ازقلم: خلیل احمد فیضانی
آپ چو طرف نگاہ اٹھا کر دیکھیے…
ہر مقام پر ایک ہنگامہ بپا ہے…ہر رخسار پر آنسو ہیں…لوگ آلام حیات سے سرگشتہ ہیں…
بے گناہ قیدی سورج کی روشنی تک کو ترس رہے ہیں……..
.کتنی مائیں ہیں جن کے بیٹے نوخیزی اور عنفوان شباب میں ہی چل بسے……..
کتنےایسے مریض ہیں جو اپنی مرضی سے سانس نہیں لے سکتے,زبان کا ذائقہ تک انہیں نصیب نہیں ہوپاتا …
کوئی ذہنی کشاکش میں مبتلا ہے….توکوئی خارجی رسہ کشی میں مضطرب ہے..
.کچھ کی زندگانیاں بے مقصد تفکرات میں محصور ہیں…..تو کچھ کی زندگیاں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہیں….
غرض کہ لوگوں کی آنکھیں پرنم ہیں…
.روحیں بے چین سی ہیں…دلوں کی بستیاں اجڑی ہوئی ہیں..
.ایسے اندوہ ناک حالات, اللہ نہ کرے….
اگر ایک مومن کی زندگی میں پیش آجاے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی جبین عقیدت اپنے خالق کی بارگاہ میں جھکادے…..
..مولا سے رشتہ عبدیت اتنا مضبوط کرلے کہ غم گیتی بلکل اثرانداز نہ ہوپاے……
.اپنے سے زیادہ مصیبت زدہ کو دیکھے….
..مضبوط ترین سہارا "العطایا علی قدر البلایا”…پیش نظر رہے……ویسے بھی دنیا مومن کے لیے ایک قید خانہ ہے, کثرت مصائب اگر زندگی کے لیل ونہار کو اجیرن بنا بھی دے تو صبر کیجیے…..
کہ صبر کرنے والوں کے ساتھ اور کوئی ہو نا ہو اللہ تعالی کی مدد ضرور ساتھ ہوتی ہے…..
رخ فکر اگر اس طرف رہے گا تو ان شاء اللہ تعالی غم ہلکا ہوجاے گا…..اور مصیبتیں بھی مزہ دیتی محسوس ہوں گی…