ازقلم: انصار احمدمصباحی
aarmisbahi@gmail.com / 9860664476
موجودہ سرکار کے دور اقتدار میں ، دو زور دار تحریکیں چلیں اور اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ آغاز اور درمیان دونوں کا یکساں تھا؛ لیکن دونوں تحریکوں کے انجام میں کافی فرق نظر آیا: ایک تحریک اپنے مقصد اور ہدف کے حصول میں حرف بحرف کامیاب ثابت ہوئی تو دوسری تحریک نے درمیان ہی میں اپنے دم خم توڑ دی۔
اول الذکر ”زرعی قوانین“ مخالف کسان آندولن ہے اور دوسری ” شہریت ترمیمی قانون“ مخالف تحریک۔ آج کسان آندولن کے مظاہرین ، اپنی شرطوں کو منوا کر گھر لوٹ چکے ہیں اور ”سی اے اے“ مخالف مظاہرین کچھ تو اپنی تحریک بھول گئے ، کچھ عنوان تازہ کی تلاش میں لگ گئے اور کچھ با ضمیر سلاخوں کے پیچھے بند ہیں۔
دونوں تحریکوں میں کئی باتیں مشترک تھیں۔ ان دونوں تحریکوں کی یکسانیات دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے:
دونوں بی جے پی مخالف تھیں ، دونوں تحریکیں ملک میں اٹھنے والی تاریخی تحریکیں تھیں، دونوں نے بے گناہوں کی قیمتی جانیں گنوائیں ، دونوں نے کورونا کی مار جھیلیں ، گودی میڈیا کے آنکھوں کے کانٹے دونوں تحریکیں ثابت ہوئیں، دوننوں پولیس کا مشق ستم بنیں، ہر دو تحریک ، زعفرانی غنڈہ گردی کے شکار رہیں ، دونوں کا مطمح نظر کالے قوانین تھا ، مانگیں بھی دونوں کی یکساں تھیں ۔ بھارت کی یہ دو عدیم المثال تحریکیں آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں، دونوں اس قابل ہیں کہ انھیں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیے جائیں۔ کسان آندولن کو خالصتانی آندولن کہا گیا تو شہریت ترمیمی مخالف احتجاج کو پاکستانی ؛ کسان آندولن کو سکھ اور ہندو دھرم میں بانٹنے کی کوشش کی گئی تو CAA, NRC مخالف تحریک کو ہندو مسلم میں تقسیم کرنے کی شازش کی گئی۔
سی اے اے اور این آر سی قانون کی مخالفت میں اٹھنے والی تحریک ملک گیر تھی ، جب کہ کسان آندولن کے اثرات دوسرے علاقوں میں کم نظر آئے ؛ شہریت ترمیمی قانون مخالف تحریک میں اکثریت پڑھی لکھی نوجوان نسل کی تھی ، آداب شہریت ، لاء اینڈ آرڈر ، حقوق انسانی ، امن و امان وغیرہ بہ نسبت زیادہ جانتی تھی ، اس کے با وجود کسان آندولن تحریک کامیاب رہی اور CAA مخالف تحریک سر تا پا نا کام۔ ہم یہاں اس کے وجوہات جاننے کی کوشش کریں گے:
ناکامی کے وجوہات:
قیادتکافقدان: کسان آندولن تحریک میں ”سنکیت کسان مورچا“ کے بینر تلے لگ بھگ 500 تنظیموں کے اتحاد و اتفاق کی طاقت کار فرما تھی ، اس کی قیادت راکیش ٹکیت اور ان کے ہم نوا جیسے اعلی بصیرت اور سوجھ کے حامل قائدین کر رہے تھے؛ جب کہ ملکی پیمانے پر شروع ہونے والی ”شہریت ترمیمی ایکٹ“ مخالف احتجاج ، کسی مرکزی قائد کے بغیر ہی حق و انصاف کی لڑائی لڑ رہی تھی ، اعلی قیادت کے فقدان کی وجہ سے CAA مخالف تحریک میں ناپائیداری یقینی تھی ، سو ایسا ہی ہوا۔ کسی سیاسی جماعت نے سر پرستی کی ذمے داری نہیں لی، کانگریس نے خانہ پری کا کام انجام دیا، باقی سیکولر پارٹیوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیا۔ بے یار و مدد گار تحریک ، ذرا سی باد مخالف سے متزلزل ہو گئی۔
سیاسی عمل دخل:
سنکیت کسان مورچا پر سیاست کم ہوئی ؛ لیکن CAA مخالف تحریک پر سیاست حاوی رہی۔ ملک کی پر امن شہریوں کے احتجاجات اور اس کے اسٹیج کا سیاسی لیڈروں نے فائدہ اٹھایا ، جو مخلص تھے ، پولیس نے چن چن کر گرفتار کر لیا۔
چاپلوسی : شہریت ترمیمی ایکٹ کے معاملے میں اپنی ہی صف کے کچھ دلال لوگ قوم و ملت کا سودا کرتے نظر آئے اور صاف صاف حکومت کی چاپلوسی کے مرتکب ہوئے۔
عدم توازن:
CAA اور NRC مخالف مظاہرے پاے دار نہیں رہ پائے ۔ سارے مظاہرے علاقائی نوعیت کے تھے۔ شاہین باغ کا احتجاج سب سے نمایاں اور موثر رہا؛ لیکن بجاے اس کی حمایت اور اسے ”سنگھو بارڈر“ کی طرح تحریک کی شکل دینے کے ، علاقائی لیڈروں اور قائدین نے اپنے اپنے شہر ، گاوں اور قصبوں میں احتجاجی خیمے لگا لیے۔ یہ ایک اعتبار سے درست تھا، پر اس سے کہیں زیادہ ضروری تھا کہ شاہین باغ تحریک کو اتنا مضبوط کیا جاتا کہ اس کا دائرہ کار کالا قانون کی منسوخی تک جاری رہتا۔
کیا احیا یا نشاة ثانیہ ممکن ہے؟
کسی بھی تحریک کے لئے استقلال اور پاے داری بہت ضروری ہوتا ہے۔ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف جد و جہد جمہوریت کی لڑائی تھی ، اپنے حقوق کی لڑائی تھی ، جو مطالبات منوانے تک باقی رہنی چاہیے تھی۔ ہمارا جوش اور ولولہ بہت جلد سرد پڑ گیا۔ اور تو اور ، جو طلبہ بے جا گرفتار ہوگئے ، ان کی رہائی کی مانگ تک صرف رسمی طور پر کیا گیا ، شرجیل امام، میران حیدر ، عمر خالد، صفورا زرگر ، خالد سیفی ، شاہ رخ پٹھان ، عشرت جہان جیسے حساس بچوں کی رہائی کی خاطر ٹویٹر ٹرینڈ چلانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا گیا، کوئی خاطر خواہ خواہ اقدام نہیں ہوا۔ ایسے میں آواز اٹھانے والے بھی ، پھونک پھونک کر قدم رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔
ضرورت ہے تحریک کی احیا کی۔ سنکیت کسان مورچا کی کامیابی یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ بی جے پی اقتدار میں جو قانون بنتا ہے وہ ، منسوخ بھی ہو سکتا ہے۔ زعفرانی پارٹی کا زور دھیرے دھیرے ٹوٹ رہا ہے۔ ایسے میں وہ بھارت کے اس طبقے کو بھی رجھانے کی کوشش کرے گی۔ دوبارہ منظم ہوکر سی اے اے اور این آرسی کے خلاف آواز اٹھائی جاے تو کوئی نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے؛ ورنہ تاریخ میں جب دو یکساں تحریکوں کے دو مختلف نتائج دیکھے جائیں گے ، ہمیں ناکام کہا جائے گا۔