ازقلم: محمود رضا قادری
متعلم جماعت خامسہ، دارالعوام حسینیہ دیوان بازار، گورکھپور
اللہ تبارک وتعالی جس طرح اپنی نسبت شرک کو کسی صورت میں گوارہ نہیں کرتا اور اس گناہ و جرم کے مرتکب کو کبھی بھی معاف نہیں فرماتا اسی طرح اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی و گستاخی اور اہانت و تحقیر کرنے والے کا وجود بھی کائنات ارضی پر برداشت نہیں کرتا تاآنکہ صفحہ ہستی سے اس کا نام و نشان مٹا دیتا ہے علاوہ ازیں اسے ہمیشہ کے لیے ملعون و مردود قرار دیتا ہے-
قرآن حکیم میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ۔
مَلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْا اُخِذُوْ وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلاً• (سورہ احزاب، پ، 22)
ترجمہ:- پھٹکارے ہوئے جہاں پائے جائیں پکڑے جائیں اور جان سے ذلت کی موت مارے جائیں
یعنی یہ وہ بدکردار اور بدصورت لوگ ہیں جو میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دیتے ہیں اس کی وجہ سے اللہ کے فضل و کرم سے لطف عنایت اور رحمت سے محروم کر دیے گئے ہیں ہر طرف سے دھتکارے ہوئے اور راندہ درگاہ ہیں کیونکہ یہ اہانت گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اصرار کرتے ہیں ۔سو ایسے حرما نصیبوں کیلیے روئے کائنات پر ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہیں ۔
اس لیے اے امت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے افراد تم انہیں جہاں اور جس وقت بھی پاو وہیں ان کا سر تن سے جدا کرو اور انہیں چن چن کر قتل کرو
اس آیت کریمہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والوں کے لیے عذاب مہین کا معنی متعین کر دیا ہے کہ ایسے بے ادب کو قتل کر دینے سے ہی تعذب واہانت کے معنی کامل اطلاق میسر آسکتا ہے۔
علاوہ ازیں مذکورہ آیت کریمہ قتلوا تقتیلا؛ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں کلام عرب میں جب یہ فعل کے ساتھ اس کا مصدر ذکر کردیا جائے تو اسے مفعول مطلق کہتے ہیں اس کی وجہ سے کلام میں تاکید پیدا ہو جاتی ہے۔
تو بعینیہ اسی طرح فرمایا جا رہا ہے،
قتلوا تقتیلا (سورہ احزاب، 22). ترجمہ، انہیں چن چن کر اس طرح قتل کردو جس طرح قتل کرنے کا حق ہے
گستاخ رسول کا خاتمہ سنت الہیہ ہے
ابتدائے آفرینش سے ہی نیکی و بدی، خیر و شر کا تصادم جاری و ساری ہے باطل نے ہر موقع پر حق کو دبانے وکچلنے اور مٹانے کی سعی لاحاصل کی گھٹیا سے گھٹیا تر طریقے بھی اختیار کیے لیکن حق کا پرچم ہمیشہ سربلند ہوتا رہا۔
انبیاء علیہم السلام دعوت حق پہچانے کا فریضہ بحسن و خوبی ہر دور میں ادا کرتے رہے باطل قوتیں ہمیشہ مزاحمت کرتی رہیں ۔
انبیاء علیہم السلام کو راہ حق سے ہٹانے کیلیے کردار کشی کا ہتھیار بھی استعمال کرتے رہے ہر نوعیت کی اذیت و تکلیف اور سازشی منصوبہ بندی میں مصروف کار رہے مگر ہر چال چلنے کے باوجود بھی ناکامی ہی ان کامقدر بنی رہی۔
امم سابقہ میں سے جب بھی کسی نے انبیاء علیہم السلام کی شان اقدس میں گستاخی و اہانت کا ارتکاب کیا تو اللہ تعالی نے اسے دنیا میں ہی نہ صرف ذلیل اور رسوا کیا بلکہ اس کا وجود تک ختم کر دیا اور آخرت میں اسے درد ناک عذاب میں بھی مبتلا کیا ۔
گویا یہ سنت الہیہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی اور اب عصر حاضر میں شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی و گستاخی اور اہانت و تنقیص میں جو افراد بھی مرتکب ہوں انہیں چن چن کر قتل کرنا ،صفحہ ہستی سے ان کا نام و نشان کا صفایا کرنا یہ اسی سنت الہیہ کا تسلسل ہے ۔
سُنَّۃَ اللّٰہِ فِی الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلُ ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ﴿۶۲﴾
ترجمہ( اللہ کا تو یہی دستور ان (منافقین اور کفار) کے بارے میں بھی ہے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں (چلا آرہا ہے) اور آپ اللہ تعالی کے دستور میں کوئی تبدیلی نہ پائیں گے۔ (نہ وہ اللہ کے عذاب سے بچ سکے نہ بچ پائیں گے)
یہ اللہ تعالی کا وضع کردہ اٹل و حتمی قانون ودستور ہے جو ہر دور میں رائج رہا ہے وہ لوگ جو پہلے زمانے میں گزرے ان میں جو بد طینت، و بدبخت ہوئے ان کا حشر بھی یہی ہوا اور اسی طرح اس دور میں بھی جو لوگ گستاخ رسول ہونگے ان کا حشر وانجام بھی پہلے جیسوں کی طرح ہوگا۔
جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والے ہیں جو قرآن کریم کی ہر آیتوں کو تسلیم کرتے ہیں تو کیا یہ ان کا فریضہ نہیں رہا کی وہ اس آیت کریمہ پر عمل کریں اور جو گستاخ رسول ہیں ان کو قتل کر کے صفحہ ہستی سے مٹا دیں ۔
یقین جانے جو اللہ اور اس کے رسول کے لیے اپنے آپ کو فنا کر دیتے ہیں وہی غازیان اسلام شہیدان اسلام کہلاتے ہیں آج بھی ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم اٹھ کھڑے ہوں اور متحد ہو کر گستاخ رسول کو ان کے انجام تک پہنچائیں…