پچھلے دنوں (12 دسمبر 2024ء) کو سپریم کورٹ نے عبادت گاہوں کے قانون 1991ء کے حوالے سے جو فیصلہ سنایا وہ ایک نئی امید کی کرن ہے، اور اگر یہ معاملہ خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ سے نہ جڑتا، تو شاید کئی مساجد، درگاہیں اور دیگر مقدس مقامات خطرے میں پڑ جاتے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی روحانی تاثیر اور کرامتیں صرف ان کے عہد تک محدود نہیں بلکہ آج بھی ہمارے درمیان زندہ ہیں۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ:
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ اگلی سماعت تک نچلی عدالتیں نہ تو کسی قسم کا سروے کر سکتی ہیں اور نہ ہی کوئی نیا مقدمہ درج کر سکیں گی۔ یہ حکم عدالتی کارروائیوں میں نظم و ضبط اور تنازعات کے منصفانہ حل کو یقینی بنانے کے لیے دیا گیا ہے۔ اور یہ ہندوستان کے جمہوری ڈھانچے اور آئینی اقدار کی جیت بھی ہے۔
مسلمانوں کے عبادت گاہوں کا تحفظ:
واضح رہے کہ عبادت گاہوں کے قانون 1991ء اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ 15 اگست 1947ء تک عبادت گاہوں کی جو حیثیت تھی، وہ برقرار رہے گی اور کسی بھی مذہب یا گروہ کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی۔
از قلم:
محمد توصیف رضا قادری علیمی
مؤسس اعلیٰ حضرت مشن کٹیہار
شائع کردہ: 16،دسمبر، 2024ء