تاریخ کے دریچوں سے

بابری مسجد کی شہادت بھارت کی تاریخ کا سب سے بھیانک دن اور مندر کو زمین دینا عدالت کا سب سے شرمناک فیصلہ

ازقلم: محمد شعیب رضا نظامی فیضی

یوں تو بھارت ایک جمہوری ملک ہے لیکن اکثر میں نے اپنی تحریروں میں درج کیا ہے کہ صرف کاغذ پر۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت ملک کے اکثریتی طبقہ کی رکھیل ہے جو جب چاہے کرجائے۔ ہمارے ملک کو آزادی 1947 میں ملی جس کے بعد یہ طے پایا کہ کوئی بھی مذہبی مقام آزادی کے وقت جیسا تھا ویسا ہی رہے گا۔ اس سے پہلے اور بعد کی بحث لغو مانی جائے گی یعنی آزادی کے وقت جہاں مندر تھا وہاں مندر رہے گا اور جو جگہ مسجد کے لیے تھی وہ مسجد ہی مانی جائے گی۔ مگر ان سارے قاعدے قانون کو بالاے طاق رکھتے ہوئے ملک کے شرپسندوں یعنی ہندوتواوادی تنظیموں نے 6 دسمبر 1992 کو اس پر حملہ کرتے ہوئے شہید کرڈالا۔ حالاں کہ اس سے پہلے ہی ہندو تنظیموں نے مسجد میں مورتی وغیرہ رکھ کر نفرت کی آگ بڑھکا دی تھی اور جب بابری مسجد کی شہادت کا مذموم واقعہ پیش آیا تو پورے ملک میں خون خرابے کا ماحول گرم ہوگیا اور سیکڑوں لوگوں نے اپنی جان گنوا دی۔ قطع نظر اس بات سے کہ مسلم ہوں یا ہندو؛ دونوں قوم کے لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ آج 29 سال اس مذموم واقعہ کو ہوگئے مگر ابھی تک اس کی شہادت کے مجرمین یا تو کھلے عام گھوم رہے ہیں یا اپنی طبعی موت پاکر جہنم رسید ہوچکے ہیں لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ زمین کا فیصلہ آنے کے 2 سال بعد بھی عدالت میں یہ معاملہ زیر بحث ہے اس تاخیر کی وجہ کیا ہے سب کو معلوم ہے کہ اگر مذکورہ معاملہ میں فیصلہ آیا تو یقیناً ملک کے اس طبقہ کے لوگ سلاخوں کے پیچھے ہوں جس طبقہ کے لوگوں کے ہاتھوں حکومت کی باغ ڈور ہے اب کیا کسی جج کی مجال ہوگی کہ وہ مسلمانوں کے مقابلہ کسی ہندو کے خلاف فیصلہ دے دے!!! اور ہاں ہماری قوم بھی صرف جذباتی ہوکر نکمی ہوتی چلی جارہی ہے ہمارے قوم کے اچھے اچھے لوگوں کو ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کہ بابری مسجد کی شہادت کا مقدمہ الگ ہے اور زمین کا الگ تھا۔
زمین کا فیصلہ آیا اور اتنا ناحق فیصلہ آیا کہ تاریخ میں اس کی نظیر ملنی بھی مشکل ہے۔ جہاں عدالت یہ تسلیم کر رہی تھی کہ 1949 میں مسجد میں مورتیاں رکھنا غیر قانونی تھا لیکن پھر بھی فیصلہ مندر کے حق میں۔ جہاں عدالت یہ کہہ رہی تھی کہ ہندو فریق یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ مندر توڑ کر مسجد بنوائی گئی تھی پھر بھی زمین مندر کو۔ جہاں جج نے یہ کہا کہ ہمارا فیصلہ مذہبی جذبات پر نہیں ہوگا مگر فیصلہ ہندوؤں کے مذہبی جذبات پر ہی ہوا۔ مطلب یہ ہوا کہ سب کچھ صحیح مگر فیصلہ تو ہندوؤں کے ہی حق میں ہوگا کیوں یہ فیصلہ عدالت میں نہیں بلکہ ایک بند کوٹھری میں پہلے ہی ہو چکا تھا جہاں مین جج کو یہ کہا گیا تھا کہ فیصلہ مندر کے حق میں کرو! ملک میں دنگا فساد کی بات تو دور کوئی فیصلہ پر زبان بھی نہیں کھولے گا کیوں کہ ہم نے اس کا بھی انتظام کردیا ہے اور جگہ جگہ صرف اور صرف مسلمانوں سے وعدہ لے لیا ہے کہ فیصلہ کچھ بھی ہو ہمیں منظور ہوگا ہم اس کے خلاف کچھ نہ کریں گے۔ اور ہاں، جج صاحب! یہ کوئی مفت کا کام نہ ہوگا بلکہ اس فیصلہ کا ہم بہترین انعام بھی دیں گے۔ ہم آپ کو راجیہ سبھا کی سیٹ دیں گے۔
واقعی عدل و انصاف کا اس دن جنازہ نکل گیا اسی دن سے ہم نے یہ تسلیم کرلیا کہ اب ملک میں عدالت نامی کوئی چیز باقی نہ رہی اب فیصلے مذہب کے بنیاد پر کیئے جائیں گے جس کے کئی ایک ثبوت ہم نے لاک ڈاؤن کے ایام میں دیکھ لیئے۔

بابری مسجد کی پوری تاریخ اور کیسے ظالموں نے اسے شہید کیا یہ جاننے کے لیے ہمارا ہندی کتابچہ ضرور پڑھیں!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے