خیال آرائی: فیضان علی فیضان، پاکستان
کس نے کہا کہ دل کا لگانا فضول ہے
جلنا، تڑپنا اشک بہانا فضول ہے
کس طرح میرے نام پہ مرتے تھے وہ کبھی
اُس بے وفا کو یاد دلانا فضول ہے
دن بھر وہ میرے ساتھ رہے تھے خفا خفا
یعنی کہ اُن کا خواب میں آنا فضول ہے
میں نے کہا کہ درد میں رہتا ہوں مبتلا
اُس نے کہا کہ درد پرانا،فضول ہے
بیشک رہا نہ کوئی یہاں مستقل کبھی
اِس عارضی جہاں میں ٹھکانہ فضول ہے
کیوں کر وہ میرے حال سے رہتا ہے بے خبر
اپنی زباں سے حال بتانا فضول ہے
فیضان تمہارے ہاتھ کا کنگن نہیں رہا
اب چوڑیوں سے ہاتھ گھمانا فضول ہے