اب امریکی تلملا اٹھے ہیں۔ وہ امریکہ جو خود کو سپر پاور کہتا تھا، آج انھیں افغانستان سے بھاگنے تک کا راستہ نہیں مل رہا ہے۔ خبر کے مطابق کئی امریکی جگہ نہ ملنے پر جہاز کے پہیوں سے لٹک گئے، ایسے حادثوں میں تین لوگوں کی موت ہو گئی ہے۔
دیکھا جائے تو اس جنگ میں امریکہ سراپا خسارے میں ہے۔ امریکہ نے ٹینکر چلوایا، راکٹ حملے کیے، بستیاں جلوائیں، بوڑھو اور بچوں کو عمارتوں کے ملبوں میں زندہ دفن کیا، خون کی ندیاں بہائی، اربوں اور کھربوں کا خرچا کیا، دنیا پر مہنگائی کا منحوس بادل کا سایہ ڈال دیا، فوجیوں کی جانیں گنوائی؛ نتیجے میں اسے کیا ملا؟ فرار، شکست اور ہزیمت ! امریکہ کو سمجھ آنا چاہیے کہ جنگیں طاقت اور پیسوں سے نہیں جیتی جاتیں، ہمت ، حوصلے اور مقصد سے جیتی جاتیں ہیں۔
جتنے افغانی بوڑھے ، بچے، جوان اور عورتیں مارے گئے تھے، وہ شہید کہلائیں گے؛ لیکن اس بیس سالہ جنگ میں امریکہ کو جو مالی نقصان ہوا، اس سے وہ زندگی بھر ابھر نہیں پائے گا۔ سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کھلے لفظوں کہ دیا کہ ” کابل پر طالبان کا قبضہ، امریکی تاریخ میں سب سے بڑی شکست ہے“۔ امریکہ کو وہائٹ ہاؤس پر اردو کا یہ مصرع لکھوا لینا چاہیے! ؏
لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی
تاریخ گواہ ہے۔ جنگیں ہمیشہ جیتنے کے لئے لڑی جاتیں ہیں؛ لیکن امریکہ دنیا کی وہ احمق ترین قوم ہے، جس نے جب بھی اور جہاں بھی جنگ چھیڑا، اسے ہار کا منہ دیکھنا پڑا۔ وہ جنگ تو ہار جاتا ہے۔ بدلے کے لئے شازشیں کرکے ان ملکوں میں خانہ جنگی پیدا کر دیتا ہے۔
یہ قصہ شکست و ریخت ہمیں بتاتا ہے، دنیا میں کوئی سوپر پاور نہیں۔ زمین کا مالک وہی ہے۔ وہی فرماتا ہے:
تلك الايام نداولها بين الناس (القرآن)