تنقید و تبصرہ

کتاب "انوار رسالت”ﷺ

تصنیف لطیف: قائد اہلسنت حضرت علامہ ارشد القادری رحمہ اللہ

تبصرہ نگار : محمد مجیب الرحمٰن رہبر
فاضل : الجامعة الاسلامیہ، رامپور یوپی


زیر تبصرہ کتاب "انوار رسالت ” ادیب الہند حضرت علامہ ارشد القادری رحمہ اللہ کے چند مختصر رسائل پر مشتمل ہے،جس علامہ نے میں اہلسنت و اہل بدعات کے مابین چند اختلافی امور پر لاجواب اور سیر حاصل بحث کی ہے, علامہ نے انہیں امور کو صفحہ قرطاس پر نقل کیا ہے کہ جن کا سہارا لے کر یا جن کی غلط تشریح و توضیح کرکے اہل بدعات بھولے اور سیدھے عوام کو جادہ حق سے بھٹکانے کی کوشش کرتے ہیں, اور بہت حد تک وہ اس میں کامیاب بھی ہہیں, جن امور پر علامہ نے بحث کی ہے وہ یہ ہیں
( ۱) محمد رسول اللہ قرآن میں (۲)سرکار کا جسم بے سایہ( ۳) جلوہ حق(۴) علم غیب(۵) نقش خاتم(۶) دور حاضر کے منکرین رسالت(۷) رسالت محمدی کا عقلی ثبوت ,

محمد رسول اللہ قرآن میں !
اس رسالے میں علامہ نے قرآن کی تقریبا 13 آیات مقدسہ مع شان نزول و پس منظر و پیش منظر کےپیش کر کے آقائے دو عالم کی اپنے رب کے یہاں کیا عزت ہے اس امر کو نہایت نفیس انداز سے ثابت کیا ہے، دراصل اس بحث کا محرک گروہ مخالف کا وہ باطل نظریہ بنا جس کی رو سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت بس اتنی سی ہے کہ آپ ایک” نامہ بر”ہیں اس کے علاوہ آپ کی آپ کےرب کے یہاں کوئی عزت و عظمت نہیں ہے,علامہ موصوف نےقرآن کریم سے 13 آیات مقدسہ نقل کرکے اپنے مقدمے کو اس قدر باوزن انداز میں پیش کیا کہ جس کے مطالعہ کے بعد گروہ مخالف کے اس خودساختہ نظریے کے تمام تارو پود بکھر کر رہ جاتے ہیں، اور یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ رسول ﷺ صرف نامہ بر نہیں بلکہ حبیب خدا بھی ہیں ,,

سرکار کا جسم بے سایہ !
ویسے تو اس موضوع پر علامہ موصوف کے علاوہ بھی کئی علماء نے خاطرخواہ لکھ دیا تھا ، لیکن پھر بھی شرپسند عناصر فتنہ پھیلانے سے باز نہیں آرہے تھے ؛لہذا اسی وجہ سے شہر بجنور سے” ریاض الاسلام بجنوری” نامی ایک شخص نے علامہ موصوف کی بارگاہ میں ایک سوالیہ مکتوب روانہ کیا اور اس میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اقدس بے سایہ ہونے پر دلائل عقلیہ ونقلیہ سے بھرپور جواب کا مطالبہ کیاجس کے بعد علامہ نے اس مسئلے پر ایک نفیس بحث فرمائی اور اس بات کو ثابت کیا کہ آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اقدس بے سایہ تھا، اور اپنے اس دعوے پر عقلی و نقلی دلائل سے اپنے مقدمہ کو پیش کیا ,,
جلوہ حق ،علم غیب ,
ان دونوں رسالوں میں ،علامہ موصوف نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب پر لاجواب اور بے مثال بحث کی ہے ، دراصل اس بحث کا محرک ماہنامہ” آستانہ "(دہلی )کی ایڈیٹر صاحب کا وہ دلخراش مضمون بنا جو انہوں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کے رد میں لکھا تھا؛ جیسے ہی یہ مضمون چھپ کرمنظر عام پر آیا تو غلامان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پاش پاش ہو کر رہ گئے ،اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ مجلہ "آستانہ "دہلی خود کو صوفیاء کا ترجمان سمجھتا تھا اور اس کا مدعی بھی تھا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ ایڈیٹر صاحبہ نے علم غیب کے رد میں لکھتے ہوئے بارگاہ مصطفی ﷺ میں ایسی غلیظ عبارت نقل کی کہ قلم جس کو لکھنے سے قاصر ہے؛بہرحال جب دہلی کی سر زمین پر یہ ناپاک حرکت سرزد ہوئی تو فورا علامہ موصوف نےاس مضمون کا ایسا شاندار رد فرمایا کہ جس کےمطالعے بعد عقیدہ علم غیب کی درست تشریح ہر شخص نے دیکھی اور غلامان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں,,

نقش خاتم تم ,دور حاضر کے منکرین رسالت ,
مذکورہ دونوں رسائل میں علامہ نے دیوبندیت اور قادیانیت نیز اہل قرآن کی باب رسالت و عقیدہ ختم نبوت میں ریشہ دوانیاں اظہر من الشمس کر دی ہیں , اور علامہ نے دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے،کہ ختم نبوت کا جتنا بڑا مجرم مرزا قادیانی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس سے کم مجرم مولوی قاسم نانوتوی کو مانا جائے, فرق یہ ہے کہ مرزائےقادیان کھل کر سامنے آیا اور مولانا قاسم نانوتوی نے اپنے آپ کو الفاظ کے حجاب میں مقید رکھا,
مولوی قاسم نانوتوی کی وہ عبارت جو "تحذیرالناس” نامی کتاب میں اس نے درج کی اس عبارت کو مرزائےقادیان نے اپنے لیے ایک سند سمجھا اور اس بات کا ذکر قادیانی مصنف ابوالعطاجالندھری نے اپنی کتاب میں کیا ہے ,
غرض یہ کے علامہ موصوف نے دونوں فرقوں کی کتب سے لاجواب انداز میں بدلیل عقیدہ ختم نبوت کے خلاف ان کی ہرزہ سرائیوں کا جائزہ لیا اور درست عقیدے کی لاجواب تشریح کی ہے ,

رسالت محمدی کا عقلی ثبوت ,
اس رسالے میں علامہ رحمہ اللہ نے رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے اثبات میں ایک معقول بحث کرکے اس بات کو پائے ثبوت تک پہنچا دیا ہے، کہ ایک عقل والا انسان کسی بھی طرح رسالت محمدی کا انکار نہیں کر سکتا؛ بلکہ جب وہ تاریخ عالم اور نظام عالم کادقت نظر سے اور تعصب کی عینک اتار کر مطالعہ کرے گا تو اس کے پاس رسالت محمدی کو ماننے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ہوگا نیز وہ کسی بھی طرح رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہیں کرسکے گا,,,
(نوٹ) مضمون کی طوالت کے خوف سے میں نے علامہ کے ذکر کردہ دلائل کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے، بس مفہومی اشارات پیش کیے ہیں اگر آپ ان تمام ابحاث کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے تیار ہیں تو پھر علامہ کی یہ کتاب آپ کو دعوت مطالعہ دے رہی ہے,
لہذا اس کتاب کا مطالعہ ضرور فرمائیں اور اپنے ایمان کو جلا بخشیں،
آمین ثم آمین

بتاریخ! 14 دسمبر 2021 بروز منگل,

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے