تنقید و تبصرہ شعر و شاعری شعراء

عشق و عقیدت سے لبریز قاری اسرائیل اثرؔ فیضی کی نعتیہ شاعری

شاعری ٬ فنونِ لطیفہ کی ایک مقبول ترین قسم ہے اور مصوری و نقالی اس کی حقیقت و ماہیت میں داخل ہے ۔ شاعری کو دلی جذبات کے اظہار کا جو نام دیا گیا ہے ٬ وہ در اصل اسی مفہوم کو اجاگر کرتا ہے ٬ جس میں مصوری و نقالی شامل ہے ۔ شعر یا شاعری ٬ شعور سے مشتق ہے ۔ انسان کے شعور کو بیدار کرنا ٬ اس کا بنیادی مقصد ہے ۔ غفلت کے اندھیروں میں بھٹک رہے انسان کے دل میں شعور و آگہی کا چراغ روشن کرنا ٬ بہت بڑا کام ہے ۔ جب انسان کا شعور بیدار ہو جاتا ہے تو وہ اچھائیوں کا خوگر اور برائیوں سے دور و نفور ہونے لگتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ دینی و اخلاقی نقطۂ نظر سے ایک کامیاب ترین انسان بن جاتا ہے ۔ ادب ٬ جس کی ایک اہم اور مقبول ترین قسم شاعری ہے ٬ کا مقام و منصب اخلاقی اقدار کی توسیع ٬ حقانیت کا درس ٬ انسانیت کا فروغ ٬ فکر و بصیرت ٬ شعور و آگہی کی بیداری اور دین و مذہب کی ترویج و اشاعت ہے ۔ قرآنِ مقدس ( جو عربی ادب کا ایک شاہکار نمونہ ہے ) نے سب سے پہلے انسانوں کا شعور بیدار کیا ہے ٬ اس کے بعد ہی ان کو توحید و رسالت ٬ ایمان و اسلام اور دیگر اخلاقی و مذہبی احکام کا پابند بنایا ہے ۔ مسرت سے شروع ہو کر بصیرت پر ختم ہونے والی حقیقت کو ادب و شاعری کہتے ہیں ۔ آپ دنیا کے کسی بھی ادب کا مطالعہ کریں ٬ اس میں بنیادی طور یہی چیزیں نظر آئیں گی ۔ شاعر ملک اور سماج کا سب سے حساس فرد ہوتا ہے ۔ دوسرے افراد کی بہ نسبت اس کی قوتِ متخیلہ زیادہ حساس اور تیز ہوا کرتی ہے ۔ وہ کائنات کی ہر چیز اور دنیا میں برپا ہونے والے ہر قسم کے واقعے کو ایک مخصوص نظر سے دیکھتا ہے اور اس سے اپنے مطلب کی چیز نکال لیتا ہے ۔ شعر اور شاعر کی حقیقت و ماہیت کو جاننے کے لیے ذیل کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں ۔ مولوی شبلی نعمانی لکھتے ہیں :

شعر ( شاعری ) جیسا کہ ارسطو کا مذہب ہے ٬ ایک قسم کی مصوری یا نقالی ہے ۔ فرق یہ ہے ک مصور صرف مادّی اشیا کی تصویر کھینچ سکتا ہے ٬ بخلاف اس کے شاعر ہر قسم کے خیالات ٬ جذبات اور احساسات کی تصویر کھینچ سکتا ہے ۔ ایک شخص کا عزیز دوست جدا ہو رہا ہے ، اس حالت میں اس پر جو صد مے گذرتے ہیں اور دل دوز خیالات کا جوطوفان اس کے دل میں اٹھتا ہے ٬ شاعر اس کی تصویر اس طرح کھینچ سکتا ہے کہ اگر رنج و غم مادی چیزیں ہوتیں اور ان کی تصویر کھینچی جاتی تو وہی ہوتی جو شاعر نے الفاظ کے ذریعہ سے کھینچی تھی ۔ اس بنا پر کس چیز کا بیان جب اس طرح کیا جائے کہ اس کی اصلی تصویر آنکھو کے سامنے پھر جائے تو اس پر ” شعر ” کی تعریف صادق آئے گی ۔ دریا کی روانی ٬ جنگل کا سناٹا ٬ باغ کی شادابی ٬ سبزہ کی لہک ٬ خوشبو کی لپٹ ٬ نسیم کے جھونکے ، دھوپ کی شدت ٬ گرمی کی طپش ، جاڑوں کی ٹھنڈ ٬ صبح کی شگفتگی ، شام کی دل آویزی یا رنج ٬ غم ٬ غیظ ٬ غضب ٬ جوش ٬ محبت ، افسوس ٬ حسرت ٬ خوشی ٬ ان اشیا کا اس طرح بیان کرنا کہ ان کی صورت آنکھوں میں پھر جائے یا وہی اثر دل پر طاری ہو جائے ٬ یہی شاعری ہے ۔

( شعر العجم ٬ جلد اول ٬ ص : ۱۲ ٬ مطبوعہ : معارف پریس ٬ اعظم گڑھ )

نعت گوئی :

محمد مصطفیٰ ﷺ کی بارگاہِ ناز میں احمدؔ !
ادب سے دست بستہ حاضری کو نعتؔ کہتے ہیں

نعت گوئی ٬ ادب کی جان ٬ شعر و سخن کی شان اور بحرِ فکر و فن کا لؤلؤ و مرجان ہے ۔ نعت نگاری ٬ خیال و فکر کی اس حسین اور پُر کیف جنت کا نام ہے ٬ جس کا نظّارہ چشمِ بینا کو فرحت و تسکین کا سامان فراہم کرتا ہے ۔ صنفِ نعت سرچشمۂ ہدایت بھی ہے اور مرکزِ عشق و محبت بھی ۔ ہدایت و سعادت ٬ عشق و وفا اور محبت و عقیدت کا چشمہ اسی سوتے سے پھوٹتا ہے ۔ نعت ٬ زندگی کا سلیقہ اور بندگی کا قرینہ سکھاتی ہے اور نعت گو کو دنیا و عقبیٰ کی بیش بہا کامیابیوں اور سرفرازیوں سے ہمکنار کرتی ہے ۔ حضور فخرِ موجودات ﷺ کی بارگاہِ ناز میں کمالِ ادب کے ساتھ دست بستہ حاضری دینے کے عمل کو ” نعت ” کہتے ہیں ۔ نعت گوئی ٬ رعنائیِ فکر و فن کے ساتھ غایت درجہ حزم و احتیاط اور عشق و وارفتگی کا مطالبہ کرتی ہے ۔ نعت گوئی کے لیے قرآن و حدیث ، تفسیر ، تاریخ ، زبان و ادب اور بالخصوص سیرتِ طیبہ کا گہرا علم و مطالعہ ضروری ہے ۔ ان علوم سے واقفیت حاصل کیے بغیر کامیاب اور پائیدار نعتیہ شاعری وجود میں نہیں آ سکتی ۔ شاعر کا دینی و مذہبی مطالعہ جتنا وسیع ہوگا ، اس کی نعت گوئی اتنی ہی اہم ، تہہ دار ، معنی خیز اور مستحکم ہوگی ۔ امامِ نعت گویاں سیدی سرکار اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی نعتیہ شاعری کی سب سے بڑی نمایاں علمی خصوصیت یہ ہے کہ ان کا ہر شعر قرآن و حدیث کا ترجمان ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک صدی سے زائد عرصہ گذر جانے کے با وجود ان کی شاعری کا رنگ پھیکا نہیں پڑا ہے ۔ کامیاب اور پائدار شاعری اپنے اندر بہت ساری علمی و ادبی خصوصیات رکھتی ہے اور جہاں تک خالص نعت گوئی کی بات ہے تو دیگر اصنافِ سخن کے مقابلے میں یہ کئی گنا دشوار صنف ہے ۔ دینی علوم ( قرآن و حدیث ، تفسیر ، سیرتِ طیبہ ) کے ساتھ جذبۂ عشقِ رسول ، آدابِ نبوت اور منصبِ رسالت کا پاس و لحاظ ، افراط و تفریط سے اپنے دامن کو بچاتے ہوئے اعتدال و توازن کا راستہ اختیار کرنا ، توحید و رسالت کے درمیان نازک اور لطیف فرق کو ملحوظِ خاطر رکھنا ، الفاظ و معانی کے انتخاب میں کامل ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا اور شرعی اصول وغیرہ کی پابندی کرنا بہت ضروری ہے ۔ یہ اقتباس ملاحظہ کریں اور نعت کی دشواریوں کا اندازہ لگائیں :

نعت ٬ شاعری کی بڑی مشکل صنف ہے ۔ اس میں جتنی حد بندیاں اور پابندیاں ہیں ، اتنی کسی اور ہیئت میں نہیں ۔ اس میں پیش آنے والے موضوعات میں حدِ ادب سے سرِ مو بھی تجاوز نہیں کیا جا سکتا ۔ جدت پسندی بھی ایک حد تک ہی اس میں روا رکھی جا سکتی ہے ۔ اس ہیئت میں حضور اکرم ﷺ سے عقیدت ، محبت ، ارادت اور عزت و احترام جزوِ کل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ نعت لکھنے سے پہلے شاعر کو فن سے واقفیت اور زبان پر کامل دسترس کے ساتھ ساتھ تاریخی شواہد ، قرآنی تفسیر اور حضور کی سیرت سے متعلق نہ صرف صحیح معلومات کا ذخیرہ ذہن و دل میں ہو ، بلکہ اسلامی قدروں کا غائر مطالعہ بھی اشد ضروری ہے ۔ عقیدت اور وجدانی کیفیات سے نور کی برساتیں ہوتی ہیں تو نعت شریف میں بڑی ابدیت اور آفاقیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ نعت در اصل دربارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم میں صالح محبتوں ، پاکیزہ عقیدتوں اور نیک جذبوں کے ساتھ گل ہائے عقیدت پیش کرنے کا عمل ہے ۔

( نعتیہ شاعری میں ہیئتی تجربے ، ص : 18 ، ناشر : ٹمل ناڈو اُردو پبلی کیشنز ، چننئی )

اکیسویں صدی عیسوی کے ہندوستان نے جن عظیم المرتبت نعت گو شعرا کو وجود بخشا اور جن کے نعتیہ نغموں سے ملک کا چپہ چپہ گونج اٹھا ٬ ان میں ایک نمایاں اور محترم نام عندلیبِ گلشنِ حجاز ٬ شہنشاہِ ترنم ٬ استاذ الشعراء جناب مولانا قاری اسرائیل اثرؔ فیضی مرحوم ( متوفیٰ : 8 / اگست 2024 ء ) کا بھی ہے ۔ آپ جماعتِ اہلِ سنت کے ممتاز نعت گو ٬ خوش الحان قاری اور بزرگ شاعر تھے ۔ آپ کی شاعری میں ساحری ٬ درد و کرب ٬ کشش و انجذاب ٬ عشق و وارفتگی ٬ والہانہ اندازِ بیان اور طرفگی و شیفتگی پائی جاتی ہے ۔ اللہ رب العزت نے آپ کو شاعری کے ساتھ خوش الحانی کی دولت سے بھی نوازا تھا ۔ آواز میں درد تھا ۔ جب اپنے مخصوص لہجے میں نعت خوانی کرتے تھے تو پورا مجمع جھوم اٹھتا تھا ۔ پاک صورت ٬ نیک سیرت ٬ خوش مزاج ٬ کم گو ٬ متواضع ٬ منکسر المزاج اور حسنِ اخلاق کے پیکر تھے ۔ جتنے بڑے شاعر اور نعت گو تھے ٬ اس سے کہیں بڑے عاشقِ رسول بھی تھے ۔ اسی جذبۂ عشقِ رسالت نے آپ کے اندر چھپے شعری جوہر کو نمایاں کر دیا تھا اور آپ کو عظیم نعت گو شاعر کی صف میں لا کھڑا کیا تھا ۔ قائدِ اہلِ سنت حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ جیسے عظیم عالم و مناظر آپ کی شاعری اور خوش الحانی کو پسند فرماتے تھے ۔ آپ کی زود گوئی بھی مسلّم ہے ۔ اسٹیج پر بیٹھے بیٹھے پورا کلام تیار کر دیتے تھے ۔ راقم الحروف نے اپنی زندگی میں دو ایسے شاعر کو خصوصیت کے ساتھ دیکھا ٬ اسٹیج پر جن کے پڑھنے کا انداز بڑا انوکھا اور سنجیدہ تھا ۔ ایک جناب قاری اسرائیل اثرؔ فیضی مرحوم اور دوسرے جناب فرقان بسملؔ بھاگل پوری مرحوم ۔ سچ پوچھیے تو ایسے ہی مخلص اور بے لوث افراد کی بدولت ممبرِ رسول کا تقدس اور دینی اسٹیج کی آبرو قائم تھی ۔ آج نعت خوانی کے نام پر تجارت شروع ہو چکی ہے اور نام نہاد شعرا ممبرِ رسول کے تقدس کو جس طرح پامال کر رہے ہیں ٬ وہ نہایت افسوس ناک ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ نعت یا منقبت نہیں پڑھ رہے بلکہ ڈانس کر رہے ہیں ۔ داد و تحسین کی بھوک اور طلبِ زر کی ہوس نے دینی اجلاس کا مقصد اور اس کا سسٹم ہی چوپٹ کر کے رکھ دیا ہے ۔ الامان و الحفیظ ! ایسے میں اثرؔ فیضی صاحب کی ذات مغتنم تھی ۔ ان کی نعت گوئی و نعت خوانی سے قوم کے سرد جذبات کو حرارت ملتی تھی اور اس کے عشق و ایمان میں تازگی پیدا ہوتی تھی ۔ افسوس کہ پوری زندگی اپنے نبی کی عظمت کا قصیدہ پڑھنے والا یہ عندلیبِ گلشنِ حجاز تقریباً نصف صدی چہچہانے اور نغمہ سنجی کرنے کے بعد دو ماہ قبل ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا ۔ اللہ رب العزت آپ کے صغائر و کبائر کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام بخشے آمین !

راقم الحروف کے نزدیک معیاری شاعری کی پہچان یہ ہے کہ اس میں ذہن و فکر کو اپیل کرنے اور تارِ روح کو جھنجھوڑنے کی بھر پور صلاحیت ہو ۔ ادھر شاعر کی نوکِ خامہ سے شعر ادا ہو ٬ ادھر قاری و سامع کے لبوں پر ” مرحبا صد آفریں ” اور ” آہ و واہ ” کے ترانے مچلنے لگیں ۔ نعت کے معیار کو ادبی و فنی نقطۂ نظر سے بھی پرکھا جاتا ہے اور جذبہ و احساس کی برانگیختگی کے لحاظ سے بھی جانچا جاتا ہے ۔ ادبی طبقہ کی یہ دھاندلی اور ایک قسم کی محرومی ہے کہ وہ نعت میں ادبی پہلوؤں کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں اور اس کو صرف اظہارِ عشق و عقیدت کا ذریعہ گردانتے ہیں ۔ ادب ادب ہے ٬ چاہے اس کا وجود کسی صنفِ سخن میں ہو ۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ ” الناس اعداء ما جھلوا ” ۔ انسان جس چیز کو نہیں جانتا ہے ٬ وہ اس کے ساتھ دشمنی کی حد تک برتاؤ کرتا ہے ۔ لیکن انصاف پسند ناقد ٬ جو فن پارہ کو کسی خاص عینک سے دیکھنے کا عادی نہیں ہوتا ٬ اس کو تقدیسی شاعری میں بھی ادبی معیار کی پرچھائیاں نظر آ جاتی ہیں ۔ استاذ الشعراء پروفیسر رانا غلام محیی الدین صاحب ( اوکاڑہ ٬ پاکستان ) نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ :

” مسلمان ہونے کے ناطے آقائے کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ اقدس سے والہانہ محبت ہمارے ایمان کا بنیادی جزو ہے ، سو ہر شاعر ان کی مدحت میں شعر کہنا اپنے لیے سعادت سمجھتا ہے ۔ بہت سے غیر مسلم شعرا نے بھی آں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بارگاہ میں ہدیۂ عقیدت پیش کیا ہے ۔ دیگر زبانوں کی طرح اردو میں بھی نعت گوئی کو ایک باقاعدہ صنف کی حیثیت حاصل ہے ۔ عہدِ حاضر میں بھی بہت سے شعرا ایسے ہیں جنھوں نے اپنے فن کو سرکارِ دو عالم ﷺ کی ثنا کے لیے وقف کر رکھا ہے ……… میرے نزدیک نعت کے معیار کو اس کی ادبی حیثیت سے جانچنا ایک قطعی مختلف عمل ہے ٬ جس میں اشعار کو فنِ شعر گوئی کے اصولوں پر پرکھنے کے بعد اس کے ادبی معیار کا تعین کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن جذباتی سطح پر اسے جانچنے کا حق صرف قاری کو حاصل ہے ۔ کیوں کہ یہ معاملہ شاعر اور اس کے ممدوح کے درمیان مؤدت و محبت اور عقیدت کے جذبات کی گہرائی کا ہے ٬ سو نعت کے اشعار اگر قاری کے وجدان اور روح کو سیراب کرنے اور اس پر وجد کی کیفیت طاری کر دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ صحیح معنوں میں معیاری نعت کہلانے کی مستحق ہے ” ۔

قاری اسرائیل اثرؔ فیضی کی شاعری اور بالخصوص ان کی نعت گوئی میں یہ وصف علیٰ وجہ الکمال موجود ہے ۔ ان کی نعت گوئی اس جہت سے معیاری شاعری کا دلکش نمونہ ہے کہ وہ قارئین کے دلوں کو جھنجھوڑنے اور ان کی روح میں سرایت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ انہوں نے عشق و وارفتگی کے اتھاہ سمندر میں ڈوب کر نعت کے گوہرِ آب دار بر آمد کیے ہیں اور بڑے سلیقے سے قارئین کے سامنے پیش کیے ہیں ۔ ان کی تخلیق کردہ نعوت کا مطالعہ قاری و سامع پر ایک روحانی اور وجد آفریں کیفیت طاری کر دیتا ہے ۔ ان کے نعتیہ کلام میں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت و عقیدت کے ساتھ ساتھ عجز و انکسار کے جذبات اس طرح سرایت کیے ہوئے ہیں کہ جیسے جسم میں روح ۔ ان کی نعت کے ہر شعر سے جذبۂ عشق کا والہانہ پن مترشح ہوتا ہے ۔ وہ جذبوں کی شدت کو بڑی سہولت سے سادہ زبان اور سنجیدہ لہجے میں سمو دینے کا فن خوب جانتے ہیں ۔ آپ کے مندرجہ ذیل اشعار ہمارے دعویٰ کو دلیل اور ثبوت فراہم کرتے ہیں :

اے حاجیو ! کیسی وہ مدینے کی زمیں ہے
خم صبح و مسا جس پہ فرشتوں کی جبیں ہے

تم عظمت سرکار کو قرآن سے پوچھو
حسنِ شہِ ابرار کو قرآن سے پوچھو
سرکار کے کردار کو قرآن سے پوچھو
سرکار کی گفتار کو قرآن سے قرآن سے پوچھو

ثانی کوئی سرکارِ مدینہ کا نہیں ہے
اے حاجیو ! کیسی وہ مدینے کی زمیں ہے

سرکارِ دو عالم کے پسینے کی بدولت
خوشبو ملی جب گُل کو بڑھی پھول کی عظمت
وہ ساقیِ کوثر ہیں ٬ وہی قاسمِ نعمت
وہ ختمِ رُسل ، فخرِ زمن ، مالکِ جنت

جنت مرے سرکار کے قدموں کے قریں ہے
اے حاجیو ! کیسی وہ مدینے کی زمیں ہے

ہے گلشنِ طیبہ کے ہر اک خار میں خوشبو
طیبہ کے ہر اک کوچہ و بازار میں خوشبو
ہر برگ و شجر ، کوہ و حجر ، غار میں خوشبو
ہر ذرّے میں خوشبو در و دیوار میں خوشبو

بے مثل ہیں وہ ایسے کہ سایہ بھی نہیں ہے
اے حاجیو ! کیسی وہ مدینے کی زمیں ہے

اللہ رے کسی اوج پہ ہے میرا مقدّر
مجھ کو شہِ بطحا کی غلامی ہے میسّر
سرکارِ دو عالم کا ہے سایہ مرے سر پر
ہیں سرورِ عالم ہی مرے مونس و یاور

اس واسطے خم میری عقیدت کی جبیں ہے
اے حاجیو ! کیسی وہ مدینے کی زمیں ہے

مذکورہ بالا اشعار کے ہر مصرع بلکہ ہر لفظ میں عشق و عقیدت اور ایمان و یقین کی خوشبو بسی ہے ٬ جو قارئین کے مشامِ جاں کو معطر کرنے کے لیے کافی ہے ۔ علاوہ ازیں ادبی و فنی نقطۂ نظر سے اس کلام میں فصاحت و بلاغت ٬ طہارت و نفاست ٬ سلاست و روانی ٬ سادگی و صفائی ٬ پاکیزہ خیالی ٬ برجستگی اور شیفتگی و گرویدگی پائی جاتی ہے ٬ جو شاعر کی قادر الکلامی کو ظاہر کرتی ہے ۔ سچ پوچھیے تو جناب قاری اثرؔ فیضی کی نعتیہ شاعری حضور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بے پناہ عشق و عقیدت کی آئینہ دار ہے ۔ انہوں نے اپنی نعتیہ شاعری میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی توصیف و ثنا ٬ فضائل و محاسن اور آپ کے عادات و شمائل کو جس عقیدت کے ساتھ پیش کیا ہے ٬ وہ ان کے عشق کی شدت اور جذبے کی صداقت کا غمّاز ہے ۔ آپ کی نعتیہ شاعری فن کے سانچے میں ڈھل کر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شخصیت ٬ سیرت اور محبوبیت کی شان لے کر ابھرتی ہے ٬ جو قارئین کو ایک مخصوص اور والہانہ کیفیت عطا کرتی ہے ۔ عشق و وارفتگی سے مملو یہ اشعار بھی ملاحظہ فرمائیں :

کیا خوب ہو جو ذکرِ شہِ بحر و بر کریں
سرکار ہی کی یاد میں شام و سحر کریں

ہر لمحہ دل کی دھڑکنیں بولیں نبی نبی
اس طرح عمر یادِ نبی میں بسر کریں

پڑھ کر درودِ پاک رسالت مآب پر
اپنی زباں کو اور بھی شیر و شکر کریں

قلب و دماغ و جسم و جگر میں مرے حضور
اک بار تو وفورِ عنایت سے گھر کریں

سینے میں بار بار مچلتی ہیں حسرتیں
اے کاش ہم بھی جانبِ طیبہ سفر کریں

کب تک رہیں گے دور مدینے سے ہم حضور
ہم پر بھی اک نگاہ اے خیر البشر کریں

کونین میں وقار ہمارا بلند ہو
گر دل سے اتباعِ شہِ بحر و بر کریں

ہم عاصیوں کی لاج ہے آپ ہی کے ہاتھ میں
آقا حضور ہم پہ کرم کی نظر کریں

ذاتِ رسولِ پاک اثرؔ بے مثال ہے
سورج پھرائیں وہ وہی شق القمر کریں

یہ بات بلا مبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ قاری اسرائیل اثرؔ فیضی ” فنا فی النعت ” تھے ۔ آپ کی پوری زندگی نعت گوئی میں بسر ہوئی ۔ نعت لکھنا اور نعت پڑھنا آپ کا مقصدِ حیات تھا ۔ جب آپ عشقِ رسالت مآب ﷺ کے اتھاہ سمندر میں غوطہ لگا کر نعت شریف کے اشعار گنگناتے تھے تو محفل کا سماں قابلِ دید ہوتا تھا ۔ آپ کی مدھر بھری آواز اور شائستہ لہجہ سامعین کے دلوں کو جیت لیتا تھا ۔ راقم الحروف آپ کو ” عہدِ حاضر کا میرِ نعت ” تصور کرتا ہے ۔ بس فرق اتنا ہے کہ میرؔ زلفِ غزل کی مشاطگی کیا کرتے تھے اور اثرؔ نعت کی زلفِ برہم سنوارنے میں مشغول و منہمک رہا کرتے تھے ۔ شعر و ادب اور نعت گوئی کے معاملے میں جناب اثرؔ فیضی ” ادب برائے ادب ” کے بجائے ” ادب برائے زندگی ” بلکہ ” ادب برائے بندگی کے قائل تھے ۔ آپ نعت کو زندگی اور حاصلِ بندگی سمجھتے تھے اور اسی مقصد کے تحت نعتِ سرورِ کونین علیہم التحیۃ و التسلیم رقم کیا کرتے تھے ۔ اسی لیے تو کہتے ہیں :

نعت ہی کی بدولت یہ عزت ملی
اور کیا چاہیے زندگی کے لیے

اے اثرؔ نعت پڑھ بزمِ سرکار میں
نعت ہے روح کی تازگی کے لیے

ایک فنکار تخلیقِ نظم و نثر کے دوران خارجی و داخلی دنیا کے اثرات قبول کیے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ اشیائے کائنات و حقائقِ عالم ٬ ادب کو غذا اور رنگ و روغن فراہم کرنے کا کام انجام دیتے ہیں ۔ شاعر و فنکار کو اپنی تخلیق میں خارجی و داخلی دنیا کے عناصر سموئے بغیر چارۂ کار نہیں اور یہی استعارہ کی تخلیق کا نقطۂ آغاز ہے ۔ جس طرح صحت مند آدمی خواب دیکھے بغیر نہیں رہ سکتا ٬ اسی طرح ادب تخلیقِ استعارہ کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ عملِ استعارہ کو رد کرنے یا اس پر بندھ باندھنے کا مطلب اپنی تخلیقی و فکری صلاحیتوں کو محدود کرنا ہے ۔ خواجہ الطاف حسین حالؔی نے ” مقدمۂ شعر و شاعری ” میں ایک جگہ لکھا ہے کہ استعارہ بلاغت کا ایک رکن اعظم ہے اور شاعری کو اس کے ساتھ وہی نسبت ہے جو قالب کو روح کے ساتھ ۔ کنایہ اور تمثیل کا حال بھی استعارہ ہی کے قریب قریب ہے ۔ یہ سب چیزیں شعر میں جان ڈالنے والی ہیں ۔ جہاں اصل زبان کا قافیہ تنگ ہو جاتا ہے ٬ وہاں شاعر انہیں کی مدد سے اپنے دل کے جذبات اور دقیق خیالات عمدگی کے ساتھ ادا کر جاتا ہے اور جہاں اس کا اپنا منتر کارگر ہوتا نظر نہیں آتا ٬ وہاں انہیں کے زور سے وہ لوگوں کے دلوں کو تسخیر کر لیتا ہے ۔ تشبیہ و استعارہ عروسِ سخن کے لیے زیور ہیں ۔ قاری اسرائیل اثرؔ فیضی سہل ممتنع کے شاعر ہیں ٬ تاہم غیر شعوری طور پر ان کے کلام میں درجنوں تشبیہ و استعارہ در آئے ہیں اور کلام کے حسن و دل آویزی کا سبب بن گئے ہیں ۔ مندرجہ ذیل نعت جس کی ردیف ہے : ” بطحا کا چاند ” حسنِ استعارہ کی بہترین مثال ہے ۔ علاوہ ازیں یہ نعت پاک رفعتِ خیال ٬ طہارتِ فکر ٬ پاکیزگیِ تخیل اور ندرتِ اسلوب کا بیش بہا نمونہ ہے ۔ نیز یہ مصرع : ” زندگی گم صم کھڑی تھی موت کی دہلیز پر ” زبان و بیان کے حسن کا دلکش مرقع ہے :

قصرِ باطل کے لیے اک زلزلہ بطحا کا چاند
آ گیا بن کر سراپا معجزہ بطحا کا چاند

آپ کی ذاتِ کریمی کا عجب دستور ہے
آشنا نا آشنا سب کو دیا بطحا کا چاند

آسماں کا چاند جس میں داغ کا انبوہ ہے
کس قدر بے داغ ہے دیکھو ذرا بطحا کا چاند

گل ہوا آتش کدہ ، ہیں لات و عزیٰ منہ کے بل
کچھ ہوا اس شان سے جلوہ نما بطحا کا چاند

آ سکے کیا اس کی رفعت حیطۂ افکار میں
عرش اعظم پر شبِ اسریٰ گیا بطحا کا چاند

کون ہے جو لا مکاں تک کا سفر تنہا کیا
بول اٹھے جبریل میرے مصطفیٰ بطحا کا چاند

زندگی گم صُم کھڑی تھی موت کی دہلیز پر
تو نے بخشا زندگی کو حوصلہ بطحا کا چاند

لمحہ لمحہ ڈھل رہی ہے نور میں طیبہ کی آس
اے اثرؔ احساس پر پھر چھا گیا بطحا کا چاند

نعت گوئی ٬ مدحت ٬ شعریت اور عقیدت کے منفرد آمیزے سے ظہور پذیر ہوتی ہے ۔ قاری اسرائیل اثرؔ فیضی صاحب کی نعتیہ شاعری اس وصف سے کافی حد تک متصف ہے ۔ آپ کے نعتیہ کلام میں ” شعریت ” کی بالا دستی نہ سہی ٬ لیکن مدحت اور عقیدت کی جلوہ آرائی ضرور ہے ۔ آپ کی والہانہ شاعری عشق و وارفتگی سے لبریز ٬ سادگی و طرفگی سے مرصّع اور تصنّع و تکلّف سے معرّیٰ ہے ۔ کہا گیا ہے کہ عندلیبانِ گلشنِ قال کے زمزمے کچھ اور ہوتے ہیں اور بلبلانِ گلستانِ حال کے چہچہے کچھ اور ۔ وہاں زیادہ تر قوائے عقلیہ سے خطاب ہوتا ہے ۔ یہاں سراسر قلب و روح کی جانب روئے سخن ہوتا ہے ۔ وہاں اصولِ بلاغت کی پابندی میں ” کوہ کندن و کاہ بر آوردن ہوتا ہے ۔ یہاں بہ اتباعِ سنتِ ” و ما ينطق عن الهوى ” کوئی کہلاتا ہے تو کہتے ہیں اور بے ساختہ کہتے ہیں ورنہ خاموش رہتے ہیں ۔ خود کو ” مریضِ عشق ” کہنے والے شاعر جناب اثرؔ فیضی واقعی مریضِ عشقِ مصطفیٰ ﷺ تھے ۔ آپ کے کلامِ عشق نظام میں مزید لفظی و معنوی خوبیاں نہ بھی ہوں تو یہی ایک خوبی آپ کا شعری قد و قامت بلند کرنے کے لیے کافی ہے کہ آپ کی شاعری جلوۂ عشق سے معمور ہے ۔ آپ کے نعتیہ کلام میں عشق و عقیدت سے لبریز سینکڑوں اشعار موجود ہیں جو عشاقِ نبی اور مریضانِ عشقِ مصطفیٰ کے لیے تریاق اور نسخۂ شفا کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اشعار دیکھیں :

مریضِ عشق ہوں میری نہ کچھ دوا کیجے
ملے گی مجھ کو یقیناً شفا مدینے سے

مدینہ عشق و محبت کی راجدھانی ہے
مريضِ عشق نہیں لوٹتا مدینے سے

یا نبی چشمِ کرم مجھ پہ اگر ہو جائے
پھر تو سر سبز مرے دل کا شجر ہو جائے

دور ہو جائے یقیناً یہ خزاں کا موسم
کبھی اس راہ سے جو تیرا گزر ہو جائے

عمر بھر پڑھتے رہو نعتِ پیمبر اے اثرؔ
زندگی تیری اسی طرح بسر ہو جائے

اپنے قرطاسِ دل پر بڑے شوق سے
مصطفیٰ کی محبت رقم کیجیے

میرے ارماں کی شاخوں پہ ہو پھول ، پھل
یا نبی ! میری مٹی کو نم کیجیے

جب مدینے کی آرزو قلب کو مضطرب اور بے چین کرتی اور جمالِ گنبدِ خضریٰ دل کو تڑپا تو یہ عاشقِ صادق اپنے قلبی اضطراب کو اس طرح دور کرتا :

دیکھیے وہ مطلعِ انوار تھوڑی دور ہے
یعنی کوئے سیدِ ابرار تھوڑی دور ہے

اے مری نازک خیالی ٬ اے دلِ شوریدہ سر
مطمئن ہو جا درِ سرکار تھوڑی دور ہے

سوئی قسمت کو جگالے ٬ کم نصیبی دور کر
اے دلِ بیمار ! وہ دربار تھوڑی دور ہے

ایک شاعر اور فنکار چاہے مضمون کتنا ہی انوکھا ٬ فکر انگیز اور معنی خیز ڈھونڈ کر لائے اور اسلوبِ بیان کتنا ہی دلکش اور دل فریب استعمال کرے ٬ لیکن اس کا کلام ردیف سے ہم آہنگ نہ ہو تو شاعری کا مزہ کِرکِرا جاتا ہے اور پورا شعر جسدِ بے روح معلوم ہوتا ہے ۔ یہ بات شاعر کی مہارتِ فن کی دلیل سمجھتی جاتی ہے کہ اس کے شعری نظام میں ردیف و قافیہ کی ہم آہنگی پائی جائے اور شعر کا سیاق و سباق ردیف کے ساتھ مربوط ہو ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ جناب قاری اسرائیل اثرؔ فیضی ایک ممتاز اور قادر الکلام نعت گو شاعر تھے ۔ شاعری و نعت گوئی کے اصول و ضوابط سے واقف تھے ۔ ان کی ایک مشہور نعت ہے ٬ جو بیان و بیان کا آسان اور خوب صورت نمونہ ہے ۔ اس کی ردیف بھی بڑی حد تک منفرد ہے ۔ ردیف ” آج نہیں تو کل سہی ” کو آپ نے بڑی مہارت اور خوب صورتی کے ساتھ نبھانے کی کوشش کی ہے اور اس میں کامیاب رہے ہیں :

باغِ رسول جائیں گے آج نہیں تو کل سہی
بخشش کا پھول لائیں گے آج نہیں تو کل سہی

ہوں گی دعائیں سب قبول ، شرط ہے طاعتِ رسول
جلوہ ہمیں دکھائیں گے آج نہیں تو کل سہی

ہر دم ہو ان کی جستجو ، دل میں رہے یہ آرزو
تشریف آپ لائیں گے آج نہیں تو کل سہی

اس گھر کو نہ اپنا گھر سمجھ ، اپنا نہ مال و زر سمجھ یہ سب تو چھوٹ جائیں گے آج نہیں تو کل سہی

راہ غلط کو چھوڑیے ، سچوں سے رشتہ جوڑیے
رب کے حضور جائیں گے آج نہیں تو کل سہی

پڑھتے رہیں گے صبح و شام ان پر درود اور سلام
دستِ کرم بڑھائیں گے آج نہیں تو کل سہی

نعت رسول جھوم کر پڑھتے ہیں ہم یہاں اثرؔ
طیبہ میں بھی سنائیں گے آج نہیں تو کل سہی

اثرؔ فیضی صاحب کی قادر الکلامی اور زود گوئی پر اہلِ علم و ادب کا اتفاق ہے ۔ اپنے نبی جناب محمد مصطفیٰ ﷺ کی توصیف و ثنا آپ کا مقصدِ حیات تھا ۔ ایک شاعر کو شعر گوئی و نعت نگاری کے ساتھ اسٹیج کی دنیا بھی میسر آئے ٬ یہ کوئی ضروری نہیں ۔ قاری اثرؔ فیضی صاحب کی یہ خوش نصیبی تھی کہ ان کو نعت گوئی کے ساتھ منبرِ رسول ﷺ پر جلوہ افروزی کا شرف بھی حاصل رہا ۔ وہ عوام و خواص کے ہر دل عزیز شاعر تھے ۔ اکابر علما و مشائخ آپ کی شاعری و نعت خوانی کو پسند کرتے تھے ۔ آپ کا روئے سخن ہمیشہ عوام کی طرف رہا ٬ اس لیے عوام کے فکر و مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے آپ نے سادہ اندازِ بیان کو ترجیح دی اور آسان لب و لہجہ میں شاعری کی ۔ لیکن چوں کہ آپ کے خامہ و فکر سے مترشح ہونے والے اشعار عشق و وارفتگی کا پُر خلوص اظہار اور مچلتے دل کی آواز ہوا کرتے تھے ٬ اس لیے ان میں بلا کی تاثیر ہوا کرتی تھی ۔ اثرؔ فیضی صاحب کے شعری ذخائر میں بہت سارے اشعار انتخابی ٬ اصلاحی اور انقلابی نوعیت کے حامل ہیں اور اخلاقی اقدار کے غماز ہیں ۔ موصوف اپنی شاعری میں جہاں بلند پایہ افکار و خیالات کو جگہ دیتے ہیں ٬ وہیں اپنی قوم کی اصلاح کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں ۔ آپ کی ” نعتیہ شاعری کا اصلاحی پہلو ” ایک مستقل عنوان ہے ٬ جس پر تفصیل سے ایک مقالہ تیار کیا جا سکتا ہے ۔ اس تناظر میں بطورِ مثال آپ کے دو کلام پیش کرتا ہوں ٬ مطالعہ کریں اور شاعر کے مصلحانہ جذبوں کو سلام پیش کریں :

( 1 ) زندگی کی نہ کر فکر تو موت کی تو نہ کر آرزو
جس کی مرضی سے آیا ہے تو اس کی مرضی سے جائے گا تو

اپنی مرضی نہ آنے میں ہے اپنی مرضی نہ جانے میں ہے کھول کر دیکھ لو دوستو ! ہے یہ قرآن کی گفتگو

ہاتھ آئے گا کچھ بھی نہیں ساتھ جائے گا کچھ بھی نہیں
ساتھ ایمان اور بس عمل قبر میں لے کے جائے گا تو

عیش و عشرت کی دنیا بدل اسوۂ مصطفیٰ پر تو چل
اب بھی اے قوم مسلم سنبھل حق کی ہر دم رہے جستجو

زندگی کو نہ شرمائیے موت سے یوں نہ گھبرائیے
کام کچھ ایسا کر جائیے پیشِ حق آپ ہوں سرخ رو

ہم گناہوں پہ نادم ہوں جب بخش دے گا گناہوں کو رب
اس نے بندوں کو ٹالا ہے کب اس کا وعدہ ہے لا تقنطوا

اے اثرؔ راہ ہے پُر خطر ساتھ رکھ لے تو زادِ سفر
حبِّ سرور ہے دل میں اگر تیری رہ جائے گی آبرو

( 2 ) سب کو اک دن یہاں سے جانا ہے
موت تو صرف اک بہانہ ہے

جو بھی کرنا ہے آج ہی کر لے
نیکیوں سے تو جھولیاں بھر لے
ہوگا کل کیا یہ کس نے جانا ہے
سب کو اک دن یہاں سے جانا ہے

چھوٹ جائیں گے مال اور اسباب
بن کے رہ جائیں گے یہ سب اک خواب
ان سے بے سود دل لگانا ہے
سب کو اک دن یہاں سے جانا ہے

عیش و عشرت میں آج کھویا ہے
کھول آنکھیں کہاں تو سویا ہے
چار دن کا یہ آشیانہ ہے
سب کو اک دن یہاں سے جانا ہے

فرشِ گیتی کا بوجھ مت بنیے
بات جو حق کی ہے وہی سنیے
کیوں کہ آقا کو منہ دکھانا ہے
سب کو اک دن یہاں سے جانا ہے

موت مہلت تجھے نہیں دے گی
اور فرصت تجھے نہیں دے گی
جی لے جب تک کہ آب و دانہ ہے
سب کو اک دن یہاں سے جانا ہے

تھام لے دامنِ شہِ کونین
تجھ کو مل جائے گا سکوں اور چین
پھر تو جنت ترا ٹھکانہ ہے
سب کو اک دن یہاں سے جانا ہے

کہتے ہیں کہ ” الاسماء تنزل من السماء ” نام آسمان سے نازل ہوتے ہیں اور اسم کا اثر مسمیٰ پر مرتّب ہوتا ہے ٬ جو سچ ہے ۔ آپ کا تخلص ” اثرؔ ” تھا ٬ یہی وجہ ہے کہ آپ کے نعتیہ کلام میں جذب و کشش اور اثر انگیزی کوٹ کوٹ کر بھری ہے ۔ آپ کے کلام کی نمایاں ترین وصف و خصوصیت سادگی اور صفائی ہے ۔ سادہ طرزِ بیان ٬ شستہ لہجہ ٬ سنجیدہ اسلوب اور صاف ستھرا اندازِ سخن نے آپ کے کلام کو انفرادیت بخشا ہے ۔ آپ کی شاعری عوامی شاعری ہے ۔ عوام کو جس زبان اور لہجے کی ضرورت ہے ٬ آپ نے اس کا بہر گام خیال رکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عوام آپ کے نعتیہ کلام کے رسیا اور گرویدہ ہیں ۔ سادگی اور سہلِ ممتنع آپ کے نعتیہ کلام کی سب سے بڑی خصوصیت ہے ۔ یہ کلام دیکھیں کہ اس سے بہتر سہلِ ممتنع کی مثال اور کیا ہو سکتی ہے :

آمنہ کے لال دیجیے
صاحبّ کمال دیجیے

عشق میں ہمارے اے نبی
جذبۂ بلال دیجیے

بحرِ غم میں گھِر گئے ہیں ہم
راستہ نکال دیجیے

کون ہے رسول کی طرح
ہے کوئی مثال دیجیے

ہم گناہ گاروں پر حضور
اک نگاہ ڈال دیجیے

ہم کو بھی شعورِ بندگی
ربِّ ذو الجلال دیجیے

ظلم ہو رہا ہے ہند میں
عزمِ با کمال دیجیے

کام آ سکے جو جنگ میں
ایسی کوئی ڈھال دیجیے

حق کی معرفت ہو قلب میں
باقی سب نکال دیجیے

ناتواں اثرؔ کے سر سے اب
آفتوں کو ٹال دیجیے

شاعری وہ الہامی کیفیت ہے جس کا نزول و وُرود حسّاس دلوں پر ہی ہوا کرتا ہے ۔ قاری اسرائیل اثرؔ فیضی حسّاس دل رکھنے والے ایک عظیم اور قادر الکلام نعت گو تھے ۔ وہ اپنی نعتیہ شاعری میں وارداتِ عشق کے اظہار کے ساتھ عصری مسائل اور بعض اوقات سماجی نا ہمواریوں کو بھی اجاگر کرتے تھے ۔ ان کا نکھرا ہوا عشقیہ اسلوب اور پُر کیف لہجہ اپنے اندر بڑی جاذبیت رکھتا ہے اور ان کی قادر الکلامی کو ظاہر کرتا ہے ۔ انہوں نے جتنا کہا ہے اور جو کچھ بھی کہا ہے ٬ وہ نعتیہ ادب کا قابلِ قدر ذخیرہ ہے ۔ ان کی اچھی ٬ سچی اور نکھری ہوئی شاعری پر کلام نہیں کیا جا سکتا ۔ عشق و عقیدت سے لبریز ان کی نعتیہ شاعری ہمیشہ قلوبِ عشاق کو تڑپاتی رہے گی ۔ اللہ رب العزت آپ کو نعت گوئی کا بہتر اجر و صلہ عطا فرمائے اور اس کے صدقے آپ کی مغفرت فرمائے اور آپ کے اہل و عیال کو شاد و آباد رکھے آمین !

تحریر و تبصرہ : طفیل احمد مصباحی

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے