اصلاح معاشرہ

موبائل فون کا نشہ: ذہانت میں کمی کی وجہ؟

ازقلم: محمد محمود رضا قادری، گورکھ پور

اسکرین کے روبرو گزرنے والا وقت گھٹا کر دماغی کارکردگی بڑھائی جاسکتی ہے
امریکا میں ہونے والی ایک تازہ ترین طبی تحقیق کے نتائج سے پتا چلا ہے کہ بچے جو وقت کسی نہ کسی اسکرین (موبائل فون، لیپ ٹاپ، آئی پیڈ، ٹی وی، کمپیوٹر گیم وغیرہ کی شکل میں) کے سامنے گزارتے ہیں، اگر اس میں کمی کردی جائے تو دماغی کارکردگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ تاہم اس مقصد کے حصول کے لئے صرف اسکرین ٹائم میں کمی کافی نہیں بلکہ مناسب مقدار میں جسمانی سرگرمی اور نیند پوری کرنا بھی ضروری ہوگا۔ یہ بات مؤقر امریکی اخبار ’’یو ایس اے ٹوڈے‘‘ میں شائع شدہ ایک رپورٹ میں ’’دی آبزرویشنل اسٹڈی‘‘ کے نتائج کے حوالے سے بتائی گئی ہے۔ اس اسٹڈی میں ایک اور تحقیقی جائزے کے لئے مرتب شدہ وسیع تر ڈیٹا سے مدد لی گئی ہے، جس کے لئے فنڈز نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے فراہم کئے تھے اور اس میں8 سے 11برس تک کی عمر کے 4500بچوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا تھا۔

اس مطالعاتی جائزے میں شریک محققین نے اس بات کا بغور جائزہ لیا کہ بچے کتنی دیر اسکرین کے سامنے گزارتے ہیں۔ کتنی دیر سوتے ہیں اور کتنی دیر جسمانی سرگرمی یا فزیکل ایکٹیویٹی میں گزارتے ہیں اور پھر انہوں نے ان اوقات کا موازنہ کینیڈا کی 24 گھنٹے کی نقل و حرکت سے متعلق گائیڈ لائنز سے کیا۔ یہ گائیڈ لائنز یا سفارشات کینیڈین سوسائٹی فار ایکسرسائز فزیالوجی نے مرتب کی ہیں اور ان میں بتایا گیا ہے کہ بچوں کو اپنا وقت کیسے گزارنا چاہئے۔

رپورٹ کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ جن بچوں نے مذکورہ سفارشات کے مطابق اپنا وقت گزارا، جس میں 9سے11 گھنٹے کی نیند لینا، کم سے کم ایک گھنٹے کی جسمانی سرگرمی اور اسکرین کے سامنے دو گھنٹے سے کم وقت گزارنا شامل تھا۔ ان کی دماغی کارکردگی میں بہتری دیکھنے میں آئی۔ محققین کو یہ بھی پتا چلا کہ محض اسکرین ٹائم گھٹا دینے یا نیند پوری کرلینے کے بھی دماغی کارکردگی پر نہایت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بھی پتا چلا کہ امریکا میں محض5 فیصد بچے ایسے ہیں، جو مذکورہ بالا تینوں سفارشات پر عمل پیرا ہیں جبکہ ایک تہائی بچے ایسے ہیں کہ جو ان تین میں سے کسی ایک سفارش پر بھی عمل پیرا نہیں۔ رپورٹ مرتب کرنے والے سینئر محقق جیریمی والش کہتے ہیں کہ تحقیق کے نتائج سے پتا چلا کہ اچھی نیند اور جسمانی سرگرمی کا امتحانات میں اچھی کارکردگی سے قریبی تعلق ہے جبکہ جسمانی سرگرمی سے ری ایکشن ٹائم کو بہتر بنانے، توجہ مرکوز کرنے اور یادداشت بڑھانے میں بھی مدد ملتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ ایسے بچوں کی دماغی کارکردگی میں کمی دیکھی گئی ہے، جو روزانہ دو گھنٹے سے زائد وقت کسی نہ کسی اسکرین کے سامنے گزارتے ہیں جبکہ اسمارٹ فون زیادہ استعمال کرنے والے طلبہ کو توجہ مرکوز کرنے میں بھی دشواری پیش آتی ہے لیکن اس بارے میں ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ مختلف اسکرینز کے سامنے گزارے جانے والے وقت کے نتائج کتنے مختلف ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر جو بچے ’’آن اسکرین‘‘ مختلف گیمز کھیلتے ہیں اور جو بچے ’’آن اسکرین‘‘ مختلف تعلیمی سرگرمیوں میں وقت گزارتے ہیں، ان کی دماغی کارکردگی پر مرتب ہونے والے اثرات میں کتنا فرق ہوتا ہے؟ واضح رہے کہ اس رپورٹ کے نتائج گزشتہ دنوں ایک مؤقر طبی جریدے The Lancet میں شائع کئے گئے تھے۔

اس رپورٹ کے علاوہ بھی آج کل دنیا بھر میں اس موضوع پر تحقیق جاری ہے کہ کسی بھی اسکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارنے کے کیا مضر اثرات انسانی صحت پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ یہ اسکرین ویسے تو کوئی بھی ہوسکتی ہے، مثال کے طور پر ٹی وی اسکرین، کمپیوٹر مانیٹر کی اسکرین یا کسی وڈیو گیم کی اسکرین لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان دنوں جو اسکرین سب سے زیادہ دیکھی جارہی ہے وہ اسمارٹ فون کی اسکرین ہے۔ چاہے بچے ہوں یا بڑے، زیادہ تر لوگ اسی اسکرین کے نشے میں مبتلا ہیں۔ وجہ بھی صاف ظاہر ہے کہ موبائل فون چھوٹا سا آلہ ہے، جسے آپ کھڑے ہوکر، بیٹھ کر یا لیٹ کر، غرض کسی بھی حالت میں اور کسی بھی جگہ استعمال کرسکتے ہیں، حتّٰی کہ چلتے پھرتے ہوئے اور سفر کرتے ہوئے بھی اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسمارٹ فون کی اسکرین کو لوگوں کی پسندیدہ ترین اسکرین کا درجہ حاصل ہوچکا ہے لیکن اسے مسلسل تکتے رہنے کے بعض نقصانات بھی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلسل بیٹھنے اور کمپیوٹر مانیٹر کو دیکھتے رہنے سے کمر اور آنکھوں کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ کمپیوٹر کے استعمال کی وجہ سے پیدا ہونے والے ممکنہ طبی مسائل کی وجہ صرف کوئی ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر ہی نہیں بنتا بلکہ ایسا لمبے عرصے تک اسمارٹ فون، ٹیبلٹ اور نوٹ بک کمپیوٹر استعمال کرنے کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ آج کے دور میں چھوٹے کمپیوٹر آلات بھی وہ سارے کام کر سکتے ہیں جو پہلے صرف کوئی بڑا کمپیوٹر ہی کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسمارٹ فونز، ٹیبلٹ کمپیوٹرز اور نوٹ بکس کی حیثیت موبائل دفتروں کی سی ہوچکی ہے اور اسی لیے وہ صحت کے ممکنہ مسائل کی وجہ بھی بن چکے ہیں۔ بہت سے لوگ جب اپنے اسمارٹ فون استعمال کرتے ہیں، تو وہ لمبے عرصے تک اپنی گردن کو اس طرح جھکائے رکھتے ہیں کہ یوں ان کی گردن کے پٹھے مسلسل دباؤ میں رہتے ہیں۔ اس صورتحال کے لیے ’’ٹیکسٹ نیک‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اکثر لوگ موبائل فون پر ٹیکسٹ میسج لکھتے ہوئے اپنی گردن کو اس حالت میں اور اتنا جھکا ہوا رکھتے ہیں کہ لمبے عرصے تک کے لیے اس حالت کو صحت مندانہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کمپیوٹر پر زیادہ دیر تک کام کرنے کے سلسلے میں ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر ہی کم نقصان دہ ذریعہ ہے۔ طبی حوالے سے اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹ کمپیوٹرز کے بجائے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز کا استعمال مقابلتاً زیادہ مناسب ہے۔

تاہم ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کا استعمال بھی اس بات کی ضمانت نہیں کہ صارف کو طبی مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ گردن اور کمر کے درد سے بچنے کے لیے اہم بات یہ ہے کہ یہ جدید آلات اس طرح استعمال کیے جائیں کہ ان کی وجہ سے جسمانی دباؤ کم سے کم پڑے۔ ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے اس کی میز پر اونچائی، کہنیوں کی اونچائی کے برابر ہونی چاہیے۔ اس طرح صارف کے ہاتھوں اور کلائی پر زیادہ بوجھ نہیں پڑتا اور وہ کسی بھی ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کو زیادہ آرام دہ طریقے سے استعمال کرسکتا ہے۔ اگر کام کی کسی جگہ پر کمپیوٹر کو ایک سے زائد لوگ استعمال کرتے ہوں تو ہونا یہ چاہیے کہ ڈیسک اور کمپیوٹر مانیٹر کی اونچائی کو ہر کوئی اپنے قد اور پوزیشن کے مطابق ایڈجسٹ کر سکتا ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا ہر جگہ پر ممکن نہیں ہوتا اور ایسے کمپیوٹرز جو کافی چھوٹے ہوں اور جن پر سبھی کام کیے جا سکتے ہوں، ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے زیادہ لچکدار نہیں ہوتے اور اگر کوئی شخص اس بات پر مجبور ہو کہ وہ اپنا کام صرف اسمارٹ فون پر ہی کرسکتا ہو تو اسے ایسا کرتے ہوئے اپنی جسمانی حالت بدلتے رہنا چاہیے۔

عالمی ادارہٴ صحت کے مطابق موبائل فون کے استعمال میں فون جتنا انسانی جسم سے دور ہوگا، اتنا ہی انسان محفوظ رہے گا اور ساتھ ہی ساتھ فون کالز کی تعداد اور ان کا دورانیہ کم رکھنا بھی مددگار رہتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ابھی یہ ثابت کرنے میں وقت لگے گا کہ موبائل فون کے استعمال سے انسانی جسم کو نقصانات ہوتے ہیں یا نہیں لیکن اتنا تو طے ہے کہ عام طور پر کسی بھی چیز کا حد سے زیادہ استعمال نقصان دہ ہوتا ہے اور اسی کے تحت موبائل فون کے استعمال میں بھی احتیاط فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ چنانچہ یہ ماہرین پرزور سفارش کرتے ہیں کہ بچوں کو موبائل فون کے زیادہ استعمال سے دور رکھا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ موبائل پر بات کرتے وقت ایک ہی کان کو مسلسل استعمال نہ کیا جائے اور بچے صرف ایمرجنسی کی صورت میں موبائل فون استعمال کریں، جب کہ بڑے کوشش کریں کہ فون کو اپنے سر سے دور رکھیں۔ رائل سوسائٹی آف لندن نے ایک تحقیقی پیپر شائع کیا ہے، جس کے مطابق وہ بچے جو 20 سال کی عمر سے پہلے موبائل فون کا استعمال شروع کردیتے ہیں ان میں 29 سال کی عمر میں دماغ کے کینسر کے امکانات ان لوگوں سے پانچ گنا بڑھ جاتے ہیں جنھوں نے موبائل فون کا استعمال بچپن میں نہیں کیا۔ ماہرین اس نکتے پر متفق ہیں کہ کھیل کود اور ورزش انسان کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور وڈیو گیمز سمیت بیٹھ کر کھیلے جانے والے اکثر کھیلوں کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان سے وزن میں اضافہ ہوتا ہے۔

وڈیو گیمز کے نفسیاتی اثرات کا جائزہ لینے کے لئے بھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق سائنس دانوں نے اپنی تحقیق میں یہ پایا کہ جو بچے ورزانہ ایک گھنٹے سے کم وڈیو گیمز کھیلتے ہیں، وہ ان بچوں کے مقابلے میں معاشرے سے زیادہ ہم آہنگ ہوتے ہیں جو وڈیو گیمز بالکل نہیں کھیلتے لیکن جو بچے روزانہ تین گھنٹے سے زیادہ وڈیو گیمز کھیلتے ہیں، وہ مجموعی طور پر اپنی زندگی سے کم مطمئن پائے گئے۔ گویا روزانہ تھوڑی دیر کے لیے وڈیو گیمز کھیلنے سے بچوں کی نشوونما پر اچھے اثرات پڑتے ہیں مگر اس کا دورانیہ محدود ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں ماہرین اس بات کی بھی سفارش کرتے ہیں کہ بچے اگر وڈیو گیمز کھیلنا چاہیں تو انہیں انسٹال شدہ گیمز ہی کھیلنے کے لئے دیئے جائیں اور اپنا زیراستعمال فون استعمال کے لئے دینے سے گریز کیا جائے اور اگر دینا ضروری ہو تو سم کو آف کردینا چاہیے تاکہ بچے انٹرنیٹ کے غلط استعمال کے ساتھ برقاطیسی شعاعوں کے مضر اثرات اور موبائل فون پر غلط نمبر ڈائل کرنے سے بھی بچے رہیں۔

امریکا کی سب سے بڑی ریاست کیلی فورنیا کے شعبہ پبلک ہیلتھ نے موبائل فون سے خارج ہونے والی ریڈیو فریکوئنسی انرجی سے بچنے کے لیے کچھ سفارشات جاری کی ہیں۔ اگرچہ ماہرین موبائل فون کے استعمال سے ہونے والے نقصانات پر متفق نہیں لیکن تحقیق نے عندیہ دیا ہے کہ طویل عرصے تک موبائل فون کا زیادہ استعمال صحت کے لیے مضر ہے۔ کیلی فورنیا کے شعبہ پبلک ہیلتھ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر کیرن اسمتھ کا کہنا ہے کہ ’’موبائل فون کے زیادہ استعمال سے صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ موبائل فون کے مضر اثرات سے بچے اور بالغ دونوں ہی بچ سکتے ہیں، اگر وہ اپنی جیب میں فون نہ رکھیں اور رات کو سوتے وقت اپنا موبائل فون بستر سے دور رکھیں۔‘‘ کیلی فورنیا کے شعبہ پبلک ہیلتھ کے مطابق جب موبائل فون، سیل ٹاور سے سگنل موصول کرتا ہے یا موبائل سگنل بھیجتا ہے تو ریڈیو فریکوئنسی انرجی خارج ہوتی ہے، جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح امریکا میں بھی موبائل فون کا استعمال بہت تیزی سے بڑھا ہے۔

95فیصد امریکیوں کے پاس موبائل فون ہیں اور 12فیصد امریکی انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے اپنے موبائل فون کو ہی استعمال کرتے ہیں۔ امریکا میں پہلا موبائل فون ملنے کی اوسط عمر کم ہو کر 10 سال ہو گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق زیادہ تر نوجوان سارا دن اپنے فون آن رکھتے ہیں اور سوتے ہوئے بھی فون قریب رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر کیرن اسمتھ کا کہنا ہے کہ ’’بچوں کے ذہن کی نشوونما تیزی سے ہورہی ہوتی ہے اور موبائل فون کے زیادہ استعمال سے منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو زیادہ موبائل فون استعمال نہ کرنے دیں اور رات کو فون بند کر دیں۔‘‘

کیلی فورنیا کے شعبہ پبلک ہیلتھ نے چند بنیادی احتیاطی تدابیر بھی تجویز کی ہیں جن سے ریڈیو فریکوئنسی انرجی سے بچا جا سکتا ہے۔ یہ سفارشات مندرجہ ذیل ہے۔
(1) فون کو اپنے جسم سے دور رکھیں۔ (2) جب سگنل کمزور ہوں تو موبائل فون کم استعمال کریں۔ (3) موبائل فون پر آڈیو یا وڈیو اسٹریمنگ کم کریں یا بڑی فائلیں اَپ لوڈ یا ڈاؤن لوڈ نہ کریں۔ (4) رات کے وقت موبائل فون کو اپنے بستر سے دور رکھیں۔ (5) جب موبائل فون پر بات نہ کر رہے ہوں تو ہیڈ سیٹ اتار کر رکھ دیں۔

ایک نئی تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ8 گھنٹے کی نیند پوری کرلینے کے باوجود رات کے وقت اسمارٹ موبائل فون کی اسکرین پر نظریں جمانے سے نیند کا تسلسل بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ امریکا میں کی جانے والی اس تحقیق کے نتائج کے مطابق رات کے وقت آئی پیڈ اور اسمارٹ فون کی اسکرین کی روشنی سے نکلنے والی شعاعیں انسانی نیند کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔ چاہے کوئی شخص 8 گھنٹے کی ہی نیند کیوں نہ پوری کرلے لیکن پھر بھی نیند کے دوران بار بار آنکھیں کھلنے سے نیند کا توازن بگڑ جاتا ہے اور جسم میں وہ چستی پیدا نہیں ہوپاتی جو انسان ایک مکمل نیند سے حاصل کرتا ہے۔ تحقیق کاروں نے 5 مسلسل راتوں میں 4 گھنٹے تک کتاب کا مطالعہ کیا اور اسی طرح آئی پیڈ پر بھی کتاب کا مطالعہ کیا۔ جن لوگوں نے آئی پیڈ سے کتاب کا مطالعہ کیا، ان میں نیند کا باعث بننے والے میلاٹونن کیمیکل کی مقدار کم پائی گئی، جس نے نیند کے دوران آنکھوں کی تیزی سے حرکت کے درمیان وقفے کو کم کردیا، جس کے اثرات نہ صرف رات میں نیند کے تسلسل کو توڑنے کی صورت میں سامنے آئے بلکہ اگلے روز پوری نیند کے باوجود ان لوگوں نے خود کو تھکا ہوا محسوس کیا۔

میلاٹونن کی کمی نہ صرف نیند کی خرابی کا باعث بنتی ہے بلکہ اس سے کینسر کی بیماری لاحق ہوجانے کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت جو اسمارٹ فون اور آئی پیڈ جیسے آلات متعارف کرائے جارہے ہیں، ان کے طبی اور بایولوجیکل اثرات انسانی صحت پر مرتب ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان آلات کو بنانے سے قبل اس کے صحت سے متعلق اثرات پر کوئی مطالعہ یا تحقیق نہیں کی جاتی۔ واضح رہے کہ بھارت میں بھی موبائل فون کے استعمال میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں 13 کروڑ افراد موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے