تحریر: محمد احمد حسن سعدی امجدی
البرکات علی گڑھ
8840061391
یہ عالم رنگ و بو جس میں ہم اور آپ زندگی گزار رہے ہیں، نہایت ہی برق رفتاری کے ساتھ اپنے منازل کو طے کرتا ہوا نظر آ رہا ہے ، سال مہینے اور ہفتے کب آرہے ہیں اور کب ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو جا رہے ہیں ، اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے، ہر دن اور ہر تاریخ 365 دنوں کا چکر لگا کر اپنے دامن میں خوشیوں کا سمندر یا پھر رنج و غم کا سیل رواں لیے ہوۓ ہمارے سامنے آتا ہے اور اس کا انحصار گزشتہ سالوں میں اس دن ہمیں ملنے والی خوشی پر ہوتا ہے یا پھر اس دن ہمیں پہنچنے والی تکلیف پر، تو خوشی کے ایام جب ایک سال بعد لوٹ کر آتے ہیں تو اس سے ہماری خوشیوں میں چار چاند لگ جاتے ہیں ، اور اسی طرح جب تکلیف کے ایام ایک سال کے بعد لوٹ کر آتے ہیں تو ان پریشانیوں اور ہولناک واقعات کی یاد تازہ ہوجاتی ہے،انہی میں سے ایک تاریخ 6دسمبر ہے، مکمل ایک سال گزر جانے کے بعد جب یہ دن ہمارے سامنے آتا ہے تو 1992 کے اس سیاہ ترین دن کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں، جس میں فیض آباد کے ایودھیا میں تقریباً ساڈھے چار سو سالہ قدیم بابری مسجد کو بڑی ہی بے دردی سے شہید کر دیا گیا، یقینا اس چشم فلک نے شرنگریزی اور ظلم و ستم کے بے شمار مناظر کو ملاحظہ کیا ہوگا، اس کرہ ارض نے نفرت و جور کے بہت سے واقعات کو اپنی پشت پر محسوس کیا ہوگا ، لیکن 6 دسمبر 1992 جب بابری مسجد شہید کی گئی تو اس وقت چشمِ فلک نے بھی بے ساختہ آنسو بہائے ہوں گے ، اس دن جب اللہ کے گھر کے گنبد پر حملہ کیا گیا ، تو زمین بھی سسکیاں لے رہی ہوگی، وہ ظالم بظاہر یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے صرف ایک مسجد کو شہید کیا لیکن شاید وہ نہیں جانتے اس مسجد کی ایک ایک اینٹ کی حیثیت تمام ہندوستانی مسلمانوں کی جان سے بھی زیادہ قیمتی تھی، گویا ان ظالموں نے صرف بابری مسجد ہی کو نہیں بلکہ تمام ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات کو شہید کیا ہے، ہماری امیدوں کو شہید کیا ہے اور ہماری دعاؤں کو شہید کیا ہے ،اس سانحہ کو 29سال گزر جانے کے بعد اس کا درد آج بھی ہر ایک مسلمان کے دلوں میں ویسا ہی تروتازہ ہے ، وقت گزرتا رہے گا، حالات بدلتے رہیں گے لیکن ہمارے دلوں میں شہادت بابری کا جو درد والم ہے وہ مزید بڑھتا ہی جائے گا، اس طویل عرصہ کے دوران لاکھ سیاسی چالوں کے ذریعہ وہ ظالم قانونی طور پر اس جگہ کو اپنانے میں کامیاب تو ہو گئے لیکن ہم اپنی آنے والی نسلوں کو شہادت بابری مسجد کی درد بھری داستانیں سنائیں گے اور ان کے دلوں میں وراثت کے طور پر اس غم و تکلیف کو چھوڑ جائیں گے، تاکہ نسل نو کو پتہ چلے کہ دنیا میں اپنے آپ کو سب سے بڑے جمہوری ملک کے نام سے متعارف کرنے والے اس ملک کا قانون صرف کاغزوں ہی میں جمہوری ہے، صرف کہنے کے لیے یہ ملک ایک جمہوری نظام کے تحت چل رہا ہے لیکن حقیقت سے اس کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں، کیونکہ اگر واسطہ ہوتا تو وطن عزیز میں مسلمانوں کی عبادت گاہ پر یوں کھلے عام حملے نہ ہوۓ ہوتے،پہلے جارحانہ منصوبہ کے تحت 1949 میں بابری مسجد میں خفیہ طور پر مورتی رکھی گئی اور پھر حکومت کے ذریعہ اس زمین پر تنازع کی مہر لگا کر تالا لگا دیا گیا ، اس دوران ہندو مہا سبھا اور دیگر شرپسندوں نے اسے رام جنم بھومی بتا کر اس زمین کو ہتھیانے کی لاکھ کوشش کی، پھر 1992 کو اڈوانی کی قیادت میں ڈیڑھ لاکھ کارسیوکوں پر مشتمل ایک ریلی نکالی گئی اور اس ریلی کو ہندو مہا سبھا، آر ایس ایس اور بی جے پی کی کھل کر حمایت حاصل تھی ، اس جم غفیر نے ایودھیا میں حفاظتی حصار کو توڑتے ہوئے بابری مسجد کو منہدم کر دیا، یہ دہشت گردی آزاد بھارت میں گاندھی کے قتل کے بعد دوسری دہشت گردی تھی، جو کہ ملک کی جمہوریت اور گنگا جمنی تہذیب پر زور دار طمانچہ ہے، اس کے بعد کئی سالوں تک یہ مقدمہ الہ باد ہائی کورٹ میں چلا پھر 2010 کو الہ باد ہائی کورٹ نے متنازع زمین کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا مشورہ دیا، لیکن اس فیصلے کو عدم قبولیت کے درجہ میں اتارتے ہوئے اس مقدمہ کو سپریم کورٹ دہلی منتقل کیا گیا اور بالآخر آر ایس ایس اور بی جے پی کی ناپاک جدو جہد سے 2019 کو اس زمین کے حوالے سے سپریم کورٹ کا جانبدارانہ فیصلہ آیا اور اس زمین پر رام مندر بنانے کی اجازت دے دی گئی، اور مسلمانوں کے لیے ایک دوسرے مقام پر پانچ ایکڑ زمین دینے کا وعدہ کیا گیا،اسی کے ساتھ ہندوستانی جمہوری نظام کا ایک بار پھر گلہ گھوٹا گیا ، یقیناً مسلمانوں کے لیے یہ ایک ناقابل فراموش سانحہ بے۔