اصلاح معاشرہ زبان و ادب

زبانیں ہندومسلم نہیں ہوتیں

ازقلم: محمد رفیق مصباحی شیرانی
راجستھان، بھارت

ابھی پچھلے جمعے کی بات ہے دیوالی کا تہوار چل رہا تھا. گاڑیوں کی آمد و رفت بند تھی. بازار میں بھی لوگوں کی کوئی چہل پہل نظر نہیں آ رہی تھی – ہر طرف ایک خاموشی، ایک سناٹا اور فضا پرسکون تھی۔ جمعہ کے دن مجھے ضروری کام سے گھر جانا ہوا، دوپہر بعد کچھ گاڑیاں چلنے لگیں، میں ایک بس میں سوارہوکر اپنی سیٹ پر جا بیٹھا پندرہ منٹ بعد بس کے روانہ ہونے کا وقت تھا جب تک اور سواریاں بھی آکر چڑھ گئیں-
تقریبًا گاڑی فل ہوگئی. اور اپنے وقت پر چل پڑی. میں کھڑکی سے باہر کا نظارہ کر رہا تھا. اور خیالات کی دنیا میں گم تھا کہ اچانک ایک آدمی میرے بغل میں آکر بیٹھا اور دو تین بار اس نے ملا جی ملا جی پکارا تو میں ایک خیالی دنیاسے مادی دنیا میں واپس آیا اور اس کی طرف جوں ہی متوجہ ہوا تو دیکھا کہ اس کے منہ سے شراب کی اس قدر بدبو آ رہی ہے جو ناقابل برداشت ہے تو میں نے ماسک لگاتے ہوئے اپنا چہرہ پھر کھڑکی کی طرف کر لیا اور جہاں پہلے اپنے خیالی سفر کو چھوڑا تھا پھر وہیں پہنچ گیا وہ مجھے بار بار مخاطب کر کے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگامیں نہایت ہی ناگواری سےاس کی باتوں کا ’’ہاں“ ، ’’ہوں“ سے جواب دے کر پلہ جھاڑنا چاہ رہا تھا لیکن وہ کہاں ماننے والا مسلسل سوالات کرتار ہا حتی کہ داڑھی ٹوپی پر آگیا – خیر میں اس کو ناگواری سے ہی سہی سنجیدگی سے جوابات دیتا رہا کہ ٹوپی لگانا فرض و ضروری تو نہیں البتہ اسلامک آداب میں سے ہےکہ سر ڈھانپ کر کے رکھیں اورکہیں بھی نماز کا وقت ہو
جائے تو سر ڈھانپ کر کے نماز پڑھ لیں ننگے سر ہم اللہ کے سامنے حاضر نہیں ہوتے ہیں پھر یہ ایک اصول بھی ہے کہ جب کوئی آدمی کسی بڑے آدمی مثلاً : ایم، اے، ایل، سی ایم کے پاس جاتا ہے تو بہت سنبھل کر آستین نیچے کر کے جاتا ہے. تو اللہ تعالی سے بڑا تو کوئی نہیں– رہی بات داڑھی کی تو یہ ہمارے پیغمبر اعظم. صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت پیاری سنت ہے. بہرحال پھر میں نے منہ پھیر لیا اور اس کی شراب کی بدبو کی وجہ سے کترانے لگا۔
مزید اس نے سلسلہ کلام آگے بڑھاتے ہوئے کہا. میں ایک ہندو ٹیچر ہوں. میرا سبجیکٹ عربی ہے. میں بچوں کو الف، بے، تے، سے پڑھاتا ہوں. دل میں سوچا تجھ پر روؤں یا حکومت پر ماتم کروں. جس نے تجھ جیسے نااہل کو عربی کا سبجیکٹ دیا. پھر سوالات کرتا رہا مثلا: قرآن میں کتنے پارے ہیں؟ کتنی آیتیں ہیں؟ میں بہت ہی گرانی اور کوفت محسوس کرتے ہوئے بے توجہی سے جواب دیتا رہا.پھر اس نے کہا آپ مسلمان لوگ عربی اردو پڑھتے ہو. اتنا کہنا تھاکہ میں سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور غضبناک لہجے اور تیور میں کہا
’’ کیا زبانیں بھی ہندو اور مسلم ہوتی ہیں کیا؟زبانیں کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہوتی ہے۔ کوئی بھی آدمی کسی بھی زبان کو پڑھ سکتا ہے۔ اگر کوئی انگلش سیکھتا یا جانتا ہے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ انگلینڈ کا امریکہ کا ہے۔ فارسی جانتا ہے تو اسے ایران و افغانستان کا نہیں کہا جائے گا،، ۔
تو اس نے فورا کان پکڑے اور کہا ہاں ملاجی کان پکڑتا ہوں بالکل بالکل زبان کسی ایک مذہب کی نہیں ہوتی۔ میرے تھوڑا تیز بولنے اور اس کے کان پکڑنے کا نظارہ اہل بس بھی کرنے لگے اور سب متوجہ ہو گئے۔
پھر میں نے کہا سن مجھے انگلش بھی آتی ہے ہندی بھی آتی ہے فارسی، بھی آتی ہے، عربی بھی آتی ہے، اور اردو بھی آتی ہے مارواڑی میری مادری زبان ہےم اب بتا مجھے تو کہاں کا سمجھ رہا ہے کوئی بھی زبان کسی خاص مذہب کی نہیں ہوتی۔ ہاں! بلکہ ہر انسان سیکھ سکتا ہے جیسے تو خود ہی ہندو ہو کر عربی پڑھاتا ہے پھر اس نے کان پکڑے اور کہا ملاجی صحیح کہہ رہے ہو- میں نے کہا اب تو، ذاتی واد پھیلا دیا گیا اور اردو عربی کو مسلمانوں سے اور ہندی سنسکرت ہندوؤں سے جوڑ کر سیاست کی جاتی ہے پھر برابر وہ ہاں ہاں کرنے لگا یہ باتیں ہی چل رہی تھیں کہ روحل شریف کا بس اسٹینڈ (stand) آ گیا تھا جہاں وہ اتر گیا اس طرح کے واقعات دوران سفر پیش آتے رہتے ہیں لیکن محتاط طریقے سے وہیں پرزور بولنا چاہیے جہاں اگلا آدمی غلطی پر ہو. ورنہ خاموش رہنا چاہیے-

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے