تحریر: محمد منظر عالم علیمی قادری
پرنسپل: جامعہ تیغیہ امام العلوم رضا نگر ببھنولیا ۔مشرقی چمپارن بہار
مذہب اسلام تمام مسلمانوں کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے۔ یہ ایک عالمگیر مذہب ہے ، اپنے ماننے والوں کو ایک خوبصورت معاشرہ اور بہترین تہذیب و تمدن اور بے مثال رسوم و رواج عطا کرتا ہے۔ اسلام کے فرزند اپنی قسمت پر جتنا ناز کریں ، وہ کم ہے۔ اس لئے کہ اسلام نے جس خدائے لم یزل کا پتہ دیا وہ بھی بے مثال ، جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بنایا وہ بھی بے مثال ، اور مذہب اسلام نے انھیں جو تہذیب و ثقافت کا گلدستہ عطا کیا وہ بھی سب سے اعلی و ارفع ہے۔ فیشن کا لفظ عام طور پر جسم و لباس کی زیبائش و آرائش کے لئے بولا جاتا ہے۔ لیکن اس کی حد بہت وسیع و عریض ہے۔ فیشن جس کو لغت عربیہ میں "زینت” کا نام دیا جاتا ہے۔ مذہب اسلام اس کے خلاف نہیں۔ اور مذہب اسلام نے تمام تر معاملات میں خواہ وہ مذہبی امور ہوں یا معاشرتی، ایک حد اور دائرہ قائم کیا ہے ۔ اس حد کے دائرہ میں رہ کر رسوم و رواج کو اپنائیں ، جس میں قرآن و حدیث سے کوئی تعارض نہ ہو ، مذہب اسلام سے کوئی مخالفت نہ ہو وہ فیشن یا زینت مطلقاً جائز ہے۔ چاہے اس کا تعلق جسمانی حسن سے ہو ، لباس کی رنگ و روپ سے ہو وغیرہ وغیرہ۔ اسلام اپنے ماننے والوں پر کسی طرح کی کو زیادتی نہیں کرتا ۔ بلکہ اسلام کے ہر قانون میں نفع و نقصان کا راز مضمر ہے۔ عام انسان کے فہم و فراست میں آئے یا نہ آئے۔ اسلام ہرگز یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنے آپ سے بے خبر پراگندہ بال ، گرد آلود چہرہ ، جسم پر موٹا ٹاٹ معاشرتی زندگی سے تعلق توڑ کر ، صرف اللہ تعالیٰ کی طرف مائل ہوجائیں۔ بلکہ وہ اپنے ماننے والوں کے لیے زندہ رہنے کا ایک بہترین لائحہ العمل فراہم کرتا ہے کہ صاف ستھرے رہو۔ لباس و بدن پاک و صاف ہو ، خوشبو سے معطر ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے دولت و ثروت سے نوازا ہے تو اچھا اور قیمتی کپڑوں کا استعمال ہو، عورتیں سونے چاندی کے زیورات پہنیں ، مہندی لگائیں۔ وغیرہ۔ اور وہ فیشن جو قابل مذمت ہے ، جن میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہے ۔ یقینا وہ فیشن دنیا میں باعث ہلاکت ہے ۔ دین میں ایمان کی تباہی اور آخرت میں کھاٹے کا سودا ہے۔ چند رسوم و رواج کو ذکر کیا جاتا ہے، جو سماج میں فیشن کے نام پر ناسور کی شکل اختیار کر چکے ہیں ۔ دور حاضر کے عورتوں میں مردوں کی طرح لباس پہننے کی غضب کی چاہت پیدا ہو چکی ہے۔ اتنا باریک اور چست لباس کہ جسم کا نشیب و فراز دور سے ظاہر ہو۔ جو بیشمار گناہوں کی جڑ ہے۔ مذہب اسلام درس دیتا ہے کہ عورت مثل ہیرا ہے وہ جس قدر پردے میں رہیں بھلائی ہے۔ عورتوں میں مردوں کی طرح بال کٹوانے کا رواج ، مردانہ لباس و جوتے ۔ اپنا حسن دوبالا کرنے کے لئے ابرو کے بال نوچنا ۔ اپنی عمر کم ظاہر کرنے کے لئے ریتی سے دانتوں کو کشادہ کرنا۔ چہرہ کی سرجری کروانا تاکہ اور حسین و جمیل کی پیکر معلوم ہوں۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔اور مردوں کا داڑھی مونچھ منڈوا لینا۔ یا داڑھی میں طرح طرح کے نقشے بنانا۔ قسم قسم کے دھاتوں اور سونا چاندی کے زیورات استعمال کرنا ، مثلاً ۔لوکیٹ ، چین ۔ اورکئی کئی انگوٹھیاں ۔ جب کہ فرمان رسالت ہے ۔ سونا اور چاندی میری امت کے مردوں کے لئے حرام ہے۔ افسوس ۔ آج بے پردگی و عریانیت و فحاشیت کو فیشن کا نام دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت میں بگاڑ پیدا کرنے کو خوبصورتی کا نام دیا جاتا ہے۔ کیا اللہ "احسن الخالقین” کے بنائے ہوئے نقش و نگار میں معاذ اللہ کوئی کمی تھی؟ کوئی نقص تھا ؟ جو تم اس کی تخلیق میں تبدیلی کر نے چل پڑے ؟ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ۔ معراج کی رات میں نے مشاہدہ کیا کہ کچھ لوگوں کے بدن قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا جبرئیل سے یہ کون لوگ ہیں ؟ جو اتنی اذیت میں مبتلا ہیں کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے ۔ حضرت جبرئیل نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ یہ وہ مرد ہیں جو دنیا میں ناجائز زینت اختیار کرتے تھے۔ میرے بھائیوں ۔آج سوئ کی نوک چبھ جانے پر آہ و بکاں کرنے والوں کے لئے اس فرمان مصطفی سے عبرت کا سبق ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ میں شب معراج ایک گڈھے کے پاس سے گزرا جس سے بدبو آرہی تھی، اس کے اندر سے ہائے ہائے، اور بڑی دکھ بھری آوازیں آرہی تھیں۔ میں نے جبرئیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ جو اس گڈھے میں گرے اتنے درد اور دکھ سے چیخ رہے ہیں ۔ جبرئیل نے عرض کیا ۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ کی امت کی وہ عورتیں ہیں کہ جنہوں نے حلال زینت کو چھوڑ کر ، حرام زینت اختیار کر لی تھی ، جس حد تک جائز تھا یہ اس سے تجاوز کر گئیں تھیں۔ یہ اپنے آپ کو ناجائز چیزوں سے سنوارتی نکھارتی تھیں ۔ میری بہنوں ۔ تمہارے یہ فیشن خلاف سنت کام ہیں ۔ یہ چمک نہیں ، ایک ایسا تاریک گڑھا ہے ، جس میں روشنی کا نام و نشان نہیں ہے۔ یہ خوشبو نہیں بلکہ وہ بدبو۔ جس کو میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں سے ملاحظہ فرمایا ہے۔