اعلیٰ حضرت تنقید و تبصرہ شعر و شاعری

اعلیٰ حضرت کی شاعری بے مثال ہے

ویسے تو حدائق بخشش کا مکمل مطالعہ ایک دو بار ہو چکا ہے لیکن بغور مطالعہ تب ہوا جب حضرت علامہ فیضان المصطفے صاحب قبلہ (گھوسی) کی عظیم کاوش” مصنف اعظم نمبر” پر لکھنا ہوا، یہ نمبر ماہ نامہ "پیغام شریعت” کا صد سالہ نمبر تھا جس کی ادارت وقت کے عظیم متکلم حضرت علامہ طارق انور مصباحی قبلہ (کیرلا) کر رہے تھے، اس نمبر میں 32 اہل علم کے مقالے چنندہ موضوعات پر اپنی تابانیاں بکھیر رہے ہیں…. یہ جلد اول تھی امید ہے علامہ فیضان المصطفی صاحب قبلہ اطال اللہ عمرہ دوسری جلد پر بھی کام کریں گے…. اس شان دار کام میں فقیر کا مقالہ "امام احمد رضا اور ہندی زبان و ادب” پر تھا،یہ مقالہ بڑے سائز کے 12 صفحات پر مشتمل ہے، اس مقالے میں سرکار اعلی حضرت نے جتنے بھی ہندی، سنسکرت، اور پوربی (بھوج پوری) الفاظ استعمال کیے ہیں سب کا تقابل غالب سے لے کر اقبال تک کیا گیا ہے اور حدائق بخشش میں مستعمل سارے الفاط ایک جگہ جمع کر دیے گئے ہیں ( اس وقت بہت سے ایسے اشعار نظر سے گزرے جن پر ارادہ تھا کہ بعد میں لکھیں گے لیکن نہ ہو سکا……) چوں کہ اس وقت مقصود ہندی زبان و ادب کی تاریخ اور اعلی حضرت ارضاہ عنا کی شاعری تھی اس لیے کسی اور طرف توجہ نہ کر سکا…. کل قصیدہ معراجیہ پڑھ رہا تھا تو یہ شعر پڑھ کر سرکار اعلی حضرت کی ذات پر مزید حیرانی بڑھ گئی… ویسے تو ہر شعر ہی لاجواب ہے لیکن جس شعر کی تعبیر نے حیران کردیا وہ شعر یہ تھا ۔

زبانیں سوکھی دکھا کے موجیں تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں
بھنور کو یہ ضعف تشنگی تھا کہ حلقے آنکھوں میں پڑ گئے تھے

تھوڑی بہت شاعری سے شغف درس نظامی والوں کو ہوتا ہی ہے اس لیے ہمیں بھی تھوڑا شغف رہا ہے اور کافی شعرا کو پڑھا بھی ہے لیکن جہا تک میری نظر گئی وہاں تک ایسی تعبیرات آج تک نہ دیکھیں، یہ فکر رضا کا ہی خاصہ ہے اور ان کے تخیل کی معراج ہی اسے کہا جا سکتا ہے، ذلک فضل اللہ یوتیه من یشاء ۔
چوں کہ ہم شاعر نہیں اور زیادہ کچھ جانتے بھی نہیں ہاں اشعار خواں ہیں یہ کہ سکتے ہیں فنی علم نہیں، لیکن جنھوں نے زیادہ پڑھا ہے اور شاعری کو فنی طور پر سمجھا ہے وہ بس اعلی حضرت کے اس ایک شعر کا مقابل شعر پیش کریں تاکہ ہمارے علم میں بھی اضافہ ہو ۔

گیسو و قد لام الف کر دو بلا منصرف
لا کے تہہِ تیغِ لاَ تم پہ کروڑوں درود

اس شعر میں جو "ل ” کے ساتھ قد نبی کریم علیہ السلام کی تشبیہ اور گیسوؤں کے ساتھ ” آ ” (الف) کی تشبیہ اور پھر اس لام الف کے مجموعے سے پیکر نور کا تعین، پھر اسی لام الف کے اردو معنی قریب لا نے کے اور عربی میں "نہیں” کی تیغ براں مراد لے کر مصائب و آلام کو ذبح کرنے کی جو پیاری، نادر، محیر العقول اور عجیب منظر کشی فرمائی ہے اس کا جواب کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا، یہ چیز تو سرکار اعلی حضرت ارضاہ عنا کا ہی خاصہ ہے ۔ پھر بھی دعویٰ ہے تو ثبوت پیش کیا جائے ۔
ع ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے

آسان زبان میں اس کی تشریح یوں ہے کہ ہمارے نبی مکرم علیہ السلام کے در اقدس سے مانگنے والے تو خالی جاتے ہی نہیں، بل کہ بے مانگے بھی پاتے ہیں اور خوب پاتے ہیں، اب دیکھیے مذکورہ شعر میں نبی کریم علیہ السلام کا قد انور اور زلف عنبریں قیام کی حالت میں عربی کا "لا” بنتا ہے جس کا معنی ہوتا ہے "نہیں” سائل آتا ہے تو وہ دہن اقدس سے تو لفظ ” نہیں” سنتا ہی نہیں، لیکن آپ کا سراپا ضرور لا یعنی "نہیں” کی تصویر بنا ہوا ہے، پہلے دہن اقدس سے نہیں کے متعلق یہ اشعار پڑھیے پھر سراپا جو کہ "لا” بنتا ہے اس پر بات کرتے ہیں۔

سرکار اعلی حضرت فرماتے ہیں
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
"نہیں” سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

مانگیں گے مانگے جائیں گے منہ مانگی پائیں گے
سرکار میں نہ،” نا” ہے نہ حاجت اگر کی ہے

ہم بھکاری وہ کریم ان کا خدا ان سے فُزوں
اور” نا” کہنا نہیں عادت رسول اللہ کی

فرزدق کہتا ہے
ما قال لا قط إلا فی التشھد
لو لا التشھد کانت لاءہ نعم

ایک فارسی شاعر کہتا ہے

نہ رفت لا بزبان مبارکش ہرگز
مگر در اشہد ان لا الہ الا اللہ

یہ تو ہوئی سائل کی بات جب وہ مانگے، رہا آپ کا سراپا جو نہیں کا معنی دے رہا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ تو سنیے! سرکار اعلی حضرت ارشاد فرماتے ہیں کہ آپ کا قد آور گیسو مل لا یعنی "نہیں” بنتے ہیں، آپ کے قد میں جو” لا” کی صورت بن رہی ہے وہ” نہیں” کی تلوار ہے اور یہ اس لیے ہے کہ جو مصائب امتیوں پر آئیں گے وہ اسی لا کی تلوار سے ذبح کر دیے جائیں گے اور امتیوں کو مصائب و آلام سے بچا لیا جائے گا، نتیجہ آلام ختم تو باقی رہنے والی صرف خوشیاں ہیں اور مومنین کو دائمی خوشیاں ملنے والی ہیں اور اسی قد انور کی مرہون منت ہیں ۔

چلیے اب مذکورہ شعر پر کی بات کرتے ہیں.

زبانیں سوکھی دکھا کے موجیں تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں

یہ ایک مصرع ہے لیکن اس میں غور کریں تو دماغ گھوم جاتا ہے، شدت پیاس کی وجہ سے زبان سوکھ جاتی ہے، اردو میں اسے یوں بولا جاتا ہے” زبان سوکھ کر کانٹا ہو گئی” کیوں کہ جب بدن کو پانی نہیں ملتا تو بدن میں خشکی زیادہ بڑھ جاتی ہے اس کا اثر زبان پر بھی ہوتا ہے، اس وقت زبان کانٹے جیسی کھڑی ہوجاتی ہے اور حلق، تالو میں زبان کی چبھن کانٹے سے کم محسوس نہیں ہوتی، اسی کو "سوکھ کر کانٹا” ہونے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ تو ٹھیک ہے، لیکن زبان سوکھ کس کی رہی ہے ذرا اس پر غور فرمائیں، جو ساری دنیا میں تری کا سبب ہے اسی کی زبان، یعنی پانی کی زبان کو سوکھا کہا جارہا ہے، اور پانی کی زبان کیا ہے؟ موجیں، یعنی پانی اپنی شدت پیاس کے باعث اپنی زبان یعنی موجوں کو دکھا کر پانی مانگ رہا ہے، جب کوئی شدید پیاسا ہو تو پانی مانگنے کے لئے پیاس کی شدت کو دکھانے کے لیے زبان ہی نکالتا ہے کیوں کہ شدت پیاس کے باعث اس سے بولا نہیں جاتا….
اب پیاس کی دو صورتیں ہوئیں پہلی یہ کہ پیاس اتنی سخت لگی ہو کہ بولا بھی نہ جا سکے اور زبان دکھا کر اشارتا پانی مانگے، دوسری یہ کہ ابھی پیاس تو لگی ہے لیکن اتنی سخت نہیں کہ بول نہ سکے،یعنی پیاسا خود بھی پانی مانگ سکتا ہے، پہلی صورت میں صرف زبان دکھاتا ہے کیوں کہ بول نہیں سکتا، مذکورہ مصرع میں پہلی صورت پیش کی گئی ہے کہ پانی کو اس قدر شدید پیاس لگی ہے کہ وہ بول تک نہیں سکتا اس لیے اپنی زبان یعنی موجوں کو دکھا کر پانی مانگ رہا ہے……… ایسی تعبیر بھلا کہیں دیکھی ہے؟ اسی لیے ہم کہتے ہیں
میرو غالب بھی کسی کام کے ہیں؟
میرے امام کا جواب نہیں ہے واقعی میرے رضا کا یہی حال ہے کہ

ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو کہ سکے بٹھا دیے ہیں

یعنی آپ فرما رہے ہیں کہ یہ پانی کی موجیں جو اوپر اٹھتی ہوئی آتی ہیں یہ ایسے ہی نہیں آ رہی ہیں بل کہ پانی کی طرف سے فریاد لے کر آ رہی ہیں تاکہ پانی کی پیاس کی شدت کو دکھا کر پانی مانگ سکیں ۔ جب بندہ پیاسا ہوتا ہے تو پریشانی کی حالت میں تڑپتا، بلکھتا بھی ہے، کبھی اس پہلو ہوتا ہے کبھی اس پہلو، لیکن اسے قرار کسی پہلو نصیب نہیں ہوتا،جب تک کہ اس کی پریشانی دور نہ ہو جائے، اعلی حضرت ارضاہ عنا نے کیسی پیاری تشبیہ کی مثال پیش کی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ جو یہ موجیں لہراتی بلکھاتی ہوئی آرہی ہیں یہ پانی کی شدت پیاس کی بنا پر اس کی تڑپ ہے جسے کسی پہلو قرار نہیں ہے ہر وقت فریاد لیے چلی ارہی ہیں کہ کسی طرح پانی پائیں اور اپنی تشنگی بجھائیں… اب مصرع یوں مکمل ہوتا ہے کہ
زبانیں سوکھی دکھا کے موجیں تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں،

اس شاعری پہ کون نہ مر جائے اے خدا

…………………… اب دوسرے مصرع کی جانب چلتے ہیں ملاحظہ فرمائیں

بھنور کو یہ ضعف تشنگی تھا کہ حلقے آنکھوں میں پڑ گئے تھے

آپ سبھی "بھنور” کے متعلق جانتے ہوں گے اور دیکھا بھی ہوگا، ندیوں میں بعض مقامات ایسے ہوتے ہیں جہاں یہ بھنور ہوتے ہیں اور ان کی حد کوئی نہیں جانتا، اس میں جو چیز پڑ گئی اس کا بچنا مشکل ہے، بڑی بڑی کشتیاں اس بھنور کی نذر ہو جاتی ہیں، یہ گولائی میں ایک دائرہ ہوتا ہے اور اپنے قریب سے گزرنے والی ہر چیز کو اپنی جانب تیزی سے کھینچتا ہے جس کے باعث وہاں ایک حلقہ یعنی گڑھا سا بن جاتا ہے، بہت سارا پانی اسی میں جاتا ہے،اس میں پھنسنے کے بعد اگر کوئی کشتی نکل جائے تو معجزہ ہی کہا جائے گا ۔ بات شاعری کی چل رہی ہے تو بھنور پر یہ مشہور شعر بھی پڑھتے چلیے ۔

طوفان کر رہا تھا مرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے

چوں کہ بھنور بھی ندی یا پانی کا حصہ ہوتا ہے اس لیے سرکار اعلی حضرت نے پانی کی شدت پیاس کے ساتھ اسے بھی شامل فرمایا ہے، آپ فرماتے ہیں کہ ندیوں میں جو بھنور ہوتے ہیں وہ بھنور نہیں بل کہ وہ پانی کی حالت ناگفتہ بہ ہوتی ہے، پیاس کی شدت کے باعث اس کو اس قدر کمزوری لاحق ہو گئی ہے کہ اس کی آنکھیں اندر گھس گئی ہیں جیسے کسی کمزور شخص کی آنکھیں بیماری اور کمزوری کے باعث اندر دھنس جاتی ہیں اور آنکھوں میں گڑھے یعنی حلقے پڑ جاتے ہیں ویسے ہی یہ بھنور پانی کی آنکھ ہے اور پانی کی آنکھوں میں ضعف و تشنگی کے باعث حلقے پڑ گئے ہیں، جسے ہم بھنور سے تعبیر کرتے ہیں، اعلی حضرت ارضاہ عنا اس مصرع میں فرما رہے ہیں کہ دنیا والے بھلے ہی اسے بھنور سمجھ رہے ہوں لیکن اصل بات یہ ہے کہ پانی کو پانی نہ ملنے کی بنا پر اس قدر ضعف و کمزوری آئی ہے کہ اس کی آنکھوں میں یہ بڑے بڑے حلقے ندیوں میں جگہ جگہ پڑے ہوے ہیں….
اب ایک بار پھر پورا شعر پڑھیے اور دماغ گھما دینے والی تشبیہ کو ذہن میں رکھیے

زبانیں سوکھی دکھا کے موجیں تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں
بھنور کو یہ ضعف تشنگی تھا کہ حلقے آنکھوں میں پڑ گئے تھے

یہ دونوں اشعار اور ان کی تشریحات پڑھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سرکار اعلی حضرت کا مقام فن شاعری میں کس قدر اعلی ہے، سرکار اعلی حضرت نے چھوٹی سی چھوٹی اور بڑی سے بڑی بحروں میں کلام کہے ہیں اور عجیب عجیب تشبیہات و استعارے، کنایے استعمال فرمائے ہیں ۔
آپ کی نظر میں اگر ایسی ہی شاعری کسی اور شاعر کی ہو تو ضرور کمنٹ کریں ہمیں انتظار ہے…….۔

تحریر: محمد زاہد علی مرکزی
چیئرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ
16/12/2024
14/6/1446

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے