تحریر: محمد قاسم ٹانڈؔوی
موسموں کا تغیر، زمانے کی تبدیلی، رات و دن کی گردش اور صبح و شام کا بدلنا؛ یہ سبھی خدائی حکم کے محتاج و پابند ہوتے ہیں، جن میں خدا کی بےشمار حکمت و مصلحت پنہاں ہوتی ہیں۔ قرآن و حدیث میں جگہ جگہ ان کے فوائد و ثمرات سے پردہ اٹھا کر انسانی نشو و نما اور دیگر بنیادی ضروتوں کی تکمیل میں ان کا ہونا کتنا ضروری اور اہم ہے؛ واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔چناچہ موسم گرما کے بعد سردیوں کا آنا یا موسم بہار کے بعد موسم باراں سے انسانی معاشرہ کا الحاق و اتفاق واقع ہونا قدرتی امور میں سے ہے۔ اب یہ صنّاع عالم کی منشاء و مرضی پر منحصر ہے کہ وہ اپنے بندوں کےلئے کس موسم اور زمانہ کو مفید و مؤثر بنائےگا اور کونسے لیل و نہار کو بندوں کے حق میں نفع و ضرر کے طور پر معین و مقرر کرےگا؟بہر حال! آج کل دنیا کی آدھی آبادی کو جس موسم کا سامنا ہے، وہ موسم سرما ہے؛ جو کسی علاقے والوں کےلئے تو پُر بہار و پرکیف نظارہ پیش کر رہا ہے تو وہیں یہ موسم سرما دوسرے خطہ والوں کےلئے آفت جاں و مصیبت بنا ہوا ہے، یعنی موسم ایک چل رہا ہے لیکن اس کے فوائد و نقصانات علاقوں اور خطوں کے اعتبار سے منقسم ہیں، کہیں کے عوام کے حق میں رحمت اور کہیں کے لوگوں کےلئے یہ موسم زحمت بنا ہوا ہے۔ اور یہ سب تجلیات ربانی و تغیرات دست خداوندی کے کھلے مظاہر پر آسان و عمدہ تمثیل ہے، تاکہ منکرین خدا کو وحدانیت و الوہیت کی راہ اختیار کرنے میں کچھ تعاون حاصل ہو سکے؟خیر! ہماری گفتگو موسم پر چل رہی ہے، تو اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مشرقی ہند کے علاقے "دہلی، پنجاب، ہریانہ، یوپی، بہار میں پچیس دسمبر سے جب یہ موسم سرما اپنے شباب پر آتا ہے تو سردی کا یہ موسم یہاں کے باشندوں کےلئے شدید قسم کی تکلیف اور رنج و کلفت کا باعث ہوتا ہے۔ اور ان کے لئے موسمی رنج و غم کا یہ دورانیہ کم و بیش سوا مہینے پر موقوف ہوتا ہے، جس کو عرف عام میں "چلہ” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مذکورہ عرصہ میں یہ سخت ترین موسم سرما اپنی برودت و ٹھنڈک سے بلاتفریق و تقسیم حیوانات کے سبھی طبقات پر اثر انداز ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اوپر ذکر کردہ خطوں میں رہائش پذیر عوام بالخصوص غریب مزدور طبقہ مختلف درد و تکالیف کے دور اور مراحل سے گزر کر موسم کی سنگینی کو برداشت کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں سہی بات تو یہ ہے کہ اس درد و تکلیف کا احساس ٹھیک معنوں میں ان ہی لوگوں کو ہو سکتا ہے جو ان خطوں میں آباد ہوں اور وہ وہاں باہمی طور پر ایک دوسرے کے احساس و جذبات کو سمجھتے ہوں، جن کو وہاں پر ہر وقت برفانی ہوائیں، سرد لہریں اور شدید کہرے کا سامنا کرتے رہنا مقدر ہو، جس کی وجہ سے بدن انسانی میں بہنے والا لہو بھی ان کی رگوں میں منجمد ہو کر رہ جاتا ہو اور ان کے اعضاء رئیسہ تک کام کرنا ترک کر دیتے ہوں، اوپر سے مالی بحران اور رسد و خوراک کی قلت ہر وقت ان کو مزید پریشانی میں مبتلا کئے رہتی ہے۔ ایسے میں یہ غریب مزدور اور پہاڑی علاقوں کے یہ بےمکان مکین موسم سرما کے ہاتھوں ستائے؛ ایک تو قریب کے بازار و منڈی میں کوئی کام کاج نہ ہونے یا اپنی محنت کی مناسب اجرت نہ ملنے کی صورت میں، دوسرے مالی پریشانی کو دور کرنے کے واسطے اور تیسرے اپنے اہل و عیال کی ضروری دوا غذا کی فراوانی و حصول کی خاطر ہمارے ملک کا دبا کچلا یہ طبقہ (جس کی داستان انتہائی دلخراش اور مایوس کن ہے) ہر طرح کے حالات سے لڑتے لڑاتے کیسے کیسے اپنے اوقات و لمحات گزر بسر کرتا ہے، بس انہیں کا دل جگر جانتا ہے؟ اور سخت آلام و مصائب کے دور میں انہیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، کتنے گھر در کی خاک چھاننی پڑتی ہے، انہیں کا ضمیر جانتا ہے؟ اور ان میں سے بعض ایسے خوددار و غیرت مند بھی ہوتے ہیں جو اپنے علاقوں سے نکل کر دور دراز کے گرم شہروں کی طرف کوچ کر جاتے ہیں تو بعض اپنے ہی علاقوں میں ٹھہر کر انتہائی معمولی اجرت پر بادل ناخواستہ کھیت جنگلوں میں مزدوری اور بیلداری کرنے پر خود کو آمادہ کر اپنے اور اہل خانہ کی زیست کے واسطے روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں، ان سب کے علاوہ اور بھی کئی وجوہات سے یہ ایام ان غریب مزدوروں کےلئے بڑے تکلیف دہ اور پریشان کن ہی ثابت ہوتے ہیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ان پریشان حال اور مصائب کے شکار افراد کی معاونت میں اگر کوئی پیش پیش رہتا ہے تو وہ ہمارے کسان بھائی ہوتے ہیں جو ان کو سینے سے لگاتے ہیں اور بےفصل و بےدریغ ان کی دستگیری کرتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے آج وہی کسان اور غریب مزدور کے حامی و ناصر کھیت جنگل میں ہل چلانے کی بجائے دہلی باڈر پر اپنے حق کی لڑائی لڑ رہا ہے اور پورے عزم و استقلال کے ساتھ سرکار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اور اس کی طرف سے کئے جانے والے ہر ظلم و جفا کے آگے سینہ سپر کھڑا ہے، اس کے لئے نہ تو ماہ دسمبر و جنوری کی ٹھٹھرتی راتیں مانع ہیں اور نہ ہی کہرا و بارش اس کو مورچے سے ہٹانے میں آڑ بنی ہے۔ وہ دہلی کے چاروں اطراف میں پوری طاقت و توانائی اور لاؤ لشکر سمیت خیمہ زن ہے، جن کی بڑھتی تعداد اور تیز ہوتے مطالبہ نے ہرخاص و عام کو ایک نیا جوش اور ولولہ بخشا ہے، آج ان کے اس پختہ عہد اور عزم مصمم کو دیکھ کر سماج کے ہر طبقہ اور پیشہ سے منسلک لوگ حمایت میں اتر میدان میں شانہ بشانہ کھڑے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ سوائے متعصب و چاٹوکار زعفرانی میڈیا اور مٹھی بھر اندھ بھکتوں کے آج عالمی میڈیا اور عالمی سطح کے لیڈران تک ان کی آواز میں آواز ملا رہے ہیں اور مؤثر و پرامن طریقے پر ان کے حامی بن کر ملک کے گونگے بہرے اور اندھے سسٹم کو چلینج کر رہے ہیں۔ مگر افسوس۔۔! ملک کے سسٹم اور حکومت کا حصہ بنے ایک تو "من کی بات” سنان ے میں مگن ہے اور دوسرا انتخابی تشہیر اور نئی جگہ حصول اقتدار کے فراق میں بےچین و بےکل ہے۔ اور پتہ نہیں کیوں حکومت اس بات کو فراموش کئے ہوئے ہے اور حالات کو نہیں سمجھ رہی ہے کہ: "کسان ہی اس ملک کی ترقی، سماج کی خوشحالی اور معیشت کے عروج و استحکام میں اہم کردار اور بنیادی حیثیت کا حامل گروپ ہے، ان کے مسائل در اصل ملک کے مسائل ہوتے ہیں، اس لئے کہ شہری ترقی کے راستے کھیت جنگل کی پگڈنڈیوں سے ہوکر گزرتے ہیں”۔ لیکن افسوس! اس مسئلے میں بھی ہماری حکومت وہی روش اور انداز اختیار کئے ہوئے ہے جو اس سے پہلے دیگر کئی احتجاج و مظاہرہ کے موقع پر وہ اپنائی رہی، اور اس بار بھی وہ نہ صرف احتجاج و مظاہرہ کرنے والے کسانوں کو نظر انداز کر رہی ہے، بلکہ ڈیڑھ ماہ کا طویل عرصہ گذر جانے کے بعد بھی احتجاج و مظاہرہ پر اس کی کوئی خاص توجہ یا ان سے مصالحت کرنے پر کوئی پختہ پیش رفت نہیں کر رہی ہے۔ ملک بھر کی آبادی کا پیٹ اپنے اگائے ہوئے ‘اَن’ سے بھرنے والے یہ کسان گذشتہ 45/دنوں سے شدید ٹھنڈ میں سڑکوں پر احتجاج و مظاہرہ کر حکومت کو جگانے کی بھرپور کوشش اور اپنا جمہوری حق طلب کرنے میں لگے ہیں، لیکن حکومت ہے کہ ان کے واجب شدہ مطالبات کو تسلیم کرنے کی بجائے الٹے انہیں کو مشق ستم بنا رہی ہے، جو سراسر آئین و دستور کے خلاف اور جمہوریت کو متزلزل کرنے والا اقدام تصور کیا جارہا ہے۔حکومت نہ کل کسی کی جاگیر تھی اور نہ آئندہ کسی کے گھر کی لونڈی ہوگی، یہ آنے جانے والی دولت ہے، جو پلک جھپکتے اہل ارباب اور گدی نشیں کو بےدست و پا کر دیتی ہے، اس لئے حکمرانوں کو اپنا مزاج حاکمانہ نہیں بلکہ حکیمانہ رکھنا چاہئے، پتہ نہیں کل کیا ہو جائے؟ اور پھر کون کہاں ملے؟ دوسرے یہ بھی مسلمات میں سے ہےکہ اسی ملک و ریاست کے عوام خوشحال و ترقی پذیر ہوتے ہیں جہاں کے حکام و سربراہ اپنے عوام کے ساتھ آمرانہ سلوک کی بجائے مشفقانہ رویے سے پیش آتے ہیں۔ اس لئے وقت رہتے حکومت کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے انداز و اطوار بدلے اور جلد از جلد موجودہ حالات کے موافق خود کو ڈھالے؛ کہ اس کی سخت ضرروت ہے، تاکہ "جے جوان جے کسان” کا جو ہمارا نعرہ ہے اس کی چھاؤں تلے ملک و قوم کو استقرار حاصل ہو اور مشرق میں مغرب، شمال و جنوب میں آباد سبھی طبقات و خاندان خوشحالی و سکون کی زندگی باہمی پیار و محبت کے ساتھ گزر بسر کرنے میں کامیاب ہوں۔