تحریر: محمد اسلم حسنی
رب کریم اس دنیا کو معرض وجود میں لایا جہاں کچھ نہ تھا وہاں ذات باری تعالیٰ ہے وسیع کائنات کو نکھارنے اور چمکانے کے لئے اسکی کی زیبائش لازمی عنصر تھی طرح طرح کی نعمتیں اس دنیا میں سجا دی گئی آدم علیہ السلام کی جنت سے کائنات میں تشریف آوری کبھی بھی حکمتوں سے خالی نہیں ہے بجائے اندازے لگانے کے تہہ دل سے قبول کر لیں کہ دنیا نے معرض وجود میں آ نا تھا یہی رب کو مقصود تھا حضرت آدم تنہا تنہا مگر باری تعالیٰ نے اس تنہائی کو انسیت میں تبدیل فرما دیا جی ہاں یہ انسیت حضرت حوا یعنی عورت کی ذات تھی وجود زن سے ہے کائنات کی مہک اور کائنات کے رنگ مگر ٹھریئے عورت ایک حد ہے عورت نام ہے پردے عورت ایک نایاب تحفہ ہے المختصر مورخ لکھ گئے عورت کو دیکھ بھی لیا عورت کو پڑھ بھی لیاعورت کو جانچ بھی لیا عورت کو پہچان بھی لیا کیا عورت میں ایسے گوہر نظر آئے جس کی بنا پہ اسے تقدیس ملت کہا گیا عورت امہات المومنین بھی کہلائی عورت جنت کی سردار بھی بنی عورت کو سلام باری تعالیٰ کا حصول بھی ہوا عورت معلمہ صحابہ و صحابیات جیسی نعمت سے بھی نوازی گئی ذرا تدبر سے کام لیں دانشمندی کا انجام یہ ہے عورت ایک انمول گوہر ہے آپ کسی بھی تہذیب کو اٹھا کہ پڑھ لیں بخدا کسی ایک تہذیب میں بھی عورت کو مقدس نہیں رکھا گیا سوائے اسلام کے کیونکہ جہاں اس بے بس و لاچار کو زندہ درگور کردیا جاتا وہیں دین اسلام نے اسی بے بسی و لاچارگی کے قدموں میں جنت رکھ دی کہیں ماں کو بلال حبشی جیسا لال ملا کہیں بیٹی کو محمد جیسا باپ ملا کہیں بہن کو عمر جیسا بھائی ملا کہیں بیوی کو علی جیسا شوہر ملا ہمیں اسلام کے گن گانے سے کیوں کر اور کیسے روکا جاتا ہے ہمیں دین متین نے عزت حق سے نوازا ہے ایسا نوازا کہ رہتی دنیا تک یہ خلا پر نہ ہو پائے گا اے بنت ہوا دشمن تمھیں ورغلانہ چاہتا ہے تیرے ٹکڑے ٹکڑے کو چیرنا چاہتا ہے تیری عاجزی و انکساری پہ ظلم کی مہر لگا کر تجھے بدبودار بنا کر عیبوں کا مجموعہ بنانا چاہتا ہے طرح طرح کے سراب دکھا کر اپنے گھٹنوں میں دبا کر اپنی ہوس پوری کرنا چاہتا ہے خبردار حقوق نسواں کا نعرہ ہر سو گونج رہا ہے کہیں ان کے چرغے میں مت آ نا کہیں یہ ہوس کے بھوکے تقدیس ملت کو نا پاک جسارت سے بھوسہ نہ بنا دیں کہیں یہ ناپاک ارادے تمھارا حسن اور تمھاری عفت کو داغدار نہ بنا دیں کہ جہاں تقدیس ملت ہو وہاں کہیں تجنیس و عاصی نہ بن جاؤ رب کریم نے جو دیا اور حق و سچ دیا نہ کم اور نہ زیادہ دیا جتنی اوقات تھی اس سے بڑھ کر دیا اعتدال کے رکھوالے ہیں اسلامی روایات کے جیالے ہیں اپنی خاندانی روایات کو داڑھوں سے تھامے رکھو اسی میں ہماری ضمانت ہے یہ چور ہر داڑھ پہ نقب زنی کرنا چاہتے ہیں کیوں نہ کریں ہم تو ڈوبے ہیں صنم تمھیں بھی ڈبو دیں گے اپنی روایات اور اپنے خاندانی نظام کی دھجیاں بکھیرتے ہی اب مشرق وسطی ان کا مقصد اول اور درد سر بن چکا ہے تقدیس عورت کی سفینہ کو نقب لگانا جو رواں دواں منزل ہے اپنا فرض گردانتے ہیں سپر پاور بن کر سب پہ اپنی ڈھارس بٹھانا ان کی کم عقلی اور کم فہمی ہے افغانستان نے تمام خوابوں کا چکنا چور کر دیا اندھے منہ کھائی میں گر گئے اقوام عالم میں منہ چھپانے کی جگہ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں الزام تراشی کے پردے میں اپنی شکست کو بھلانا چاہتے ہیں مگر کب تک اور کیسے اسلامی تعلیمات ان کو ہمیشہ یاد دلاتی رہیں گی۔
اذا جاء نصر اللہ والفتح
