شعر و شاعری

غزل: جلنا،تڑپنا اشک بہانا فضول ہے

خیال آرائی: فیضان علی فیضان، پاکستان

کس نے کہا کہ دل کا لگانا فضول ہے
جلنا، تڑپنا اشک بہانا فضول ہے

کس طرح میرے نام پہ مرتے تھے وہ کبھی
اُس بے وفا کو یاد دلانا فضول ہے

دن بھر وہ میرے ساتھ رہے تھے خفا خفا
یعنی کہ اُن کا خواب میں آنا فضول ہے

میں نے کہا کہ درد میں رہتا ہوں مبتلا
اُس نے کہا کہ درد پرانا،فضول ہے

بیشک رہا نہ کوئی یہاں مستقل کبھی
اِس عارضی جہاں میں ٹھکانہ فضول ہے

کیوں کر وہ میرے حال سے رہتا ہے بے خبر
اپنی زباں سے حال بتانا فضول ہے

فیضان تمہارے ہاتھ کا کنگن نہیں رہا
اب چوڑیوں سے ہاتھ گھمانا فضول ہے

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے