اثر خامہ: سید صابر حسین شاہ بخاری قادری
بسم اللہ الرحمن الرحیم، نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ النبی الامین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین
چمن آرائیاں ہوتیں نہ یہ رنگینیاں ہوتیں//تنہا دم قدم سے ہیں دو عالم یارسول اللہ
تمہی اول تمہی آخر تمہی ظاہر تمہی باطن//تمہی ہو بالیقیں نبیوں کے خاتم یا رسول اللہ
(مظہر اشرفیت).. //مولانا حافظ غلام فرید نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات وخدمات کی ایک جھلک// مملکت خداداد پاکستان کے صوبہ پنجاب میں حضرت سیدنا مسعود الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کے خطۂ پاک پتن شریف میں ایک درویش صفت عالم دین مولانا حافظ غلام فرید نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ (م: 9/محرم الحرام 1431ھ/26/دسمبر 2009ء ) رہتے تھے جو ‘مغل پوغطہ” کے ایک فرد فرید تھے، آپ کچھ اس انداز محبت وشفقت سے بچوں کو قرآن کریم حفظ کراتے تھے کہ طلباء آپ سے اتنے مانوس ہوتے کہ آپ کو”ابو جی” کہہ کر پکارتے تھے۔ آپ کے حسنِ اخلاق اور اپنائیت کی وجہ سے سیکنڑوں طلباء نے آپ سے قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ آپ کرمانوالہ شریف کی مشہور روحانی شخصیت حضرت پیر سید محمد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت تھے ۔ ان کے وصال کے بعد مظہر اشرفیت ڈاکٹر پیر سید محمد مظاہر اشرف الاشرفی الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی روحانی رہنمائی فرمائی۔ ان سے آپ نے مختلف اوراد و وظائف کی اجازت حاصل کی۔ اور ان کی نگرانی میں”اللہ الصمد” اور”یا وھاب” کا طویل ترین چلہ کاٹا۔ آپ صحیح معنوں میں غلام رسول تھے، اہل بیت اطہار اور صحابہ کبار کے ادب واحترام میں آپ مشہور تھے۔ سادات کرام کے احترام میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، اپنے پاس قرآن کریم حفظ کرنے والے سید زادوں کی خصوصی تکریم فرماتے تھے، ان کے لئے خود جائے نماز بچھا کر ان کی نشست گاہ بناتے تھے۔ آپ نے جب قرآنی تعلیم کے لئے دارالعلوم بنایا تو حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کی نسبت سے اس کا نام” جامعہ حسنینیہ پاک پتن شریف ” رکھا۔ اور جب اس کا مونو گرام ترتیب دیا اس میں مشہور حدیث مبارکہ”انا مدینۃ العلم وعلی بابھا” نمایاں طور پر تحریر کروائی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نیک اور صالح اولاد سے نوازا ہے۔ آپ کی اولاد امجاد میں پانچ صاحب زادے اور پانچ صاحب زادیاں ہیں۔ پہلے صاحب زادے قاری محمد گلزار فرید زید مجدہ جامعہ حسنینیہ کے مہتمم اور مدرس ہیں۔ دوسرے صاحبزادے محمد مختار احمد ، عبیداللہ گروپ آف کالجز پاک پتن کے شعبہ اردو کے لیکچرار ہیں۔ تیسرے صاحبزادے حافظ محمد بختیار فرید بھی قرآنی درس و تدریس سے منسلک ہیں۔چوتھے صاحب زادے قاری فیاض احمد تنویر امام وخطیب ہیں۔ پانچویں صاحب زادے حافظ صالح محمد الازہری الازہر یونیورسٹی مصر میں زیر تعلیم ہیں۔ اسی طرح آپ کی پانچوں صاحب زادیاں بھی علم و عمل سے آراستہ و پیراستہ ہیں اور قرآنی تعلیم کو عام کرنے میں مصروف ہیں۔اللہ تعالیٰ ان سب کے علم و عمل میں مزید برکتیں عطا فرمائے۔ آمین۔ # مقالہ نگار محمد مختار احمد اشرفی کی حیات پر ایک نظر//… جامعہ حسنینیہ پاک پتن شریف کے جلسۂ دستار فضیلت میں ایک بار حکیم الامت مفسر قرآن حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند جلیل حضرت علامہ مفتی مختار احمد احمد خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ خطاب کے لئے تشریف لائے۔ ان کی خطابت اور علمی قابلیت سے مولانا حافظ غلام فرید نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ بے حد متاثر ہوئے۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا:” اگر اللہ نے مجھے بیٹا عطا کیا تو میں اس کا نام”مختار احمد” ہی رکھوں گا۔” اس واقعہ کے چند دنوں بعد 8/ رمضان المبارک 1401ھ /15/جنوری 1981ء کو اللہ تعالٰی نے آپ کو ایک فرزند ارجمند کی نعمت سے نوازا۔ جس کا نام آپ نے حسب وعدہ "محمد مختار احمد”رکھا۔۔ الحمدللہ۔ ۔۔ آپ کی ابتدائی تعلیم وتربیت گھر میں ہوئی۔ قرآن کریم ناظرہ اپنے والد گرامی سے پڑھا ، محلے کے پرائمری سکول سے مروجہ تعلیم حاصل کی اور سنٹر کے امتحان میں دوسری بار حاصل کی۔ 1996,1997ء میں گورنمنٹ ہائی سکول پاک پتن شریف سے میٹرک سائنس کا امتحان ہائی فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ 1999ء میں گورنمنٹ فریدیہ کالج سے ایف اے کیا۔ درس نظامی کے لئے جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور میں دو سال تک تعلیم حاصل کی اور ساتھ ہی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے بی اے پہلی پوزیشن میں کیا۔ 2009ء میں سرگودھا سے ایم اے اردو کی ڈگری پہلی پوزیشن میں حاصل کی۔ ساہیوال بورڈ سے”فاضل اردو” کیا اور پہلی ہی پوزیشن حاصل کرنے کے کامیاب ہوئے۔ اسی طرح بی ایڈ بھی پہلی ہی پوزیشن میں کیا۔ ۔ #شرف بیعت# مولانا حافظ غلام فرید نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اس ہو نہار بیٹے کو ایک بار یوں وصیت فرمائی:” بیٹا! جب بھی کسی شیخ طریقت کی بیعت کرنا تو سید کے ہاتھ پر کرنا اور اس اس کا سلسلہ جاری بھی چشتیہ ہو، تجھے فیض حضرت سیدنا بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ سے ملتا رہے گا۔”….. جب آپ اہل سنت کی معروف درس گاہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور میں پڑھنے کے لئے گئے تو چند ہفتوں بعد آپ کو طلباء کی ایک مختصر سی جماعت کے ساتھ شاد مان لاہور میں جانے کے لئے کہا گیا۔ جاتے وقت آپ کے استاذی المکرم رئیس التحریر علامہ محمد منشاء تابش قصوری صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے سب طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:” وہاں شاد مان لاہور میں ایک سید زادے ہیں جنہوں نے دینی علوم مزید پڑھنے ہوں تو ان کی خدمت میں حاضر ہوں”. آپ نے وہاں مظہر اشرفیت ڈاکٹر پیر سید محمد مظاہر اشرف الاشرفی الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضری دی، ان کی زیارت کرتے ہی انہیں اپنے والد گرامی رحمۃ اللہ علیہ کے بیعت کے حوالے سے وہ یاد گار الفاظ یاد آگئے۔ آپ نے دیکھا کہ والد گرامی رحمۃ اللہ علیہ کے بتائے گئے سب اوصاف اس شیخ طریقت میں نمایاں نظر آرہے ہیں، آپ سید ہیں اور چشتی بھی ہیں، بس پہلی ملاقات وزیارت ہی ان کے گرویدہ ہو گئے، فوراً ان کے دست حق پرست پر سلسلہ عالیہ چشتیہ اشرفیہ میں بیعت ہو گئے۔ #
ذوقِ مطالعہ و تحریر# آپ کو ذوقِ مطالعہ اپنے والد گرامی رحمۃ اللہ علیہ سے ورثے میں ملا ہے۔ آپ کے والد گرامی رحمۃ اللہ علیہ اسلامی کتابوں کا مطالعہ مسلسل فرماتے رہتے تھے ۔ بعض اوقات وہ اپنے فرزند ارجمند محمد مختار احمد اشرفی کو کوئی کتاب ہاتھ میں دیتے اور فرماتے اب پڑھو، آپ نہایت انہماک سے سماع فرماتے اور ساتھ ساتھ تسہیل وتشریح بھی فرماتے جاتے تھے۔ حکیم الامت مفسر قرآن حضرت علامہ مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کی شہرۂ آفاق”تفسیر نعیمی” انہیں بہت پسند تھی، جب بھی اس کی کسی جلد کا نیا ایڈیشن شائع ہوتا تو آپ لاہور سے فوراً منگواتے اور ان سے پڑھوا کر سماعت فرماتے۔ یہاں سے آپ کے ذوقِ مطالعہ کو مزید جلا ملتی گئی اور آپ کے علم و قلم میں بھی نکھار آگیا چنانچہ زمانۂ طالب علمی ہی میں اگست 2002ء میں آپ نے اپنے استاذی المکرم رئیس التحریر علامہ محمد منشاء تابش قصوری صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی حیات وخدمات کے حوالے سے پہلا مضمون”ہوگا چرچا تا ثریا اس دن تابش ترا” لکھا جو حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہورِ زمانہ کتاب”کیمیائے سعادت "کے اردو ترجمہ” سنہری عبادت” کے آخر میں صفحہ 935تا947پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ ترجمہ علامہ محمد منشاء تابش قصوری صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے کیا ہے اور اسے شبیر پر لاہور نے شائع کیا ہے۔ اسی طرح آپ نے سال اول اور سال دوم کے طلباء کے نصاب کے لئے ” روح ادب” کے نام سے دو کتابیں لکھی ہیں ان دونوں میں پروفیسر ڈاکٹر رحمت علی شاد بھی شریک تحریک ہیں۔#مظہر اشرفیت ڈاکٹر پیر سید محمد مظاہر اشرف الاشرفی الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی تاب ناک حیات پر ایک نظر# مظہر اشرفیت ڈاکٹر پیر سید محمد مظاہر اشرف الاشرفی الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ (پ: 16/ذیقعدہ 1356ھ/19/جنوری 1938ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔م:15/ربیع الاول 1435ھ/17/جنوری 2014ء) کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ گلستانِ سادات کے ایک گل سرسبد ہیں ۔ آپ کے والد گرامی فخر السادات قطب ربانی پیر سید محمد طاہر اشرف الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ آپ کی ولادت دہلی میں ہوئی، آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر میں ہوئی ۔ درس نظامی کی کتابیں اپنے ماموں علامہ مولانا محمد نسیم احمد رحمۃ اللہ علیہ سے شروع کیں۔ قیام پاکستان کے بعد آپ اپنے والد گرامی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ پہلے لاہور پھر کراچی آگئے۔ یہاں ابتدائی سالوں میں کئی صبر آزما اور نہایت تکلیف دہ حالات کا سامنا کرنا پڑا آخر قسمت نے یاوری کی اور مجاہد ملت علامہ عبد الحامد قادری بدایونی رحمۃ اللہ علیہ کے توسل سے فردوس کالونی کراچی میں ایک قطعہ اراضی قیمتاً مل گیا جہاں مکان تعمیر کیا اور آپ کے والد گرامی رحمۃ اللہ علیہ یہاں زندگی کے آخری لمحات تک ٹھہرے رہے۔اسی مکان کے نصف حصہ میں مظہر اشرفیت رحمۃ اللہ علیہ نے دارالعلوم جامعہ طاہریہ اشرفیہ بھی قائم کئے رکھا۔ یہاں کراچی میں آپ نے تاج العلماء علامہ مفتی محمد عمر نعیمی اشرفی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم درس گاہ جامعہ عربیہ بحر العلوم میں علوم درسیہ عربیہ کی تکمیل فرمائی۔ تصوف وسلوک کے اسرار و رموز اپنے والد گرامی رحمۃ اللہ علیہ سے سیکھے۔ عصری تعلیم کے لئے انگریزی سکول میں داخل ہوئے اور ہر جماعت
نمایاں نمبروں سے پاس کرتے گئے۔ 1956,ء میں اعلیٰ نمبروں میں میٹرک کا امتحان پاس کیا پھر جناح کالج اور ڈی جے سائنس پری میڈیکل کالج اور ڈاؤ میڈیکل کالج میں علی الترتیب پڑھتے رہے۔ 1959,ء میں میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان تشریف لے گئے۔ 1960,ء میں صرف بائیس سال کی عمر میں بدر اشرفیت پیر سید مختار اشرف رحمۃ اللہ علیہ سجادہ نشین آستانہ عالیہ کچھوچھہ شریف (انڈیا) کی حقیقی بھانجی سیدہ نور جہاں اشرف صاحبہ سے آپ کا عقد مسنون ہوا اور ازدواجی زندگی کا آغاز ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو صاحب زادوں اور تین صاحب زادیوں کی نعمت سے نوازا ۔ صاحب زادوں کے اسمائے گرامی محمد اوحد الدین سید اشرف اور سید محی الدین محمد اشرف ہیں۔ صاحب زادیوں کے اسمائے گرامی سیدہ شبانہ اشرف، ڈاکٹر سیدہ فرحانہ اشرف اور سیدہ شمعانہ الاشرف ہیں ۔ بڑے صاحبزادے محمد اوحد الدین سید اشرف عین عالم جوان میں داغ مفارقت دے گئے ہیں، باقی ساری اولاد بقیدِ حیات ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس گلشن سادات اشرفیہ کو ہمیشہ شاد وآباد رکھے۔ آمین۔ ۔۔ قلم و قرطاس سے آپ کا ہمیشہ گہرا تعلق رہا ہے۔ جہاد بالقلم کے محاذ پر آپ کی ناقابلِ فراموش خدمات ہیں۔ ذوالحجۃ 1412ھ/جولائی 1992ء میں آپ نے روشنیوں کے شہر کراچی سے ایک ماہ نامہ”آستانہ” کا اجراء عمل میں لایا۔یہ رسالہ کافی عرصہ آسمان صحافت پر جگمگاتا رہا۔ محدث اعظم ہند علامہ سید محمد محدث کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ کی یاد میں ماہ نامہ”آستانہ” کی کئی خصوصی اشاعتیں بھی سامنے آئی ہیں ۔ اس میں پاک وہند کے نامور اہل علم و قلم کے مضامین ومقالات شائع ہوتے تھے۔ ضرورت ہے کہ کوئی فاضل محقق آگے بڑھے اور "آستانہ” کا ایک مفصل اشاریہ مرتب کر کے سامنے لے آئے ۔ اس میں شامل مضمون ومقالات کو بھی یکجا کرکے کتابی صورت میں شائع کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہماری سنی صحافت کی تاریخ مرتب کرنے والوں کے لیے آسانی ہو۔ ۔۔۔۔ اسی طرح آپ نے رجب المرجب 1436ھ/مئی 2015ء میں لاہور سے شام کا ایک اخبار "انکشاف حق” کا اجراء بھی فرمایا تھا جو دو سال تک نہایت کامیابی سے شائع ہوتا رہا۔ اس کا” اشاریہ” بھی مرتب کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور اس کے شذرات اور مضامین ومقالات بھی اکٹھا کر کے کتابی صورت میں ازسرنو شائع کئے جائیں تاکہ آپ کی صحافتی خدمات کو محفوظ کیا جا سکے۔ ان کے علاوہ مختلف موضوعات پر آ
پ
کی کئی کتابیں مشہور ومعروف ہیں ان میں قطب ربانی، محبوب ربانی، مسائل رمضان المبارک وعید الفطر،لطائف اشرف، صراط الطالبین فی طریق الحق والدین، حجۃ الذاکرین، مغرب کی سیر، دبستانِ اشرف، میری یادیں، روحانی برسات اور تجلیات محدث اعظم کے نام شامل ہیں انگریزی زبان میں آپ کی دو کتابیںbasic. Studie. Of Islam. اورislsm. The religion. Of truth کافی مشہور ہیں ۔ "دیوان اشرف” آپ کا شعری مجموعہ ہے جس میں آپ کا نعتیہ کلام اور مناقب شامل ہیں۔ آپ کا کلام سوز و گداز اور محبت وعقیدت سے لبریز نظر آتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس میں آمد ہی آمد ہے، آورد نام کی چیز تو اس میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔۔۔۔۔۔# زیارت حرمین شریفین#.. آپ 21مرتبہ حج بیت اللہ اور روضہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ اور 67بار عمرہ کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے۔ ایں سعادت بزور بازو نیست۔ ۔۔ #سیروا فی الارض اور آپ کی سیر و سیاحت#.. قرآن کریم میں”سیروا فی الارض” کے الفاظ کئی بار آئے ہیں ۔ نسل انسانی کا روئے زمین پر آغاز ہی سفر سے ہوا ہے ۔ انسان روز اول سے سفر میں ہے۔ سفر کرنا ہر انسان کی فطرت کی شامل ہے۔ کوئی کم سفر کرتا ہے اور کسی کی ساری زندگی ہی سفر میں گزر جاتی ہے ۔ ہر انسان اپنی استطاعت اور طلب کے مطابق سفر ضرور اختیار کرتا ہے مظہر اشرفیت ڈاکٹر پیر سید محمد مظاہر اشرف الاشرفی الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے "سیروا فی الارض” کے تحت دنیا بھر کا سفر کیا ۔ آپ نے دیار مقدس حرمین شریفین، برطانیہ، فرانس،امریکہ، کینیڈا، جرمنی، آسٹریلیا، ملائیشیا، بھارت، دوبئی،ترکی،ایران، عراق،شارجہ، یوگو سلاویہ،بلغاریہ، اٹلی، سوئیٹزر لینڈ،تھائی لینڈ، سنگاپور وغیرہ کا بار بار سفر کیا۔ آپ جہاں بھی گئے، اپنے عمل وکردار اور اقوال و افعال سے دنیا کو متاثر کیا، کئی غیر مسلم آپ کے حسنِ اخلاق اور حکیمانہ انداز تبلیغ سے متاثر ہو کر حلقۂ بگوش اسلام ہوئے ۔مظہر اشرفیت ڈاکٹر پیر سید محمد مظاہر اشرف الاشرفی الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسی عالم گیر شخصیت ہیں جو بیک وقت ایک شیخ طریقت، عالم باعمل، بے مثال خطیب، بیدار مغز مقالہ نگار، حاذق حکیم، با کمال شاعر، مصنف تصانیف کثیرہ، اعلیٰ منتظم ، بے باک صحافی اور سفر نامہ نگار کی حیثیت سے اپنی پہچان اور شناخت رکھتے تھے۔۔ # سید مظاہر اشرف کے سفر نامہ”مغرب کی سیر” کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ”…. ۔۔۔ یوں تو کئی لوگوں نے مغربی ممالک کی سیر و سیاحت کی ہے۔ ان میں کچھ تو ایسے ہیں جو مغربی ممالک میں گئے تو پھر ان ہی لوگوں کے رنگ میں رنگے گئے اور اپنے ایمان وعقیدہ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور کچھ ایسے پاک طینت بھی ہوتے ہیں جو مغربی ممالک میں جاتے ہیں تو پھر اپنے اخلاق حسنہ اور اقوال و افعال سے مغربی ممالک کے لوگوں کو اپنا ایسا گرویدہ بنا لیتے ہیں کہ وہ بالآخر حلقۂ بگوش ہو جاتے ہیں۔ ایسے پاک طینت اور باکمال لوگوں میں مظہر اشرفیت ڈاکٹر پیر سید محمد مظاہر اشرف الاشرفی الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا نام نہایت روشن اور نمایاں ہے ۔ آپ میڈیکل کے طالب علم کی حیثیت سے انگلستان گئے ۔ پھر کئی بار آنا جانا ہوا، دیگر مغربی ممالک کی کئی بار سیر و سیاحت کی، آپ نے اہل مغرب کو بڑے قریب سے دیکھا، وہاں کی آلائشوں کے درمیان سے گزرے لیکن اپنے دامن کو داغ دار نہ ہونے دیا، بے حیائی اور بے شرمی کے کئی طوفانوں میں سے آپ نے انتہائی استقامت واستقلال سے اپنی شخصیت کو سنبھال کر رکھا اور کسی قسم کا داغ دھبہ تک اپنے نزدیک نہ آنے دیا۔ ڈاکٹر اقبال نے غالباً ایسے ہی موقع کے لئے فرمایا ہے: # خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ// سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف#… آپ نے وہاں جو کچھ دیکھا، مشاہدہ کیا وہ بلا کم و کاست اپنے انداز میں صفحہ قرطاس پر منتقل فرما دیا ، آپ نے نہایت متانت اور سنجیدگی سے مغرب کی تہذیب وتمدن سے پردہ اٹھایا، آپ نے جہاں اپنی وہاں کی روح پرور یادیں محفوظ فرمائی ہیں وہاں مغرب کی بھر پور سیاسی اور مذہبی منظر کشی بھی کی ہے ۔ آپ نے نہایت دلچسپ اور خوب صورت پیرائے میں نہ صرف مغرب کی سیر و سیاحت کو پیش کیا ہے بلکہ وہاں کی بیش بہا معلومات بھی دی ہیں۔ آپ نے کچھ اس انداز میں اپنے رواں دواں قلم سے اپنی مغرب کی سیر کو صفحۂ قرطاس پر منتقل فرمایا ہے کہ اسے پڑھنے والا بھی اپنے آپ کو ان کا ہم سفر خیال کرنے لگ جاتا ہے۔ پہلے پہل آپ کا یہ سفر نامہ ڈاکٹر ایس ایم ایم اشرف کے نام سے”لندن سے روم۔۔ روم سے لندن” کے عنوان سے آپ کے مشہور زمانہ رسالہ ماہ نامہ”آستانہ”کراچی میں قسط وار شائع ہوتا رہا۔ اہل علم و فضل نے اسے بنظر تحسین دیکھا۔ اسے علمی و ادبی حلقوں میں زبردست پزیرائی حاصل ہوئی۔ سفر نامہ میں آپ کے سادہ، آسان اور دلنشین اسلوب نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا۔ الحمدللہ علی احسانہ،1427ھ/2006ء کو آپ کا یہ مقبول عام سفر نامہ”مغرب کی سیر” کے عنوان سے لاہور سے پانچ ضخیم جلدوں میں شائع ہو کر سامنے آیا۔ یہ سفر نامہ جیسے "آستانہ” میں شائع ہوتا رہا ۔ بالکل اسی طرح من و عن اسے پانچ جلدوں میں شائع کر دیا گیا ہے حالانکہ اس پر نظر ثانی کی ضرورت تھی، اس کی از سر نو ترتیب وتدوین کی جانی چاہیے تھی ، اس میں پیرہ بندی اور موضوعات کے عنوانات قائم کر کے اسے جدید انداز میں پیش کیا جاتا تو اس کی افادیت واہمیت دو چند ہو سکتی تھی۔ بہر کیف اس سفر نامہ کو سابقہ صورت ہی میں کتابی صورت میں چھاپ دینا بھی ایک بہت بڑا کام ہے جس پر اس کا ناشر ہدیہ تبریک اور مبارک باد کے مستحق ہے۔۔ اللھم زد فزد۔۔۔ فاضل مقالہ نگار محمد مختار احمد اشرفی نے یونیورسٹ
ی آف لاہور، پاک پتن کیمس سے سیشن 2015ءتا2017ء میں صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر شعیب عتیق خان صاحب کی نگرانی میں ایم فل کے لئے”سید مظاہر اشرف کے سفر نامہ”مغرب کی سیر’ کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ” لکھنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ ماشاءاللہ، آپ نے نہایت محنت سے یہ مقالہ پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہے اس پر مقالہ کی ترتیب و تہذیب ، ابواب بندی ، عنوانات، حواشی و حوالہ جات شاھد و ناطق ہیں ۔ آپ نے پیش نظر مقالے کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے باب میں فاضل مقالہ نگار نے سفر کے لغوی واصطلاحی معانی، مختلف حوالوں سے سفرنامے کی تعریف متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سفر نامے کے عناصر، تکنیک اور اسلوب پر بحث کی گئی ہے، اردو سفر نامے کی روایت کو آغاز سے عہد جدید تک قلم بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔۔ دوسرے باب میں مظہر اشرفیت ڈاکٹر پیر سید محمد مظاہر اشرف الاشرفی الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے احوال و آثار دئیے گئے ہیں۔ ان کا خاندانی پس منظر، تعلیم وتربیت، سفر یورپ، روحانی پہلو، شعر گوئی اور آپ کی نثری تخلیقات کا اجمالی تعارف پیش کیا گیا ہے۔ نیز اس باب میں مظہر اشرفیت ڈاکٹر پیر سید محمد مظاہر اشرف الاشرفی الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا مقام بحیثیت استاد، بحیثیت تاجر، بحیثیت شاعر اوربحیثیت روحانی و جسمانی طبیب نہایت احسن انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ آپ کی سیرت و کردار کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے اور آپ کی وفات حسرت آیات کے روح فرسا لمحات بھی محفوظ کر دئیے گئے ہیں۔ تیسرے باب میں "مغرب کی سیر” کا موضوعاتی جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ اس میں "مغرب کی سیر” کے تاریخی موضوعات اور جغرافیائی حالات نہایت تفصیل سے پیش کئے گئے ہیں۔ ۔۔ چوتھے باب میں "مغرب کی سیر” کے سفر نامے کا فنی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کا اسلوب، الفاظ و تراکیب،محاورات، سادگی و سلاست،حقیقت نگاری، بیانیہ انداز، سنجیدہ پن،منظر نگاری،ادبی چاشنی، جزئیات نگاری،جذبات نگاری اور واقعہ نگاری وغیرہ کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔۔۔ پانچویں باب میں اردو سفر نامے میں ڈاکٹر سید محمد مظاہر اشرف کا مقام ومرتبہ واضح کیا گیا ہے۔ آخر میں مآخذ و مراجع کی فہرست”کتابیات” کے عنوان سے پیش کر دی گئی ہے۔ اور بالکل آخر میں "ضمیمہ جات” بھی پیش کر دئیے گئے ہیں۔ بندہ نے فاضل مقالہ نگار کے پیش نظر مقالے کا بنظر غائر مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ واللہ! مقالہ نگار میرے ممدوح مظہر اشرفیت ڈاکٹر پیر سید محمد مظاہر اشرف الاشرفی الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے تاریخی اور یاد گار سفر نامہ”مغرب کی سیر” کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ پیش کرنے میں کامیاب و کامران نظر آتا ہے ناچیز ہیچ مدان اس کی تکمیل اور اشاعت پر مقالہ نگار محمد مختار احمد اشرفی کی خدمت میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ہدیہ تبریک اور مبارک باد پیش کرتا ہے۔ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ، بہت خوب اللھم زد فزد۔ یقیناً اردو زبان میں لکھے گئے سفر ناموں میں "مغرب کی سیر” کا مقام ومرتبہ بھی نہایت روشن اور نمایاں ہے۔ دیرینہ مہربان اور قدردان حافظ محمد رفیق اشرفی زید مجدہ کی تحریک وتشویق پر اس تحقیقی مقالہ پر ناچیز کو تقدیم لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل مقالہ نگار کے علم و قلم میں مزید جولانیاں، روانیاں، فراوانیاں، تابانیاں اور آسانیاں عطا فرمائے اور اس مقالہ میں ان کے تمام معاونین، مخلصین، محبین اور قارئین کے علم و عمل میں بھی مزید برکتیں عطا فرمائے۔ اس مقالہ کو شہرت عام اور بقائے دوام بخشے اور ہم سب کا خاتمہ بالخیر فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وازواجہ وذریتہ واولیاء امتہ وعلما ملتہ اجمعین۔
دعا گو ودعا جو، گدائے کوئے مدینہ شریف، احقر سید صابر حسین شاہ بخاری قادری غفرلہ”خلیفۂ مجاز بریلی شریف”, سرپرست اعلیٰ ماہ نامہ مجلہ الخاتم انٹر نیشنل، ہماری آواز، مدیر اعلیٰ الحقیقہ، ادارہ فروغ افکار رضا و ختم نبوت اکیڈمی برھان شریف ضلع اٹک پنجاب پاکستان پوسٹ کوڈ نمبر 43710(26/ربیع الآخر 1443ھ/2/دسمبر 2021ء، جمعرات بوقت 1:15رات)