ازقلم : محمد عاطف رضا قادری گورکھپوری
متعلم دارالعلوم اہل سنت فیضان مبارک خان شہید علیہ الرحمہ گورکھپور۔
آپ کا اسم مبارک عبدالقادر آپ کی کنیت اور القابات محی الدین، محبوب سبحانی، قطب ِربانی قندیل لامکانی، امام الاولیاء، سلطان الاولیاء، غوث الاعظم وغیرہ ہیں۔
آپ کے والد کا نام سید ابو صالح موسیٰ جنگی دوست رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے آپ کے والد حضرت سید ابو صالح موسیٰ جنگی دوست رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت باسعادت 27 رجب 400 ھـــہ شہر گیلان میں ہوئی
اور آپ کا وصال11 ذیقعدہ 489ھـــہ میں ہوا آپ کا مزار مبارک گیلان میں ہے ۔
پیدائش
معتبر روایتوں کے ذریعہ پتہ چلتا ہے کہ حضور غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ یکم رمضان المبارک جمعہ کے دن 470 ھ مطابق 1075ء میں بغداد شریف کے قریب قصبہ جیلان علاقہ طبرستان میں ایک نیک سیرت، پاک باز متقیہ، عابدہ حضرت فاطمہ ام الخیر رضی اللہ عنہا کے آنگن میں ہوئی۔
پیدا ہوتے ہی احکام شریعت کا احترام
والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ امّ الخیر بیان فرماتی ہیں کہ ولادت کے ساتھ احکام شریعت کا اس قدر احترام تھا کہ حضور غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ رمضان بھر دن میں قطعی دودھ نہیں پیتے تھے۔ ایک مرتبہ ابر کے باعِث ٢٩ شعبان المعظم کو چاند کی رویت نہ ہو سکی لوگ تردّد میں تھے لیکن اس مادر زاد ولی نے صبح کو دودھ نہیں پیا بالآخر تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ آج یکم رمضان المبارک ہے آپ کی والدہ محترمہ کا بیان ہے کہ پورے عہد رضاعت میں آپ کا یہ حال رہا کہ سال کے تمام مہینوں میں آپ دودھ پیتے رہتے تھے لیکن جوں ہی رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتا تو آپ دن کو دودھ کی بالکل رغبت نہ فرماتے تھے اور رمضان شریف کے پورے مہینہ آپ کا یہ معمول رہتا تھا کہ طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک قطعًا دودھ نہیں پیتے تھے خواہ کتنی ہی دودھ پلانے کی کوشش کی جاتی یعنی رمضان شریف کے پورے مہینہ آپ دن میں روزہ رکھتے تھے اور جب مغرب کے وقت اذان ہوتی اور لوگ افطار کرتے تو آپ بھی دودھ پینے لگتے تھے۔ (سیرت غوثِ اعظم صفہ ٥٤)
غوثِ اعظم کا تقوی و پرہیزگاری
حضور محبوب سبحانی قطب ربانی غوث صمدانی شیخ عبدالقادر جیلانی بڑے پیر دستگیر روشن ضمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تقوی و پرہیزگاری کا حال یہ تھا کہ آپ نے اپنی پوری زندگی زہد و عبادت اور ریاضت و مجاہدہ میں گزار دی دور طالب علمی سے لے کر ختم جوانی تک آپ نے ایسے ایسے زبردست مجاہدے اور ریاضتیں کی ہے کہ جن کے تصور سے ہی جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ صاحب قلادۃ الجواھر شیخ عبدالقادر نجّار لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ نے مجھ سے اپنے واقعات اس طرح بیان فرماۓ ہیں کہ میں نے جس قدر مشقتیں برداشت کی ہیں اگر وہ کسی پہاڑ پر ڈال دی جائیں تو وہ بھی پارہ پارہ ہو جاۓ جب وہ مشقتیں میری قوت برداشت سے باہر ہو جاتی تو میں زمین سے لپٹ جاتا فَاِنّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا اِنّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا یعنی ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے اور ہر سختی کے ساتھ فراخی ہے بلاشبہ آپ ریاضت و مجاہدہ میں یکتائے روزگار اور واحد العصر تھے۔
سیرت و سوانح کی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے تقریباً 25 سال عراق کے جنگلوں میں ایسے گزارے ہیں کہ نہ آپ کو کوئی جانتا اور نہ آپ کسی کو پہچانتے تھے اس دوران صرف جناتوں اور رجال الغیب سے ہی آپ کی ملاقات تھی بس وہی آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر معرفت خداوندی کا درس لیا کرتے تھے۔
حضرت عبدالوہاب شعرانی تحریر فرماتے تھے کَــانَ الشّیْــخُ عَبْدُ الْقَــادِرِ اَلْـجِیْلَانِــیْ یَقُوْلُ اَقِمْتُ فِـیْ صَحْرَاءِالْعِرَاقِ وَخَرَائِبِهٖ خَمْسً وًعِشْرِیْنَ سَنَۃً سَـائِـحًا لَا اَعْرِفُ الْخَلْقَ وَلَا یَعْرِفُوْنِـیْ ۔ یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں عراق کے جنگل و بیابان میں پچیس سال تک عراق کے صحراؤں میں اقامت پزیر رہا نہ میں کسی کو جانتا نہ لوگ مجھے پہچانتے ـ اس پچیس سال کی مدت میں آپ نے کسی سے کوئی چیز قبول نہیں کی۔ اپنی خواہشات نفس کا گلا گھونٹتے ہوۓ مدائن کے ویران جنگلوں میں صحرا نوردی کرتے رہے۔ روایتوں میں ملتا ہے کہ آپ نے ایک سال تو زمین پر گری پڑی چیزیں کھا کر زندگی بسر کی اور دوسرے سال صرف پانی پر ہی اکتفا کیا پھر تیسرے سال نہ ہی کچھ کھایا نہ ہی پیا چالیس سال تک مسلسل آپ نے عشاء کی وضو سے فجر کی نماز ادا کی اور پندرہ سال عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد قرآن مجید اس طرح تلاوت فرماتے کہ صرف ایک پاؤں پر کھڑے رہتے اور ہاتھ سے دیوار کی میخ پکڑ لیتے تمام رات اسی حالت میں گزر جاتی یہاں تک کہ صبح کے وقت قرآن کی تلاوت مکمل ہو جاتی اور بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ نہ آپ نے کھانا کھایا اور نہ ہی پانی پیا اور نہ ہی رات میں سوۓ اور چالیس دن تک یہی کیفیت رہی ــ۔ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد آپ گوشۂ عزلت میں چلے جاتے اور عبادت خدا میں مستغرق ہو جاتے اس دوران کسی کو آپ سے ملنے کی اجازت نہ ہوتی طلوع فجر کے بعد ہی خلوت سے جلوت میں آتے اور لوگوں سے ملاقاتیں کرتے ــ حضرت عبدالوہاب شعرانی کا بیان ہے کہ رات کے وقت ایک مرتبہ کسی کو آپ سے ملنے کی حاجت درپیش آئی وہ آپ کی خدمت با برکت میں حاضر ہوا اور ملاقات کی تمنا ظاہر کی مگر ہزاروں کوششوں کے باوجود اس شخص کو مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی اور طلوع فجر تک انتظار کرنا پڑا آپ نے جو عبادت و ریاضت میں اتنی مشقتیں برداشت کی کہ اس بیان نہیں کیا جا سکتا
حضرت نورالدین شطنونی اپنی مستند کتاب بہجۃالاسرار میں آپ کے فرزند ارجمند حضرت شیخ ضیاء الدین ابونصر موسیٰ علیہ الرحمہ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں کہ ریاضت و مجاہدہ کے دوران جنگل و بیابان میں تھا وہاں اقامت پزیر ہوۓ ایک زمانہ گزر گیا مگر پانی کا کہیں نام و نشان نہ تھا شدت پیاس کی وجہ سے زبان سوکھ کر کانٹا ہو چکی تھی اسی شدت پیاس کے عالم میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بادل نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے افق پر چھا گیا اور اس میں سے کچھ ہلکی سی پھوار پڑی جس سے ایک گونہ سکون ہوا پھر ایک روشنی چمکی جس سے پورا افق روشن ہو گیا اسی روشنی میں ایک صورت یہ آواز دیتی ہوئی نمودار ہوئی کہ اے عبدالقادر میں تمھارا پروردگار ہوں اور میں نے تمہارے لئے حرام چیزوں کو حلال کر دیا ہے میں نے اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم پڑھ کر کہا دور ہو جا اے ابلیس لعین ۔۔ اتنا کہتے ہی وہ روشنی تاریکی میں بدل گئی اور وہ صورت دھواں ہو گئی پھر اس میں سے ایک آواز آئی اے عبدالقادر تم اپنے علم اور آگاہی کے سبب جو تمہیں اپنی منازلات کے احوال کی نسبت حاصل ہے اپنے پروردگار کے حکم سے بچ گۓ ۔ ستر اہل طریقت کو اسی طرح میں یہاں گمراہ کر چکا ہوں ۔ مینے کہا یہ سب اللہ تبارک و تعالیٰ کا فضل ہے اور وہی نگہبان ہے جب لوگوں نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ شیطان ہے تو آپ نے فرمایا اُس کے اس قول قَدْ حَلَلْتُ لَکَ الْمُحَرّمَاتِ سے میں نے سمجھ لیا یہ بولی صاحب قرآن کی نہیں شیطان کی ہی ہو سکتی ہے ۔
بہجۃالاسرار للعلامۃ ابی الحسن شطنونی ص 50 سیدنا غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں اَقْرَبُ الطُرُقِ اِلَی اللّٰهِ تَعَالٰی لُزُوْمُ قَانُوْنِ الْعُبُوْدِیَۃِ وَالْاِسْتِمـسَاکُ بِعُرْوَۃِ الشّرِیْعَۃِ ، اللہ عزوجل کی طرف سے زیادہ قریب راستہ قانون بندگی کو لازم پکڑنا اور شریعت کی گروہ کو تھامے رہنا ہے ہر متقی و پرہیزگار درجہ ولایت پر فائز ہوتا ہے۔
وصال شریف
سید ابوالمعالی خیرالدین المتوفی ١٠٢٤ھ اپنی کتاب ،، تحفہ قادری میں لکھتے ہیں کہ ١۷ ربیع الاخر ۵۶۱ ھ میں آپ نے وصال فرمایا آپ کا مزار مبارک عراق کے مشہور بغداد شریف میں ہے۔